ارشاد تونسوی تم سے تعارف نصف صدی سے زیادہ پرانا ہوا لیکن گلے کی نوبت کبھی نہ آئی لیکن اب جب کہ تم ہم سب سے منہ پھیر کر ایک ا ن دیکھے لمبے سفر پر نکل گئے ہو اب تمہارا کیا گلہ کروں مگر اتنا کہے بنا رہ نہیں سکتا کہ تمہاری روایتی وضع داری کا کیا ہوا؟ تم مجھ سے عمر میں بھی بڑے تھے اور مرتبے میں بھی لیکن تمہاری وضع یہ تھی کہ مجھے( اور شاید اپنے دیگر احباب کو بھی) تم ہمیشہ خود آکر ملتے تھے، گاہے گاہےہی سہی ، کہ تم اس بات کے قائل تھے کہ دوستی کا تعلق بہرطور باقی اور تازہ رہنا چاہئے۔
محکمہ اوقاف میں نوکری کرتے کرتے ایک صوفیانہ درویشی تم میں بھی آ گئی تھی لیکن مختلف سلسلہ ہائے سلوک کی طرح تمہاری اس درویشی کے بھی کئی رنگ تھے مختلف دوستوں سے ملتے ہوئے تمہاری درویشی کا کوئی نیا ہی رنگ سامنے آتا جو اس مخصوص دوست کے مزاج کا ہم رنگ ہوتاتھا، نجم حسین سید کے ساتھ ان کارنگ، مشتاق صوفی کےساتھ ان کا رنگ اور فیاض تحسین سے ملتے ہوئے ان کی ہم مزاجی حتی کہ عابد عمیق کے سامنے تم ہر رنگ سے بے رنگ ہوکر ایک جوکر کا بہروپ بھرتے بھی نظر آتے ۔۔۔ ایک عرصے میں میرا ہمزاد شمیم عارف قریشی اور میں اپنی صحرانوردی اور شہر گردی میں سر گرداں کسی موڑ پر تم سے آ ٹکراتے تو کسی گوشے میں لمبی نشست رہتی جس میں کبھی رضو شاہ، مظہر عارف،ولی محمد واجد اور کبھی(گول باغ گلگشت ملتان کے گوشے میں) رفعت عباس، اظہر علی، خالد نیازی، عزیز نیازی، مقبول انیس، ، سلیم خلیجی، ظفر اقبال راں، طارق چودھری اور ایم ایم ادیب کبھی اکرم میر انی عابد حسین، ملک فرید، اسلم عارف بھی موجود ہوتے۔
کبھی کہیں اردو اکیڈمی کے کسی اجلاس میں یا تاج ہوٹل، بابا ہوٹل یا پریس کلب نواں شہر ملتان میں پروفیسر عرش صدیقی، اقبال ساغر صدیقی، ڈاکٹر اے بی اشرف، ارشد ملتانی، مبارک احمد مجوکہ،منصور کریم اصغر علی شاہ، ظہور احمد شیخ،ڈاکٹر انوار اجمد، جاوید اختر بھٹی، ممتاز اطہر ، مسیح اللہ جامپوری، شاکر حسین شاکر، رضی الدین رضی اور دیگر اہل دانش کے ساتھ گاہے سرسری گاہے تفصیلی ملاقات ۔
اگرچہ میں اپنی کور ذوقی کے باعث کبھی تمہاری شاعری کا مداح نہ بن سکا کہ تم سرائیکی نظم کو جدید اردو نظم کے تناظر میں کبھی آزاد کبھی پابند نظم اور گاہے کافی کی ہئیت میں تخلیق کررہے تھے جس میں مجھے سرائیکی شاعری کے عمومی مزاج سے علیحدگی محسوس ہوتی اور میں اس سے مانوسیت حاصل نہ کر پاتا تھا لیکن اب جب کہ میری توجہ سرائیکی کی کلاسیکی اور جدید شاعری کے مطالعے پر مرکوز ہے تمہاری شاعری کو بھی بار دگر پڑھنا ہے میرا خیال ہےکہ شاید اب اسے بہتر سمجھ پاوں۔ لیکن مجھے تمہاری شخصیت کی کئی دیگر باتیں ہمیشہ اچھی لگیں۔ تمہاری درویشانہ باتیں میرے دل کو لبھاتی تھیں۔ تم انفرادی ماحول میں ہر کسی کے ہمراز ہوتے تو محفل آرائی میں بھی لاجواب تھے۔ تونسویوں کی محفلوں میں تم خالص تونسوی ہوتے تو بہاولپور میں اپنے قیام کے دورانیے میں ریاستی وضعداری کا نمونہ بن گئےتھے، ملتانی تو تم تھے ہی کہ تصوف کے ہر سلسلے کا مرکز یہ مدینتہ اولیاء ہے ہی اس لیے اس شہر قدیم سے تمہارا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد تم نے ہم سب سے بے مروتی کی اور تونسہ سے بھی کہیں آگے شاید وہووا میں جاکر تم نے اپناالگ آشرم بنا لیا کہ جس نے ملنا ہے اب ادھر آئے، لوگ آنے لگے اور تمہاری خانقاہ پر رونق لگ گئی پھر تم اس رونق میں گم؟ تم نے مجھ ایسے کاہلوں کی ازلی کاہلی کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا اور اپنے اس آبائی آستانے میں ڈٹے رہے اس کے باوجود مجھے گمان تھا کہ تم اپنی روایتی وضعداری کے باعث ا چانک کہیں سے آ دھمکو گے اور حسب معمول کوئی گلہ کئے بغیر ہی یوں بات شروع کردو گے جیسے کل ہی تو ملے تھے۔
لیکن ارشاد تونسوی، تم نے میرے اس گمان کو گمان باطل بنادیا، یہ تم نے اچھا نہیں کیا یار! تھوڑا سفر ہماری طرف کر لیتے کہ تمہاری وضعداری نبھ جاتی اور چندے ملاقات ہو جاتی کہ یادیں تازہ ہو جاتیں ؛ تم اپنے مخصوص انداز میں ہنس کر کہو گے یادیں تو میں تازہ کر ہی رہا ہوں ۔۔۔ لیکن یہ مونجھ بڑھنے کی یادیں ہیں مونجھ اترنے (لہونڑ) کی نہیں۔ تم تو بہت دور کے سفر پر نکل گئے، تونسے اور وہووا سےبھی بہت آگے کے سفر پر ، اس سفر میں تو جانیں ہی جاتیاں ہیں ۔
اب تم سے ملنے کے لئے کوئی جان سے گزرے تو گزرے
فیس بک کمینٹ