پنجاب کے وزیر اعلیٰ جنہوں نے خود خادم اعلیٰ کا لقب اختیار کیا ہوا ہے ، ایک طویل مدت سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر حکمران ہیں۔ان کی گڈ گورنس کی بھی بڑی دھوم ہوتی ہے۔ان کے زیادہ تر کارنامے اشتہارات کے ذریعے سامنے آتے ہیں۔ان کے صوبے میں کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے تو مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کےلئے عملی اقدام ہو نہ ہو ، مجرموں کو سزا ملے نہ ملے، مگر وزیر اعلیٰ کا یہ بیان ۔۔چین سے نہیں بیٹھوں گا۔۔ سرکاری وغیر سرکاری ریکارڈ کا حصہ ضرور بن جاتا ہے۔ دوچار دن میڈیا میں شور اٹھتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے طعنے سننے کو ملتے ہیں اور پھر۔ وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے اشرافیہ کے بارے میں بیانات سنیں اور امیر غریب کے درمیان فرق پر دیئے جانے والے لیکچر ز پر دھیان دیں۔ انقلاب کی باتیں سنیں تو یوں لگتا ہے کہ شہباز شریف رائے ونڈ کے محل میں نہیں بلکہ کسی جھونپڑ پٹی میں رہتے ہیں۔ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹرز میں نہیں ۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں اور ٹکٹ بھی اپنی نیک کمائی سے خریدتے ہیں لہٰذا انہیں ڈیزل اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بھی بخوبی احساس ہوتا ہے اور عوام پر پڑنے والے مالی بوجھ کا بھی۔ ہر قسم کے سرکاری اشتہار پر ان تصویر لازم ہے اس لئے شہباز شریف زبان زد عام میں شو باز شریف بھی کہلاتے ہیں۔ایک خوشامدی ستم ظریف نے ۔۔دور حاضر کا عمر۔۔ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی ہے جس کے سرورق پر شہباز شریف کی تصویر بتاتی ہے کہ مصنف نے شہباز شریف کی مداح سرائی کرنے میں خوب انصاف سے کام لیا ہے۔ معصوم زینب کے بہیمانہ قتل اور قتل سے پہلے ہونے والے ظلم و بربریت پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے میں اس پر مزید کچھ اس لئے نہیں لکھ سکتا کہ ایسے سانحات پر لکھنے کے لیئے انگلیاں خون دل میں ڈبونا پڑتی ہیں اور اس عمر میں دل میں گردش کرنے والا خون اتنا ہی ہے کہ سانس کی ڈوری چلتی رہے۔ہاں ۔ میں حاکم وقت کے بارے میں ضرور لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے دور اقتدار میں رونماہونے والے ایسے شرمناک اور اندوہناک واقعات کی پرانی فائلیں نکالیں اپنے بیانات دیکھیں اور خود موازنہ کریں کہ ایسے واقعات اور شہباز شریف خادم اعلیٰ کے بیانات میں کتنا اور کیا فرق ہے؟ایک شہباز شریف کی کیا بات کریں الیکٹرانک میڈیا کا چورن بھی خوب بک رہا ہے اور حکومت کے سیاسی مخالفین بھی خوب کمر بستہ ہیں۔این جی اوز اور سول سوسائٹی بھی میدان میں اتری ہوئی ہے۔یہ سب اپنی جگہ۔ مگر چند روز بعد کوئی اور ایسا دلدوز سانحہ وقوع پذیر ہو گا معصومہ و مقتولہ زینب کی جگہ کوئی اور زینب زیر بحث ہو گی۔
ملتان میں کسی زمانے میں اندھیریاں ( آندھیاں) بہت چلا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی لال آندھی چلتی اور آسمان سرخ ہو جاتا تو بزرگ کہا کرتے تھے کہ آج کہیں کسی بے گناہ کا خون ہوا ہے۔ اب اندھیریاں نہیں چلتیں ہر طرف اندھیر مچا ہوا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ہر روز بے گناہ قتل ہوتے ہیں۔اور پوچھتے ہیں۔ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟حاکم وقت کا جواب آتا ہے۔میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔
فیس بک کمینٹ