شکیل عادل زادہ ایک ساحر ہے ۔ لفظوں کا جادو گر ۔ سب رنگ اور شکیل عادل زادہ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کا ذاتی صفحہ سب رنگ کا چہرہ تھا اور ہم جو قلم اور قرطاس کے لمس سے آشنا ہو رہے تھے ان کی تحریروں کے ذریعے لکھنا سیکھ رہے تھے ۔ ’’دلیل‘‘ کے مدیر برادرم عامر ہاشم خاکوانی کے شکریئے کے ساتھ شکیل عادل زادہ کی تحریریں ’’ گرد و پیش ‘‘ کے قارئین کی نذر ہیں ۔ (رضی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر پہلے میں نے اپنے قلم کو حکم دیا تھا کہ وہ میری روداد اشک و خوں لکھے، میرا تماشائے سحر و افسوں لکھے، میں نے چاہا تھا کہ وہ انقلاب برپا کرے، وہ لکھے جو کبھی نہیں لکھا گیا، وہ سنائے جو کبھی نہیں سنایا گیا۔ اُن لوگوں کے لیے قصہ دل لکھے جن کےسینے میں دل ہے، ان لوگوں کو سرگزشت جنوں سنائے جنہیں سننے کا یارا ہے، جن کا ذوق سماعت مستند ہے۔ میں نے چاہا تھا کہ وہ زہر انڈیلے، آتش بنے، آنسو رقم کرے، آہیں منتقل کرے، وہ مجھے لکھے۔ میں نے اس سے شدتیں طلب کی تھیں، پر قلم نے میرا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ میرے ہاتھ آیا تو اونگھنے اور بہکنے لگا، مجھے اس پر بڑی جھنجلاہٹ ہوئی، پھر میں نے احتجاجاً اسے خود سے علیحدہ کر دیا۔ میں کئی راتوں کا جاگا ہوا تھا، سو گیا، جب اٹھا تو قلم خودبخود میرے ہاتھوں میں آ گیا۔ وہ اب ایک جانثار قاصد کی طرح میرا کرب میرے جذبے منتقل کرنے کے لیے مضطرب ہے اور میں اس کی تیزی و طراری، اس کے اشتیاق سے بدحواس ہوں کہ کہاں سے لکھوں، کیا کیا لکھوں۔
میرا ہنر میرے قلم میں ہے اور لکھنے کو بے شمار باتیں ہیں۔ میری خواہش قلم کے دوسرے کاری گروں سے مختلف نہیں ہے۔ میں ایک کمال چاہتا ہوں، انتہا انتہا۔ میں اس سے ناقابل فراموش شاہکار تراشنے کا آرزو مند ہوں، میں آگ لگانا چاہتا ہوں کہ ایک آگ سی میرے جسم میں لگی ہوئی ہے۔ میں ایسے شعبدے کرنے کے لیے بے قرار ہوں کہ پتلیاں ساکت ہو جائیں۔ میں جذبوں اور شدتوں کا آدمی ہوں، چنانچہ سب رنگ میرا جلوہ ہے، ایک سلگتا اور متحرک چہرہ، میرا چہرہ۔
سو میں نے سوچا، قلم میرا ساتھ کیوں نہیں دے رہا۔ منکشف ہوا کہ قلم بڑی متنوع اور غیر معمولی صفات کا حامل ہوتا ہے، وہ مزاج داں اور حساس ہوتا ہے۔ اگر بےموقع، بےوقت، بےموسم اور بےجذبہ استعمال کیا جائے تو مایوس کرتا ہے۔ اسے موضوع، لکھنے والے کے ذہن، اس کے وقتی محرکات، اس کی آمادگی، ایک موافق صورت حال یعنی ایک ہم آہنگی درکار ہوتی ہے۔
میں نے کچھ دیر پہلے چاہا تھا کہ یہ سطور لکھ کر آخری کاپی جلد از جلد پریس پہنچانے کا انتظام کروں۔ میں نے لکھنا شروع کیا تو وہ مجھے اپنے ہیجان اور خلفشار کی نمایندہ تحریر محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے خیال آیا کہ میں نے قلم کو ایک رسمی تحریر لکھنے پر مجبور کیا تو میں اپنا تاثر کھو بیٹھوں گا، چنانچہ میں نے آرام کیا، قلم نے بھی۔ ہوا یہ کہ اس زمانے میں کچھ زیادہ کام کرنا پڑا۔ یوں کام ہر مہینے بڑھتا ہی جاتا ہے، اپنا بھرم قائم رکھنے اور خود کو ممتاز کرنے کی جدوجہد میں کئی راتیں صرف ہوگئیں۔ کہانیاں آتی رہیں، مسترد ہوتی رہیں، ایک ڈھیر لگ گیا۔ اب جب کام مکمل ہوا تو آپ کے سامنے آنے کا وقت آیا۔ بہت دیر میں میرے اور قلم کے درمیان میں اتحاد ہوا ہے۔ میرا خیال ہے اب شاید میں اپنا اظہار صحیح طور پر کر رہا ہوں۔ شاید آپ وہ سب کچھ سمجھ رہے ہیں جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ شاید کا لفظ میں نے برائے بلاغت استعمال کیا ہے۔ مجھے یقین ہے آپ میری کش مکش محسوس کر رہے ہیں۔ کتنے خارجی اور داخلی معاملات قلم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کیا میں اپنے دل کی باتوں سے سرسری گزر جاتا، تاخیر ہوتی ہے تو ہونے دیجیے۔ کوئی قانون اس قسم کا نہیں بنا ہے کہ سب رنگ ایک مقررہ وقت پر آنا چاہیے۔ قلم قابو میں نہیں آتا ہے تو کچھ دیر ٹھیریے۔ قلم کو گداز منتقل کرنے دیجیے، ورنہ اسے آرام کرنے دیجیے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ قلم کتنی ظالم اور کتنی مجبور شے ہے؟ یہ فرد سے زیادہ سماج زدہ ہے۔ مجھے دیکھیے یہ میرے جذبات سنسر کرتا ہے۔ میں ایک بھرپور شدت کا خواہاں ہوں، مجھے پسینہ آ رہا ہے اور یہ مجھے قمیص اتارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسے آپ لوگوں کا خیال ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ میرے ہیں۔ اب یہ دور کے لوگ نہیں رہے۔ بہت دن رفاقت کے ہو گئے۔ میں نے انہیں اور انہوں نے مجھے دیکھ لیا۔ تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ صا ف صاف بات کیجیے، صاف صاف اظہار کیجیے۔ دبکے اور سہمے ہوئے کیوں بیٹھے رہیے۔ لوگوں کے دل کشادہ ہیں، پاؤں پھیلائیے، پر یہ قلم مجھے روکتا ہے، کہتا ہے ابھی کلیلیں مارنے اور قلانچیں بھرنے کا وقت نہیں آیا، اپنی بساط سے آگے نہ بڑھ۔ اس لیے میرا جی چاہتا ہے کہ میں کہیں اور چلا جاؤں، کسی ویرانے میں۔ جو میرے ہم نوا ہیں، وہ ہاتھ اٹھائیں اورمیرے ساتھ چلیں۔
مذکوربہ بالا سطروں کی آزاد نویسی آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ یہ میرا تکدر، میرا غبار تھا۔ سب رنگ میں آپ نے اب تک جو کرشمے دیکھے ہیں، وہ میرے وسائل، میری پرواز سے سِوا تھے۔ میں نے کہاں کہاں سے یہ چیزیں اکٹھی کر کے یہ جوہر تیار کیا۔ یہ رنگ رنگ کی کہانیاں، شوخیاں، شرارتیں اور مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ مواد کے اعتبار سے سب رنگ یورپ اور امریکا کے کئی ممتاز پرچوں کے مقابلے میں بہت اعتماد سے رکھا جا سکتا ہے۔
ہاں ایک کمی ہے اور وہ میری خامی نہیں ہے، میرے ذاتی اور ملکی وسائل کی خامی ہے، وہ اس سماج میں قلم کی بندشیں ہیں۔ میرے ملک میں کام کرنے والوں کا حوصلہ ابھارنے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ میرے وسائل وسیع اشاعت کے باوجود محدود ہیں۔ میرے پاس اپنی مشین نہیں کہ گیٹ اپ میں انقلاب آفریں تبدیلیاں کر سکوں۔ میرے پاس دنیا کی مختلف زبانوں میں شایع ہونے والے رسائل اور کتب کی ترسیل کا کوئی انتظام نہیں کہ میں آپ کو دنیا بھر کا جلوہ دکھا سکوں۔ میرے پاس کوئی کاغذ نہیں، کاغذ صرف روزناموں اور ہفت روزوں کو ملتا ہے، ماہناموں کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا۔ میری اشاعت پاکستان میں صرف ایک روزنامے سے کم ہے، یہ کوئی ایک لاکھ کے قریب اشاعت کا پرچہ ہے۔ میں نے کاغذ کے حصول کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کر دیں اور مجھے احساس ہوا کہ یہ میرا ملک نہیں ہے اور میں کوئی جرم کر رہا ہوں۔ مجھے اپنا پاسپورٹ بنوا لینا چاہیے اور اس ریوڑ میں خود کو شامل کر دینا چاہیے، جو ملک سے باہر جا رہا ہے۔ نہ صفحات بڑھائے جا سکتے ہیں اور نہ آرائش و زیبائش میں کوئی بڑی تبدیلی کی جا سکتی ہے، بس میری گرفت مواد پر ہے۔ ایک ستھرا، نکھرا، اجلا مواد، اچھے مواد کے لیے، لکھنے کے چور لکھنے والوں کو اکسانے کے لیے اور کونے کھدروں سے جواہر پارے سمیٹنے کے لیے میری راتیں، میرے دن ہمہ انہماک مصروف ہیں۔ قلم نے یہاں تک ساتھ دیا ہے۔ اس میں اور ہنر مندی، مشاقی اور پختگی پیدا ہوگی۔ اور اس اعتماد پر آس قائم ہے کہ ایک دن میں خود ہی اپنے وسائل پر قابو پا لوں گا۔
سب رنگ کا پہلا اور موجودہ شمارہ ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں، میری تربیت ہو رہی ہے۔ ہم نے سیڑھیاں طے کی ہیں، ہم دونوں نے۔ آپ کے ذوق میں تبدیلی ہوئی ہے، میں بھی بدلا ہوں اور میں نے خیال رکھا ہے کہ اب ابتدائی چیزوں کی تکرار نہ کی جائے، جو انکشاف کیے جا چکے ہیں، ان کا اعادہ بے سود ہے، نئے انداز سے باتیں کرنا چاہییں، زندگی محسوس ہوتی ہے، میں اس لیے دھیرے دھیرے رنگ بدلتا رہتا ہوں، جو چیزیں اس وقت آپ کی نظروں کو گراں گزرتی ہوں گی، وہ بھی دور ہو جائیں گی۔ جو شخص ساڑھے تین سال سے آپ کے ساتھ شریک سفر ہے، اس کی رفاقت پر اعتبار کرنا چاہیے۔ کبھی پیچھے، کبھی آگے مگر میں آپ کے ساتھ ہی تو ہوں۔ اگر میں تیز دوڑا اور آپ کو بھی مجبور کیا تو دونوں تھک جائیں گے۔
زیر نظر شمارہ اس وقت ترتیب دیا گیا ہے جب قلم اور ذہن میں خوش دلی کی فضا موجود تھی، وہ آمادگی جو قلم میں تھی، وہ آمادگی جو میرے ادارے کے رفیقوں کے ذہن میں تھی۔ مجھے امید ہے آپ کا وقت خاصا دلچسپ گزرے گا، شرط یہ ہے کہ آپ بھی یہ تحریریں اس وقت پڑھیں، جب آمادگی موجود ہو۔
اس مرتبہ کیا خوب باتیں ہوئیں، محبت کی باتیں رہ گئیں۔ میری محبتیں آپ کے لیے، میں آپ کے لیے۔ کیا اب بھی کچھ کہنا باقی رہ گیا ہے، عشق میں شک کی گنجائش نہیں رہتی۔
(سب رنگ، جولائی 1973ء)
(بشکریہ ’’دلیل‘‘)