پاکستان رنگوں ،موسموں اور قدرتی حسن سے مالامال ایک ایسی سرزمین ہے جہاں آپ کو سمندر سے لے کر صحرا، صحرا سے کھلیان اور میدانوں سے برف پوش پہاڑوں تک سب کچھ مل جائے گا۔ یہ ایسی سرزمین ہے جہاں جون جولائی کے مہینوں میں میدانی علاقے سخت گرمی میں جھلس رہے ہوتے ہیں تو شمالی علاقہ جات میں بلند وبالا پہاڑوں پر موجود برف ہواؤ ں میں خنکی گھول رہی ہوتی ہے۔یہ زمین چاروں موسموں کو اپنے اندر سمیٹے قدرت کے رنگوں کی مظہر نظر آتی ہے۔ایک طرف قدر تی مناظر دیکھنے والوں کودعوت نظارہ دیتے ہیں تو دوسری طرف تاریخ کے آثار اور تہذیبوں کے نشان لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہرسال بڑی تعداد میں سیاح پاکستان کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔
انیس سو ستر کی دہائی میں ملکی ترقی کے ساتھ سیاحت بھی عروج پر تھی ۔ہر سال لاکھوں لوگ دنیا بھر سے پاکستان کا رخ کرتے ۔پہلے پہل لاہور، راولپنڈی ، پشاور ، سوات اور خیبر جیسے علاقے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنےہوئے تھے بعد ازاں ملک کے دیگر حصے بھی سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے لگے۔
دہشتگردی نے جہاں ہمارے دیگر شعبوں کی کمرتوڑ کر رکھ دی وہیں سیاحت بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد پاکستان ایک مرتبہ پھر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔برٹش ائیرویز سمیت دیگر فضائی کمپنیاں پاکستان کے لیے اپنی پروازیں دوبارہ شروع کر رہی ہیں جس کے بعد ملک میں سیاحت کے فروغ کے امکانات روشن ہوچکےہیں۔موجودہ حکومت بھی ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے اس کے لیے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے خصوصی عزم کا اظہارکیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاحت سے اچھا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ٹیم کو نہ صرف موجودہ سیاحتی مقامات پر سہولتیں بڑھانے کا حکم دے رکھا ہے بلکہ نئے سیاحتی مقامات کی تلاش کے لیے بھی اقدامات اٹھانے کا حکم دیا ہے۔اس سارے معاملے میں یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ پاکستان جلد ہی دنیا کے چوٹی کے سیاحتی ممالک میں شامل ہوگا جہاں کثیر تعداد میں غیر ملکی سیاح آیا کریں گے۔
تاہم اس سارے سلسلے میں کچھ احباب ایک انتہائی اہم نکتے کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں اور وہ ہے پاکستان میں مذہبی سیاحت کے مواقع۔ جی ہاں مذہبی سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس سے لاکھوں سیاحوں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ تاحال پاکستان میں جس مذہب کے لوگ مذہبی سیاحت کے لیے آ تے ہیں ان میں سر فہرست سکھ مذہب کے پیروکار ہیں جو ہر سال مختلف مواقع بالخصوص بابا گرونانک کا جنم دن منانےکے لیےپاکستان کا رخ کرتےہیں ۔آنے والے سکھ یاتریوں کا زیادہ تر تعلق بھارت سےہوتا ہے جبکہ دنیا کے دیگر حصوں سے بھی سکھ برادری کےلوگ پاکستان آتے ہیں۔ہزاروں سکھ یاتری پاکستان آنےکے لیے کاوشیں کرتے ہیں تاکہ وہ مذہبی رسومات کے لیے اپنے مقدس مقامات پر حاضری دے سکیں لیکن متعدد وجوہات کے باعث ایک مخصوص تعداد ہی پاکستان آ سکتی ہے۔ان لوگوں کی منزل تو ننکانہ صاحب ، لاہور اور حسن ابدال میں واقع گردوارے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ لاہور کے بازاروں کا بھی رخ کرتے ہیں جہاں لاہوریوں کی مہمان نوازی ان کے دل موہ لیتی ہے اور یہی لوگ وطن لوٹ کر پاکستان کے سفیر بن جاتے ہیں یوں نہ صرف مذہبی سیاحت سے آمدنی حاصل ہوتی ہے بلکہ ملک کا اچھا تاثر بھی بڑھتا ہے۔دوسری جانب کرتارپور راہداری کھلنے سے ہر روز 5 ہزار سکھ یاتریوں کی آمد متوقع ہے جن سے یقیناً پاکستان کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان میں صرف سکھ مذہب کے مقدس مقامات ہی نہیں د بلکہ کٹاس راج مندر بھی ہندوؤں کے نزدیک خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ضلع چکوال کی تحصیل چوآسیدن شاہ سے چار کلومیٹر دور واقع کٹاس راج تالاب ہندو دیوتا شیو کی محبت کی نشانی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب دیومالائی کہانیوں کے اہم ترین کردار دیوتا شیو کی بیوی ستی دنیا سے چلی گئیں تو دیوتا شیو نے ان کے غم میں رو رو کر آنسووں کا تالاب بنا دیا جو آج بھی کٹاس راج تالاب کے نام سے موجود ہے۔ یہ تالاب ایک طرف تو اس خطے میں موجود ہندومت کی جڑوں کی نشاندہی کرتا ہے تو دوسری جانب چکوال شہر کی تاریخی حیثیت کو عیاں کرتا ہے۔ہندوبرادری کی یہاں تک رسائی ممکن بنا کر زرمبادلہ کمانے کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات بھی بنائے جا سکتے ہیں۔کرتار پور راہداری کے بعد بھارت میں موجود ہندو برادری نے کٹاس راج تک بھی راہداری کا مطالبہ کیا تھا جس پر پاکستانی حکومت نے مثبت جواب دیا تھا۔اس راہداری کے قیام سے بھی سینکڑوں ، ہزاروں سیاحوں کی آمد متوقع ہے۔
صرف سکھ ازم اور ہندو مت ہی نہیں جس کے مقدس مقامات پاکستان میں موجود ہیں بلکہ ان سب سے بڑھ کر جس مذہب کے مقدس مقامات پاکستان میں موجود ہیں وہ بدھ مت ہے۔ جی ہاں بدھ مت ۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کا شہر ٹیکسلا کبھی بدھ مت کا مرکز ہوا کرتا تھا ۔بدھ مت صدیوں تک ٹیکسلا سے جڑا رہا اور ٹیکسلا بدھ مت کی تبلیغ و ترویج کا مرکز رہا۔جب موریہ سلطنت کے سمراٹ اشوک نے ٹیکسلا کو موریہ سلطنت کا دارلحکومت قرار دیا تھا تب سے بدھ مت اور ٹیکسلا کا رشتہ مزید گہرا ہوگیا۔ایک روایت کے مطابق ٹیکسلا میں موجود دھرماراجیکا سٹوپا میں بدھ مذہب کے بانی بدھا کی باقیات دفن ہیں۔اس کے علاوہ بھی گندھارا تہذیب کا علاقہ بدھ مت کے مقدسات سے بھرا پڑا ہے۔آج بدھ مت کے پیروکار چین ، نیپال ، کوریا سمیت متعدد ممالک میں پھیلےہوئےہیں اگر پاکستان میں بدھ مت کی مذہبی سیاحت کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں تو اچھی خاصی آمدنی متوقع ہے۔بدھ مت ، ہندو مت اور سکھ ازم کے مقدسات کے علاوہ پاکستان میں موجود صوفی بزرگوں کے مزارات بھی مذہبی سیاحت کا مرکز بن سکتےہیں مثال کے طور پر حضرت لال شہباز قلندر، شاہ عبدالطیف بھٹائی ، فرید الدین گنج شکر ، حضرت علی ہجویری اور ایسے بہت سے صوفی بزرگ سرحد پار بھی عقیدتمندوں کی بڑی تعداد رکھتے ہیں جن کی آمد سے مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔