میرا تعلق اس نسل سے ہے کہ جس کا بچپن جمعے کے خطبوں میں مسلمان فاتحین کے قصے سنتے درسی کتابوں میں وہی قصے پڑھتے اور اپنے سکولوں اور گلی محلوں میں اپنی جیب خرچ کے دو دو روپے "کشمیری مجاہدین” کو دیتے گزرا، اور آج مجھے اس سنُے، پڑھے اور ہاتھ سے دئیے پر بہت دکھ ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ پہلا دھوکہ تھا کہ جو ریاست میرے ساتھ کر رہی تھی، جہاں ایک طرف میری برین واشنگ ہو رہی تھی وہیں دوسری طرف مجھے لُوٹا بھی جا رہا تھا۔۔
ہمارے یہاں مشہور اور مہذب معاشروں میں بدنامِ زمانہ جنگجو طارق بن زیاد بر بر قبائل سے تعلق رکھتا تھا ( وہی بر بر قبائل کہ جن کے مظالم کی وجہ سے اردو میں لفظِ بربریت نے اور انگریزی میں لفظِ Barbarism نے جنم لیا) کہتے ہیں کہ جب اس عظیم مسلمان فاتح نے اندلس پر حملہ کیا تو اترتے ساتھ اپنی کشتیاں جلا دیں کہ واپسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب یا تو ہم اندلس پر حکومت کریں گے یا یہیں مارے جائیں گے، یہ وہی زمانہ ہے کہ جب حجاج بن یوسف دیبل پر حملے کی پیش بندی کر رہا تھا، 711 عیسوی میں طارق بن زیاد نے اندلس (موجودہ سپین اور اس سے ملحقہ علاقہ) پر حملہ کیا، اور 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے دیبل (موجودہ کراچی اور اس سے ملحقہ علاقے) پر، یعنی مسلمانوں کا دورِ عروج تھا ۔
جب بچپن میں یہ کہانی اس زاوئیے سے سنی کہ ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے تو بہت متاثر ہوئے کہ کتنا بہادر سپاہی تھا، لیکن جب ذرا بڑے ہوئے تو کسی استاد نے چپکے سے ایک اور زاویہ دکھا دیا کہ اس کا ایک مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کو اپنے ساتھیوں پر بھروسہ ہی نہیں تھا؟؟؟ اگر کشتیاں سلامت رہیں تو یہ کہیں مجھے چھوڑ کر بھاگ ہی نہ جائیں؟؟ کیونکہ تاریخ کی کتابوں میں مخبری تو یہ بھی ہے کہ خود طارق بن زیاد نے اپنے استاد موسیٰ بن نصیر کو کئی بار دھوکہ دیا تھا، ویسے یہ مسلمانوں کی تاریخ میں کئی بار ہوا کہتے ہیں کہ فاتح ہند محمد بن قاسم کو اس کے سسر اور کمانڈر حجاج بن یوسف کے حکم سے ہی ایک جانور کی کھال میں پرو کر زندہ جلا دیا گیا تھا، سلطنتِ عثمانیہ ہو یا برصغیر پر مسلط کردہ سلطنت مغلیہ بھائی کے بھائی کے ہاتھوں قتل سے رنگین ہی نظر آتی ہے اس لیے جب بھی کوئی بھائی بادشاہ بنتا تو سب سے پہلا کام اپنے باقی بھائیوں کا قتل کرنا ہوتا تھا جہانگیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ اس نے کوئی نماز چھوڑی نہ بھائی ۔۔
چونکہ بات اسلامی معرکوں کی ہو رہی ہے تو ایک نظر کربلا پر ڈالتے ہیں کہ جب امام حسین اور انکے ساتھی چاروں طرف سے گھیر لئے گئے تو نو محرم کی رات کو امام نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کیا اور کہا کہ تم میں سے جو بھی جانا چاہتا ہے میں اس کو اپنی خوشی سے جانے کی اجازت دیتا ہوں یہ صرف میرے خون کے پیاسے ہیں تم میں سے کسی کو یہ کچھ نہیں کہیں گے اور یہ کہہ کر چراغ بجھا دئیے کہ اندھیرے میں جو جانا چاہے آسانی سے بغیر شرمندہ ہوئے جا سکے لیکن لوگ موجود رہے جبکہ سامنے واضح موت تھی ۔۔
یہ دو روئیے آپکے سامنے ہیں طارق بن زیاد اندلس فتح کر گیا اور فتوحات آگے بھی بڑھتی رہیں لیکن اسکو اپنے ساتھیوں پر کبھی پورا اعتماد نہیں ہو سکا جب کہ امام حسین کربلا میں اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے لیکن کوئی ان کو چھوڑ کر کہیں نہ گیا، یز ید کے لشکر سے نکل کر لوگ اِس طرف تو آئے لیکن یہاں سے نکل کر کوئی اُس طرف نہ گیا کہ جہاں جانے سے حکومت اور دولت دونوں حاصل ہو سکتے تھے۔۔
آجکل پاکستانی سیاست میں آنے والے سینیٹ انتخابات کی دھوم ہے، اور بحث یہ ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ انتخابات اوپن بیلٹ کے تحت ہوں جبکہ اپوزیشن خفیہ بیلٹ پر اصرار کئے ہوئے ہے اور اب معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے۔۔
اپوزیشن کہتی ہے کہ ان کے ساتھ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں ہاتھ ہوا تھا اور ان کے بقول ان کے لوگوں کو پیسے یا پریشر دے کر توڑا گیا تھا لیکن حکومت کی بے چینی اور اضطراب دلچسپ تو ہے ہی ساتھ کے ساتھ واضح بھی ہوتا جا رہا ہے، جو تنازعہ پچھلے چار پانچ دنوں میں سب سے پہلے سینیٹ ٹکٹوں پر بلوچستان سے شروع ہوتا ہوا سندھ میں داخل ہوا تھا اور اسُ سے پہلے KPK کے اراکین پی ٹی آئی کی پیسے لیتے کی ویڈیوز بھی موجود تھیں اب اس کی بو پنجاب میں بھی سونگھی جا رہی ہے یہ بو میں نے ابھی کچھ دیر پہلے اس پوسٹر سے سونگھی کہ جو میں نے ملتان میں عون عباس بپی کی نامزدگی کے خلاف دیکھا، جنابِ وزیراعظم فرما چکے کہ اس وقت سینیٹ کے ٹکٹ کی قیمت پچاس سے ستر کروڑ ہے تو اس ملک میں کون سا پاگل ایسا ہے جس کو یہ پیسے اچھے نہ لگتے ہوں؟؟ میری نظر میں تو یہ جملہ بذات خود ایک ترغیب ہے، معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی جانتی ہے کہ اس کے لوگ اڑان بھرنے کو تیار ہیں اور اب تو جہانگیر ترین بھی موجود نہیں کہ جو عمران خان کے قدموں میں حمایتیوں کو ڈھیر لگا دیں، لہٰذا پی ٹی آئی کو سوائے اوپن بیلٹ کے کچھ اور اس وقت سوٹ نہیں کر رہا حکومت کی بوکھلاہٹ کا ایک اور واضح ثبوت پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف دی جانے والی وہ درخواست ہے کہ جس میں یہ کہا گیا کہ یوسف رضا تو نا اہل ہیں، وہ کیسے سینیٹ الیکشن لڑ سکتے ہیں؟؟ کسی نے انکو یہ تک نہیں بتایا کہ یوسف رضا گیلانی نے شجاع آباد سے 2018 کا الیکشن لڑا تھا…
دلچسپ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے جتنے بھی سینیٹ کے امیدوار ہیں ان میں سے اکثریت نووارد لوگوں کی ہے اپوزیشن کی زبان میں کہیں تو پیرا شوٹرز، اس فہرست میں پارٹی لائلسٹ بہت ہی کم نظر آ رہے ہیں جبکہ باقی دو جماعتوں کے امیدوار تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ وہی ہیں کہ جو ہر بار ہوتے ہیں اب کوئی بتائے کہ سینیٹ میں ان بھانت بھانت کے لوگوں کو ٹکٹ دینے کی کیا منطق ہے؟؟ کیوں ہر بار پی ٹی آئی ان اٹھائی گیروں کے ہاتھ لگ جاتی ہے؟؟ کیوں ہر بار عمران خان ان لوگوں کو دھکیل کر پیچھے کر دیتے ہیں کہ جو ان کے برے دنوں کے ساتھی ہوتے ہیں؟؟ کیا عمران خان بتائیں گے کہ ثانیہ نشتر اور حفیظ شیخ یہاں تک کہ فیصل واڈا کی پی ٹی آئی کے لیے کیا خدمات ہیں؟؟ جن صاحب کو بلوچستان میں جن دوسرے صاحب سے تبدیل کیا گیا ان کا پی ٹی آئی سے کیا تعلق ہے؟؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کے بھان متی کے کنبے سے وہ کیسے وفا کی امید کر سکتے ہیں؟؟ اور جو جو بھی امیدوار ہے وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح عمران خان کی اے ٹی ایم بھی ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کے تاج حیدر کے بارے میں اطلاع تھی کہ ان کے پاس کاغذات نامزدگی کے ساتھ سینیٹ کے الیکشنز کی فیس کے پورے پیسے بھی نہیں تھے پارٹی نے انکی سینیٹ الیکشن کی فیس جو کہ مبینہ طور پر 45000 ہے ادا کی ہے، اسی لیے دنیا ادھر کی ادُھر ہوجائے تاج حیدر صاحب کو خریدا نہیں جا سکتا کوئی جا کر عمران خان سے پوچھے کہ حضور کیا یہ ہے آپکی بائیس سالہ جدوجہد کہ آپ کے پاس آج سینیٹ میں کھڑا کرنے کو ایسے امیدوار بھی نہیں کہ جن پر آپ پورا بھروسہ کر سکیں؟؟ کیا یہ ہے وہ انقلابی ٹیم کہ جس کا تذکرہ کر کر کے آپ نے ہمارا دماغ کھا لیا تھا، اس سے زیادہ اور زوال کیا ہوگا کہ آپ آج آصف زرداری کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو چئیرمین سینیٹ بنانے پر مجبور ہو گئے ہیں ؟؟
کاش کہ کوئی عمران خان کو سمجھا سکتا کہ قابلِ اعتبار ساتھی با کردار لوگوں کو میسر آتے ہیں نہ کہ طاقتور کے چاپلوس کو، اسی ملک میں ایک لیڈر وہ بھی تھا کہ جو انگریزی بولتا تھا اور ایک انگریزی سے نا بلد دیہات کا رہنے والا اس کی بات کا تب بھی یقین کرتا تھا جبکہ اسکو اسکا کہا ہوا ایک بھی لفظ سمجھ نہیں آ رہا ہوتا تھا، اسی ملک میں ایک لیڈر وہ بھی تھا کہ جس کی وجہ سے لوگ کال کوٹھریوں میں بند رہے، دھمال ڈالتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر جھولے، اس کی وجہ سے خود کو شاہی قلعے میں کرنٹ لگواتے رہے، ملک بھر کے کرکٹ سٹیڈیمز میں کوڑے کھاتے رہے اور آج اس کے دنیا سے چلے جانے کے چالیس بیالیس سال بعد بھی اس کے زندہ ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں یہ سب تب ہوتا کہ جب آپ دستِ شفقت رکھتے ہوں، نہ کہ مظلوموں کو بلیک میلر سمجھتے ہوں، یہ تب ہوتا ہے کہ جب عوام کی انگلی پکڑ کر چلتے ہوں نہ کہ امپائرز کی….
فیس بک کمینٹ