1850 ء کے بعد دنیا کے درجہ حرارت میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔درجہ حرارت ناقابل یقین تیزی سے بڑھ رہا ہے۔1850ءسے اب تک دیکھا جائے تو دنیا کا درجہ حرارت پہلے ہی سے ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے صرف یہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ درجہ حرارت یونہی بڑھتا رہا تو جلد ہی دنیا کا درجہ حرارت ایک اشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہوگا۔اگر ایسا ہو گیا تو دنیا کے بہت سے ممالک زیر آب آ جائیں گے۔اسی چیلنج سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلیوں کے بہترین ماہرین جنوبی کوریا میں جمع ہوئے جہاں اس بات پر غوروفکر کی گئی کہ 21 ویں صدی میں دنیا کے درجہ حرارت کو کس طرح ایک اشاریہ پانچ سے کم رکھا جائے ۔
اس اجلاس میں یہ بھی انکشاف کی گیا کہ اگر یہی صورتحال جاری و ساری رہی تو 2040ء تک دنیا درجہ حرارت میں ایک اشاریہ پانچ اضافے کی حد عبور کر لے گی ۔اس پر بات چیت کرتے ہوئے ماہرین نے یہ بھی کہا کہ اگر ہمیں ایک اشاریہ پانچ کی حد کو عبور ہونے سے روکنا ہے تو ہمیں اپنی زندگیوں میں بڑی تبدیلیاں لانا ہوں گی ۔
2018ءمیں جنوبی کوریا میں ہونے والا یہ اجلاس موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہونے والا پہلا اہم اجلاس نہ تھا بلکہ اس سے پہلے معاہدہ پیرس بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کاوشوں میں ایک اہم قدم شمار ہوتا ہے۔2015 ء میں فرانس کے شہر پیرس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں 200 ممالک نے شرکت کی اور پہلی مرتبہ تمام ممالک اس بات پر رضا مند ہوئے کہ انہیں کاربن کے اخراج میں کمی کرنا ہوگی اوراس سلسلے میں موثر کردار اداکرنا ہوگا۔اس معاہدے کا طویل مدتی ہدف یہ تھا کہ دنیا کے درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے پہلے کے درجہ حرارت سے صرف دو سینٹی گریڈ تک اوپر جانے دیا جائے گا۔صرف مخصوص خطے ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک ہی ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔۔موسمیاتی ماہرین کا 2010 سے 2030 ء تک دو دہائیوں میں ڈرامائی موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے 1950ء سے 1990ء کے درمیان دنیا کے 4 مختلف خطوں کو شدید ترین گرمی کا سامنا کرنا پڑا تھا اسی طرح اب بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے دنیا کو پانچ بڑے خطرات لاحق ہیں۔جن میں قحط ، سیلاب ، سمندری و برفانی طوفان ، سطح سمندر میں تبدیلی اور زرعی پیداوار میں کمی شامل ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق 1880 ءسے 2000 ءتک موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں تیزی آئی ہے۔2010 ءاور 2011ء میں ان میں شدت پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں 2010ء میں پاکستان کو ایک بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 2011 ءمیں جنوب مغربی آسٹریلیا کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اسی سال کینیڈا میں شدید گرمی پڑی اور یہ سال کینیڈا کا گرم ترین سال قرار دیا گیا۔
پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جن کو سنجیدہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 12 ممالک میں شامل ہے۔پاکستان میں آنے والے سیلاب ، طوفان اور خشک سالی کو اسی ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050 ء تک پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایک بڑی آبادی ایسے مقامات پر رہ رہی ہوگی جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات بہت زیادہ ہوں گے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہی اثر ہے کہ پاکستان میں موسم کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہے۔گرمیوں کا دورانیہ بڑھ چکا ہے جبکہ سردیوں کا دورانیہ کم ہوچکا ہے لیکن سردی کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے گلیشئیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔اس کی ایک اور وجہ بھی بتائی جا رہی ہے ماہرین کے مطابق 2007 سے سورج میں ایک قطب پیدا ہوچکا ہے اور پاکستان میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی اسی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شمال میں کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش واقع ہیں اور یہی سلسلے ہیں جہاں قطب شمالی اور قطب جنوبی کے برف کے سب سے بڑے ذخائر گلیشئیرز کی صورت میں موجود ہیں۔موسماتی تبدیلیوں کا نشانہ بننے والے یہ گلیشئیرز بھی بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ گیشئیرز پگھل گئے تو پاکستان کے میٹھے پانی کے بڑے سر چشمے ختم ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ گلیشئیر پگھل جانے سے دریاؤں میں طغیانی کا خدشہ ہے جس سے پاکستان کی بڑی آبای سمیت زرخیز زمین متاثر ہوں گی۔اسی طرح یہ گلیشئیرز پگھل کر دریاؤں کے راستے سمندر کا حصہ بن جائیں گے اور سمندر کی سطح بلند ہوجائے گی جس کے باعث پاکستان کے ساحلی علاقوں کے بڑے حصے سمندر کا حصہ بن جائیں گے اور اس سلسلے کا آغاز ہوچکا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کو ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ ہے اسموگ۔ کچھ عرصہ پہلے جب میدانی علاقوں کے بےموسمی دھند نے اپنے حصار میں لے لیا تو اس وقت سب لوگ یہی سمجھے کہ یہ دھند ہے جو سرد موسم میں میدانی علاقوں پر چھا جاتی ہے لیکن جب اس دھند کے مضر اثرات سامنے آئے اورلوگ سانس کی بیماریوں کا شکارہونے لگے تو ماہرین کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ یہ فوگ نہیں بلکہ اسموگ ہے یعنی دھواں اورشہریوں کے اس سے بچنے کی تاکید کی گئی۔اس اسموگ کے باعث نہ صرف لوگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے بلکہ ٹریفک حادثات بھی ہوئے جس کے باعث دسیوں لوگ لقمہ اجل بنے۔
المختصر کہ پاکستان شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آچکا ہے۔۔بدقسمتی سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا کبھی بھی ماضی میں حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ یہ جن بے قابو ہو چکا ہے تاہم اس تحریک انصاف کی حکومت اس سلسلے میں خاصی سنجیدہ نظر آتی ہے۔اپنی صوبائی حکومت کے دوران ہی انہوں نے اس مسئلےپر معقول توجہ دینا شروع کی اور خیبر پختونخواہ میں بلین ٹری نامی منصوبہ شروع کیا تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت سے نمٹا جا سکے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیات ملک امین اسلم خان نے اس حوالے سے موجودہ حکومتی پالیسی کو واضح کرتے ہوئےکہا ہے کہ حکومت ماحول اور اس سے جڑی تبدیلیوں کو بہت اہمیت دیتی ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعدد ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ عوام میں آگاہی پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ حکومت کے منصوبے صرف اسی صورت کامیاب ہو سکتے ہیں اگر عوام میں شعور موجود ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہم پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ماحول دوست چیزوں کا استعمال کریں اور ماحول مخالف سرگرمیوں سے اجتناب کریں۔۔قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے اجتناب کریں اور مل کر اس ماحول بچائیں جس میں ہماری نسلوں نے سانس لینی ہے۔کوئی بھی ماحول دشمن قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچیں کہ آپ کے اس ایک قدم سے کہیں آپ اپنے آنے والی نسلوں کا مستقبل غیر محفوظ تو نہیں بنا رہے۔