سینیٹ۔ جسے ایوان بالا بھی کہا جاتا ہے کے الیکشن ہو چکے ہیں اور اب سینیٹ کی چئیرمینی کے لیئے جوڑ توڑ جاری ہے۔جوڑ توڑ کے بادشاہ سابق صدر آصف زرداری کے نمائیندہ خصوصی قیوم سومرو کی طرف سے پی پی پی کے لیئے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ بلوچستان کے آزاد ارکان کے علاوہ فاٹا ارکان کی طرف سے بھی پی پی پی کی حمایت کی خبرآئی ہے۔ سینیٹ الیکشن کا طریق کارعام آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہوتا ہے اس لیئے اس کے الیکشن بھی بالا بالا ہو جاتے ہیں ۔ اس بار تو کمال یہ ہوا ہے کہ سینیٹ کے اس الیکشن کی ہیئت ترکیبی نہ تو میاں نواز شریف کی سمجھ میں آئی ہے نہ عمران خان کی۔ میاں صاحب کا کہنا ہے کہ ووٹ خریدے گئے ، محاسبہ ہونا چاہیئے اور عمران خان کے بیان کے مطابق ایک ایم پی اے کی قیمت چار کروڑ روپے لگی ہے۔بلاول بھٹو نے بھی سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلنے کی بات کی ہے اور ایم کیو ایم کے بھائی فاروق ستار نے تو سینیٹ الیکشن ماننے سے انکار کرتے ہوئے برملا کہہ دیا ہے کہ باجیوں سمیت پندرہ اراکین نے وفا داری تبدیل کی ہے ۔ ایم کیو ایم میں اب بات بھائیوں کے اختیار سے نکل کر باجیوں کے ہاتھ آ گئی ہے۔ توسوال یہ ہے کہ جب ہر طرف سے عدم اطمینان کا اظہار ہو رہا ہے تو پھر اس الیکشن کی ساکھ کیا رہ جاتی ہے ۔؟ بہر حال چار چار کروڑ میں ووٹ بیچنے والے تو خوشی سے لوٹ پوٹ ہو کر بزبان خود یہ کہہ سکتے ہیں کہ ۔۔۔جب تک بکے نہ تھے تو کوئی پوچھتا نہ تھا۔۔۔ تم نے خرید کر ہمیں انمول کر دیا۔۔۔ چار چار کروڑ لینے والوں نے آنے والے جنرل الیکشن کا خرچہ نکال لیا ہے ۔خیرہمارے لیئے یہ خوشی کی بات ہے کہ چلیئے کسی ایک نقطے پر تو تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہان میں اتفاق رائے پایا گیا ہے ۔اب چاہیئے تو یہ کہ فاروق ستا ربھائی کی طرح باقی بھائی بھی چئیرمینی کے لیئے جوڑ توڑ کرنے کی بجائے سینیٹ الیکشن کو ماننے سے ہی انکار کر دیں ۔ میاں نواز شریف نے آج کل ووٹ کی اہمیت اجاگر کرنے اور اس کی تقدیس بحال کرانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ، لہٰذا سینیٹ الیکشن میں ووٹ خریدے جانے کے اپنے بیان پر قائم رہتے ہوئے اگر میاں نواز شریف بھی فاروق ستار بھائی کی طرح سینیٹ الیکشن ماننے سے انکار کر دیں تو ووٹ کے تقدس کے بیانئے کو تقویت ملے گی۔عمران خان کے لیئے البتہ اب کو ئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے استخارہ کرنا لازم ہوا کرے گا۔ رہے بلاول بھٹو تو بلوچستان اور فاٹا کے آزاد ارکان کی حمایت حاصل ہونے کے بعد وہ کوئی بھی بیان اپنے والد محترم سے پوچھے بغیر نہیں دیں گے۔تو جناب۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کے لیئے ہم دن رات مرے جاتے ہیں کہ ہمیں تو بس جمہوریت ہی چاہیئے۔ حالانکہ یہ جمہوریت ایک خاص طبقے کو ہی موافق آتی ہے۔بلا شبہ جمہوریت ایک بہترین طرز حکومت ہے مگر ان معاشروں کے لیئے جو ووٹ کے تقدس کی صرف بات نہیں کرتے بلکہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ووٹ عوام کی طرف سے اپنے نمایئندوں کے سپرد کی جانے والی ایک امانت ہے۔جس میں خیانت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ہاں اس امانت کو کیسے لیا جاتا ہے اس کی مثال کے لیئے پڑھے لکھے اور دانشور کہلانے والے نو منتخب سینیٹرمشاہد حسین سید کا یہ بیان ہی کافی ہے جو انہوں نے اپنی کامیابی پر مشاہد اللہ خان کے ساتھ انتہائی سر شاری کے عالم میں دیا ہے۔ موصوف نے اپنی کامیابی پر شریف برادارن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ کی یہ سیٹ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی امانت ہے۔مشاہد حسین سید کا یہ بیان سن کر ان میں اور مشاہد اللہ خان میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔وفا داری بشرط استواری پر مبنی اسی طرز کا بیان ایک بار پنڈی میں قومی اسمبلی کی دوسیٹیں جیتنے کے بعد شیخ رشید نے دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سیٹیں تو نواز شریف کی امانت ہیں۔میں یہ نواز شریف کے قدموں میں نچھاور کر دوں گا۔ جہاں جیتی ہوئی سیٹیں عوام کی بجائے پارٹی کے سربراہ کی امانت ہوں وہاں رائج جمہوریت کو کیا سمجھا جائے؟ عام آدمی کو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس ایوان بالا کے لیئے بالا بالا منتخب ہونے والے ایوان بالا کی سیٹوں پر بیٹھ کر عوام کے لیئے آخر کرتے کیا ہیں۔؟ عام آد می کو تو براہ راست ووٹ لے کر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جانے والوں نے بھی مایوس ہی کیا ہے ۔ سینیٹ تو پھر ایوان بالا ہے ۔ جس کاطرز انتخاب بھی نرالا اور عام آدمی کی سمجھ سے بالا ہے۔
فیس بک کمینٹ