رات ایک ٹی وی پروگرام میں وکلاءگردی کی مذمت کرتے ہوئے سابقہ جسٹس محترمہ ناصرہ جاوید اقبال نے ایک ایسی بات کی طرف دھیان دلوایا جس سے ہر روز واسطہ پڑنے کے باوجود ہم نا صرف انجان بنے رہتے ہیں بلکہ خود بھی اسی میں ملوث ہوتے ہیں ۔جسٹس ناصرہ جاوید اقبال نے تجویز دی” کہ ایسا قانون بنا دیا جائے کہ ہر پیشے سے وابستہ شخص جب اپنا کام ختم کر چکے ۔اپنی ڈیوٹی پوری کر چکے تو اپنے پیشے کا لباس یعنی یونیفارم اتار دے۔اور ایک عام شہری کی طرح دکھائی دے“۔۔یونیفارم کا خوف پاکستانیوں کی گھٹی میں شامل ہے۔۔
میرے نزدیک یہ ایک ایسی تجویز ہے جس پر عمل کرنے سے بہت سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یہ طریق عام ہے کہ ہم جس پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں اس کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ ہمیں کسی طور اس پیشے کی وجہ سے کو رعایت کوئی فوقیت ملتی رہے۔۔اور یہ سوچ یہ وباءکہاں سے شروع ہوتی ہے ۔آئیں اس پر بات کرتے ہیں۔۔اعلیٰ سرکاری عہدے دار وں سے شروع ہو کر ہم عوامی نمائیندوں تک دیکھیں تو اٹھتے بیٹھے خود کو عوامی نمایئندہ کہنے والے صوبائی و قومی اسمبلی کے ہر امیدوار کی پرائیویٹ گاڑی پر سبز نمبر پلیٹ لگی ہوئی دکھائی دے گی۔نا صرف اس کی اپنی گاڑی پر بلکہ اس کے خاندان کے ہر بندے کی گاڑی پر سبز پلیٹ کے ساتھ ایم پی اے یا ایم این اے لکھا ہوا ملے گا۔۔اس کا ایک پہلو تو یہ بھی ہو سکتا ہے کے ہمارے منتخب عوامی نمائیندے اپنا رشتہ عوام سے توڑ کر سرکار سے جوڑ لیتے ہیں۔اب اس سے نیچے آئیں تو ہر پیشے سے متعلق افراد کی اکثر گاڑیوں ،موٹر سائیکلوں پر ۔۔ایڈووکیٹ۔۔ڈاکٹر۔۔اور۔۔ نامہ نگاریا صحافی کے نام کی پلیٹ لگی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔اور اس کے پس منظر میں صرف اور صرف یہی سوچ کار فرما ہوتی ہے کہ ہمارے پیشے کے اعتبار سے ہمیں خاص سلوک کامستحق سمجھا جائے۔یہ بات ہمارے محترم چیف جسٹس آسف سعید کھوسہ نے بھی گزشتہ دنوں اپنے ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے دوروں کے دوران بارز سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ جملہ معترضہ یہ ہے کہ ،اسے قوم کی خوش قسمتی کہیئے یا بد قسمتی کے ہمارے مسیحاﺅں کومسیحائی اپنی ملازمت کے آخری ایام میں یاد آتی ہے۔ ۔
خیر۔ آیئے اس ضمن میں دو ذاتی مشاہدات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔پہلا تو یہ کہ دوران ملازمت جب میں ایک ایسی بنک برانچ کا انچارج تھا جو بنک کی زبان میں فیڈنگ برانچ کہلاتی ہے ۔۔یعنی گرد و نواح کی تمام برانچوں کو وہاں سے کیش سپلائی کیا جاتا ہے۔تو عید الفطر سے پہلے۔ رمضان شریف کے آخری دنوں میں ہر روز کئی حضرات ایسے تشریف لاتے جن کے ہاتھوں میں کسی نہ کسی ڈمی اخبار یا رسالے کے نام کا تعارفی کارڈ ہوتا اور ان میں سے اکثر ”چیف ایڈیٹر” ہوتے۔۔نوائے وقت ملتان میں مسلسل کالم نگاری کے باعث میں کم از کم نام کی حد تک توملتان سے چھپنے والے ہر اخبار کے چیف ایڈیٹر صاحب اور صحافی حضرات کو جانتا تھا ۔۔ لہٰذا۔۔میں تشریف لانے والے حضرات کو احترام سے بٹھا کر پہلی گزارش یہ کرتا کہ۔۔محترم۔۔یہ کارڈ اپنی جیب میں رکھیئے اور کام بتائیئے۔اور پھرایسی ملاقات کا حوالہ دے کریہ حضرات نواح کی برانچوں میں جا کر اپنے ڈمی اخبار یا رسالے کے لیئے اشتہار مانگتے تھے۔ آپ کہیں گے کہ صحافی بھائیوں پر تنقید شروع کر دی ۔۔آئیے دوسرا مشاہدہ پیش کرتا ہوں۔۔بنکنگ کورٹ نمبر دو ، ایم ڈی اے چوک سے پل براراں کی طرف جانے والی سڑک پر ، ایکسائیز کے دفتر سے ذرا آگے ہوا کرتی تھی۔میں عدالت سے نکلا ، گاڑی سٹارٹ کی اور کچہری چوک کیطرف چل دیا۔۔ایکسائیز کے دفتر سے ذرا پہلے جیسے ہی میری نظر ٹریفک وارڈن پر پڑی میں نے جلدی سے سیٹ بیلٹ باندھنے کے کی کوشش کی مگر ٹریفک وارڈن سر پر پہنچ چکا تھا۔۔مجھے اعتراف ہے کہ میں نے بھی اپنے وکیل ہونے کا حوالہ بھر پور طریقے سے دیا۔مگر ٹریفک وارڈن نے کہا۔۔سر۔۔آپ بہت قابل احترام ہیں ۔مگر آپ غلطی کر چکے ہیں۔۔چالان تو ہو گا۔۔اور ساتھ ہی اس ظالم نے ایسی بات کہی کہ مجھے اس کی ذہانت اور فرض شناسی کا قائل ہونا پڑا۔۔”سر۔۔آپ یہ چالان کی پرچی وصول کر لیں۔ البتہ۔اس کا جرمانہ میں ادا کر دوں گا“۔ اس کے لہجے میں اتنی شائستگی تھی کہ کچھ اور کہنے کی بجائے میں نے چالان کی پرچی وصول کر کے جرمانے کی رقم نقد اس کے حوالے کر دی۔۔جب میرے ڈرائیور کو اس کہانی کا پتہ چلا تو وہ مجھ سے پوچھے بغیر گاڑی کے پچھلے شیشے پر ۔۔ایڈووکیٹ ۔۔لکھوا لایا۔۔اور پھر اس کے بعدو اقعی جب تک وہ گاڑی میرے زیر استعمال رہی ۔کبھی کسی ٹریفک وارڈن نے نہیں روکا۔۔تو جناب ۔۔ یہ ہیں ہماری روز مرہ کی زندگی کے روئیے جو ہماری عادت بن چکے ہیں اور ہم ایسے رویوں کو قابل تنقید بھی نہیں سمجھتے۔۔
دل کے ہسپتال پر قانون کا حملہ بھلے اس میں ملک بھر کے لاکھوں وکلاءمیں سے چند سو یا چند ہزار ہی حملہ آور ہوئے۔مگر اس نے ہر پاکستانی کو شرمندہ اور رنجیدہ کیا۔ ہر مکتبہ فکر نے اس کی بھرپور مذمت کی۔اور وکلاءبرادری کی اکثریت بھی اس پر افسردہ و غمگین ہے۔جیسے میں نے درج بالا سطور میں مثال دی۔۔ہر طبقے میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو اپنی باقی برادری کے لیئے شرم کا باعث بنتے ہیں۔لہٰذا ایک دوسرے کو ملعون و مطعون کرنے کی بجائے ہم سب اپنے اپنے روئیوں پر غور کریں اور کسی قانون سازی کے بغیر اپنے کام کے اوقات کے بعد اپنی شناخت اپنے پیشے کے حوالے سے بتا کر یا دکھا کر کوئی رعایت حاصل کرنے کی عادت سے باہر نکلیں۔۔تو شاید ہم روز مرہ بڑھتے ہوئے طبقاتی فرق کی عفریت سے چھٹکارہ پا سکیں۔
فیس بک کمینٹ