کرامت غوری نے ہزار صفحے کی کتاب یوں ہی نہیں لکھ دی۔ وہ کتاب کا کیڑا تھے۔ تاریخ عالم اور برصغیر کی تاریخ انھیں ازبر تھی۔ سول سروس اکیڈمی میں پہنچے تو سو ڈیڑھ سو برس کی وہ ڈائریاں بھی چاٹ گئے جو انگریزوں نے ہندوستان کے مختلف حصوں پر حکومت کرتے ہوئے لکھی تھیں۔ ان ڈائریوں سے ہی وہ یہ نکتہ سمجھے کہ مٹھی بھر انگریز کروڑوں ہندوستانیوں پر ڈیڑھ سو برس سے زیادہ مدت تک کیسے کامیابی و کامرانی سے حکومت کر گئے۔
وہ ان کی ان تھک محنت کو داد دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انگریز کے اس ہنر کو بھی جو وہ ہندوستانی نوابوں، راجوں، مہاراجوں کی وفاداریاں خریدنے میں صرف کرتا تھا۔ وہ جلیانوالہ باغ کے سفاکانہ قتل کے بعد اس مکتوب کا ذکر کرتے ہیں جو وثیقہ داروں اور وظیفہ خواروں نے اپنی غیر مشروط وفاداری پر فخر کرتے ہوئے لکھا تھا۔ وہ اس کی چند سطریں نقل کرتے ہیں کہ ’’ہم نے سرکارِ انگلیشیہ کے دور میں جو امن و چین دیکھا ہے، وہ کبھی نہیں دیکھا اور سرکار نے باغیوں کا جو حشر کیا وہ بالکل جائز تھا، اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین ہمیں اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔‘‘ یہ جملہ نقل کرنے کے بعد وہ ہمارے ان وزرائے اعظم کے نام لکھتے ہیں جو اسی خانوادے سے ہیں اور بعض نام ایسے بھی ہیں جو آیندہ کسی بھی وقت اس عہدے پر فائز کیے جاسکتے ہیں۔ انگریز چلے گئے لیکن ان کے نائبین موجود ہیں۔
وہ جہاں کومیلا میں اختر حمید خاں کی دیہی ترقی اکیڈمی کا ذکر نہایت محبت سے کرتے ہیں، خاں صاحب کی سادگی اور درویشی کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ وہیں مغربی پاکستان سے جانے والے بعض افسران کی مٹی پلید کرنے سے نہیں چوکتے، جو کومیلا کی ایک محفل میں بہ آواز بلند یہ بتاتے ہیں کہ یہاں غربت کا یہ عالم ہے کہ ’’مرغی ڈھائی روپے کی ملتی ہے اور عورت پانچ روپے کی۔‘‘ مشرقی پاکستان کی قدم قدم پر جتنی توہین کی گئی اس کے بعد بنگلہ دیش تو وجود میں آنا ہی تھا۔
پروٹوکول ایک ایسا لفظ ہے جو اس کتاب میں بار بار آتاہے اور کیوں نہ آتا کہ سفارتکاری میں پروٹوکول کے مرحلے ہر قدم پر آتے ہیں۔ بقول کرامت غوری نوکر شاہی کی وفاداری عام طور پر حاکم وقت سے ہوتی ہے۔ وہ جنرل ایوب خان کی تصویر کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ اس زمانے میں نیویارک میں تعینات ہوئے جب ہزار ہا نوجوان ففتھ ایونیو پر ویتنام جنگ اور صدر امریکا کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ملتے تھے۔ وہ جون ایف کینیڈی اور ان کے چھوٹے بھائی کے قتل کا احوال لکھتے ہیں۔
انھیں پاکستان سے عشق رہا، اسی لیے وہ بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ہمیشہ کڑھتے رہے۔ آخری دنوں کا قصہ وہ بہ چشم نم بیان کرتے ہیں جب وہ بلبل پاکستان میڈم نورجہاں کی اس خواہش کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کے ایک درجن بھاری بھرکم سوٹ کیسوں کو سفارتی سامان کے طور پر پاکستان بھیج دیا جائے۔ اب پی آئی اے کا جہاز ، پانی کا جہاز تو تھا نہیں۔ پی آئی اے نے اس فالتو سامان کو لے جانے سے انکار کر دیا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی ذمے داری ایک بنگالی افسر اعلیٰ کے سپرد ہوئی۔ انھوں نے کرامت کو وہ گفتگو سنائی جو بلبل پاکستان نے ہوائی اڈے پر اس شریف النفس افسر کے ساتھ کی تھی۔
کرامت نے وہ مسجع مقفیٰ گفتگو اپنی کتاب میں من و عن لکھ دی ہے لیکن میری ہمت نہیں کہ اسے یہاں بیان کر سکوں۔ ایسے میں انھیں ایک پاکستانی ریاست کے شہزادے کا قصہ یاد آتاہے جو اپنی اطالوی گرل فرینڈ کے ساتھ منشیات اسمگل کرتے ہوئے پائے گئے۔ انھیں بچانے کے لیے کیسے کیسے ہنر آزمائے گئے، گزشتہ تاریخوں میں کاغذات بنے، وہ سفارت کاری کے عہدے پر فائز کیے گئے اور آخر کار منشیات اسمگل کرنے کے الزام سے بری ہوئے۔
مشرقی پاکستان سے ان کی محبت قدم قدم پر اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ متحدہ پاکستان کے آخری دن ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ پاکستان کا دم لبوں پر ہے۔ ایسے میں کرامت علی لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں ایک ایسے مؤقف، ایک ایسی پالیسی اور ایک ایسے ملٹری آپریشن کا دفاع کرنا تھا جو دفاع کے قابل نہیں تھا۔ جس پر دل نہیں ٹھکتا تھا۔ دل جانتا تھا کہ اپنا سکہ خود کھوٹا ہے۔ مشرقی پاکستان میں جاری فوجی مہم میں سب سے بڑی ہلاکت جمہوریت کے اس اساسی اور بنیادی اصول کی تھی جو ایک جمہوری معاشرہ میں حکومت کرنے کا حق اکثریت کو دیتا ہے۔ اور مشرقی پاکستان کے المیہ میں اقلیتی آبادی، اکثریت کو دبا رہی تھی۔ اسے پامال کر رہی تھی اور اس پر اپنی مرضی، جمہوریت کا اپنا ناقص تصور مسلط کرنا چاہ رہی تھی۔
دنیا کے ان گنت جمہوری معاشروں میں اس وقت بھی کئی ممالک ایسے تھے اور آج بھی ہیں جہاں اقلیتی گروہ اکثریت سے جداگانہ اپنی زمین اور اپنے ملک کامطالبہ رکھتے ہوں۔ لیکن مشرقی پاکستان کا قضیہ تو اس اعتبار سے تاریخ میں بالکل انوکھا تھا۔ جہاں اکثریت کی پشت کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا۔ اور اقلیت نے اکثریت کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ علیحدگی کے لیے آواز اٹھائے، اپنی آزادی کا مطالبہ کرے اورسب راستے۔ وہ راستے جو جمہوری معاشروں میں عدم تشدد کے راستے ہوتے ہیں۔ بند ہو جانے کے بعد تنگ آ کر جنگ پر آمادہ ہو جائے۔ تنگ آمد، بجنگ آمد کی جو تفسیر مشرقی پاکستان میں ہو رہی تھی۔ اس کی نظیر تاریخ میں نہیں تھی۔‘‘
ان کی یاد داشتوں میں سیاست، سفارت، ادب اور شاعری کے لوگوں کے نام آتے ہیں۔ وزیروں اور سفیروں کی محفل میں اگر آم کھانے کا مرحلہ پیش ہو تو کس صفائی سے انھیں کھایا جائے کہ نہ شیرہ ٹپکے اور نہ ہاتھ خراب ہوں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں انھوں نے خوب خوب لکھا ہے: وہ لکھتے ہیں کہ جب بھٹو صاحب نے افغان مہمانوں کے لیے رقص و سرود کی محفل سجائی تو مادام نورجہاں نے انکار کر کے یحییٰ خان کے ساتھ بھٹو صاحب کے سلوک کا بدلہ لے لیا۔ مہدی حسن اور فریدہ خانم ایک دوسرے کے ساتھ اسٹیج پر نہیں آتے تھے۔ انھوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔ پھر شہنشاہ ایران کی ایک دعوت کا ذکر کرنا نہیں بھولتے ۔ جب ہماری ایک معروف رقاصہ نے شہنشاہ کے حضور اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسے وردی والوں نے اٹھایا اور لاڑکانہ پہنچا دیا۔ جس کے نتیجے میں نیلو نے خود کشی کی کوشش کی۔ وہ تو بچا لی گئی لیکن حکمران وقت کی عزت محفوظ نہ رہ سکی۔ حبیب جالبؔ کی نظم ’’لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو‘‘ آج تک حکمرانوں کے دامن کا سیاہ دھبہ ہے۔ کرامت بے تکان لکھتے ہیں اور انھیں کسی نام کے لکھنے اور کسی واقعے کے بیان کرنے سے عار نہیں۔
میاں نوازشریف پنجاب کے وزیر مالیات کیسے بنے یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اسی طرح وہ گجرات کے چوہدریوں کے اقتدار کا سبب بھی بیان کرتے ہیں۔ انھیں دنیا کے مختلف ممالک میں سفارت کاری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ ان کی بھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف، میاں نواز شریف، کن حکمرانوں سے ان کا ربط و رابطہ رہا، کن افراد نے انھیں متاثر کیا اور کن ملکوں نے ان کا دل موہ لیا۔ خاص طور پر ان جاپانیوں کا ذکر وہ چشم پرنم سے کرتے ہیں۔ جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر پانچ ہزار کی تعداد میں سمندر میں کود کر خود کشی کی تھی۔ یہ قومی حمیت کرامت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ حساب لگاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان جب ہم سے رخصت ہوا تو کیا ہم میں سے کوئی ایک بھی تھا جس نے جاپانیوں ایسی غیرتِ قومی سے کام لیا۔
’’روزگارِ سفیر‘‘ پڑھنے کی چیز ہے۔ اسے چند سو یا ہزار لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)