یہ بات 19دسمبر 2014ء کی ہے جب نشترمیڈیکل کالج میں عالمی کانفرنس کے موقع پر سانحہ پشاور کی یاد میں امجد اسلام امجد کی صدارت میں محفل مشاعرہ منعقد ہوئی۔ مشاعرہ میں جناب امجد اسلام امجد نے ملک کے نامور شاعر اورصحافی رضی الدین رضی کی سانحہ پشاور کے حوالے سے نظم ’’ہر تابوت میں میری میت‘‘ سن کر کہا کہ ’’رضی کی شاعری زندگی کی شاعری ہے لیکن وہ موت کوبھی اپنی شاعری میں اس انداز میں پینٹ کرتا ہے کہ موت پر رشک آتا ہے۔رضی الدین رضی ملتان میں رہتا ہے لیکن اس کی شاعری کی دھوم پوری دنیا میں ہے۔کہیں کوئی’’ ستارے مل نہیں سکتے‘‘،گنگنا تا ہوا دکھائی دیتا ہے۔تو کوئی اس کی بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں نظم کو یاد کرتا ہے۔سردیوں میں بارش ہو تو اُس کی نظم ’’سردیوں کی بارش تو آگ جیسی ہوتی ہے‘‘ سب کے لبوں پر آجاتی ہے۔حال ہی میں روزنامہ ایکسپریس کے ویلنٹائن ایڈیشن میں رضی کی نظم ’’ محبت یاد رکھتی ہے‘‘ شائع ہوئی تو مجھے خیال آیا کہ رضی کے بارے میں جب زمانہ لکھ رہا ہے تو مجھے بھی اس پر قلم اٹھانا چاہیے کہ رضی کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹر وزیرآغا،ڈاکٹر عرش صدیقی،ڈاکٹر انور سدید،مستنصر حسین تارڑ،رضا علی عابدی،بشری رحمان،پروفیسر سحر انصاری، جمیل الدین عالی،محمود شام،میرزا ادیب ،ڈاکٹر عرش صدیقی ، ڈاکٹر انوار احمد سمیت بے شمار ناقدین اپنے خیالات کااظہارکر چکے ہیں لیکن رضی کی تخلیقی زندگی کا اصل اثاثہ اس کے قارئین کی محبت ہے جو اس کی نئی تحریروں کا انتظارکرتے ہیں۔حال ہی میں رضی کی نئی کتاب ’’وابستگانِ ملتان‘‘ منظرعام پرآئی تو پڑھنے والوں کو رضی کی پچھلی کتاب ’’ رفتگانِ ملتان‘‘ بھی یاد آگئی کہ رفتگانِ ملتان میں اس نے اپنے سے جدا ہونیوالوں کو یاد کیا تو وابستگان ملتان میں اس نے اپنے ساتھ خواب دیکھنے والوں ،محبت کرنے والوں کا ذکرکیا ہے۔رضی بنیادی طورپر صحافی ہے۔تین عشروں سے زیادہ پر محیط اپنے صحافتی کیریئر کے دوران اس نے صحافیوں کی ایک پوری نسل کی تربیت کی۔اس نے اس سفر میں کانٹے ہی کانٹے دیکھے ہیں لیکن وہ لوگوں کو خوشبوئیں اور پھول دیتا رہاہے۔’’وابستگان ملتان‘‘ کے پیش لفظ میں رضی لکھتا ہے کہ’’ کتاب میں جن ہستیوں کاذکر ہے ان میں میرے استاد بھی ہیں اور میرے دوست بھی۔یہ دراصل ان سب کی زندگیوں کی کہانی ہے اور ان سب کے ساتھ ساتھ میری زندگی کی بھی کہانی ہے کہ میری زندگی بھی تو انہی کے جیون کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔‘‘رضی اپنی ہر تحریر میں زندگی کی تلخیوں کا تذکرہ کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زیست کے اس سفر میں رضی کی زندگی میں سکھ کے لمحے بہت کم آئے ۔
سکھ کا لمحہ اگر آلام سے پہلے آتا
میں رضی لوٹ کر گھر شام سے پہلے آتا
رضی الدین رضی جتنا اچھا شاعرہے اتنا ہی ا چھا نثر نگار ہے۔وہ تنقیدی مضمون لکھے یا خاکہ۔ایسا لگتا ہے کہ اس کو ہرصنفِ ادب میں کمال حاصل ہے۔شاعری میں اس کو جس انداز سے پذیرائی ملی اس خطے میں بہت کم لوگوں کے حصے میں یہ محبت آئی ہوگی۔کسی کالج کامشاعرہ ہو یا یونیورسٹی میں کوئی تقریب ۔رضی اپنی شاعری کی وجہ سے ہردلعزیز قرارپاتا ہے۔رضی کے یہ شعر دیکھیں جو ضرب المثل بن چکے ہیں
ہمارے ساتھ کیا کیا جھیلتا وہ
بچھڑ کر کتنا اچھا رہ گیا ہے
ہمیں رستے میں ہی رہنا پڑے گا
کہ ہم لوگوں کو رستہ دے رہے ہیں
مبارک باد دینا چاہتے تھے
مگر لوگوں کو پرسہ دے رہے ہیں
رضی پر قلم اٹھانا میرے لیے اس لیے بھی آسان ہے کہ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہ تمام چیزیں میں اپنے آپ پر لکھ رہا ہوں۔کہ وہ میرے وجود کاحصہ ہے۔میرے سکھ اور میرے دکھ کاساتھی ہے۔دھوپ ہو تو سایہ بن جاتا ہے۔میرے چہرے پر آنسو ہوتو سب سے پہلا ہاتھ اسی کا ہوتا ہے جو وہ آنسو اپنی ہتھیلی میں لے لیتا ہے ۔دھوپ ہو تو یہ چھاؤں بن کر میرے پاس آبیٹھتا ہے۔پیروں میں کانٹے ہوں تو یہ سب سے پہلے وہ کانٹے اپنے ہاتھوں سے چنتا ہے کہ اس کے یہی ہاتھ پوری زندگی کانٹے چنتے چنتے زخمی ہوئے لیکن اس نے کبھی ان زخموں کو عیاں نہ ہونے دیا۔وہ لوگوں کے دکھ ختم کرکے خوش ہوتا ہے لیکن ہم اس سے آج تک نہیں پوچھ سکے کہ اس کے دکھ کب ختم ہوں گے۔وہ ایک عرصے سے اکیلا ہی اپنی جنگ لڑرہاہے اورانا پرست ایسا کہ اس جنگ میں وہ کسی کو شریک بھی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ رضی ہے جوکہتا ہے کہ’’ یہ دکھ بھی میرے اپنے ہیں اور یہ لڑائی بھی میری اپنی ہے۔‘‘اس نے زندگی اس انتظار پہ گزاری ہے کہ اس کے دن بدلیں گے لیکن یوں لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ تلخیاں بڑھ رہی ہیں اور دن بدلنے کا کوئی امکان نہیں رہا۔
اس خامشی کے عہد میں میری صداتو ہے
اتنے شدید حبس میں تھوڑی ہوا تو ہے
یہ شعر اس نے 1990ء میں کہا تھا۔تب سے لیکراب تک رضی اسی حبس کے موسم میں جی رہا ہے اوراب وہ یہ سوال کررہا ہے کہ ’’کس لیے ہے؟ زندگی‘‘۔زندگی کس کیلئے ہے ۔وہ کیوں گزاررہاہے۔وہ کس کا انتظار کررہاہے۔زندگی کے رنگ اس سے واقف کیوں نہیں ہورہے ۔زندگی کے قہقہے اس کے اپنے قہقہوں کے ساتھ ہم آہنگ کیوں نہیں ہورہے ۔وہ جو سانس لے رہاہے ان سانسوں میں کون ہے جو اس کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔وہ زندگی کے حوالے سے بالکل نئی بات کرتا ہے۔کبھی وہ موت کو زندگی کہتا ہے ۔کبھی وہ دکھ کو زندگی کہتا ہے ۔کبھی اس نے مٹی کو زندگی کہا۔کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی سگریٹ کی راکھ میں زندگی تلاش کی ۔زندگی کے بے معنویت پر اُس نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔یہ بے مثال نظم ہم سب کی زندگیوں کا نوحہ ہے۔اُس نے وہ بہت سے سوالات کئے جو ہم سب کے ذہنوں میں بھی موجود ہیں لیکن ہم انہیں اس خوبصورتی سے صفحہ قرطاس پر منتقل نہیں کر سکتے ۔زندگی کیسی ہے اور کیسی ہونی چاہئے آیئے رضی الدین رضی کی نظم ’’کس لئے ہے زندگی ‘‘ پڑھتے ہیں اور اُس کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں
اگر یہ زندگی کسی وصال کے لئے نہیں
جواب کے لئے نہیں ، سوال کے لئے نہیں
یہ اُس کا ہجر جو ہمارے چار سُو ہے رقص میں
اگر یہ اُس کے ہجر کے زوال کے لئے نہیں
خیال بھی اگر اُسی خیال کے لئے نہیں
تو آپ ہی بتائیے کہ کس لئے ہے زندگی؟
تو کس لئے ہے زندگی اگر یہ زندگی نہیں؟
تو کس لئے ہے روشنی اگر یہ روشنی نہیں؟
اگر دلوں میں خوف ہے ، کہیں بھی دلکشی نہیں
اگر کوئی خوشی بھی اس جہاں میں دائمی نہیں
تو کس لئے ہے زندگی ؟
اگر یہاں ملال ہے
گلاب پائمال ہے
ہر ایک شخص گر یہاں دکھوں سے ہی نڈھال ہے
اگر ہر ایک تیغ زن کے سامنے یہاں پہ بس
مرا بدن ہی ڈھال ہے
تو پھر مرا سوال ہے
کہ کس لئے ہے زندگی ؟
اگر وہ مجھ سے دور ہے
دکھوں سے وہ بھی چور ہے
کسی کا ہارنا ہی گر سماج کا غرور ہے
اگر محبتوں کا قتل ہی یہاں شعور ہے
تو پھر مرا سوال آپ سے یہی حضور ہے
کہ کس لئے ہے زندگی؟
زمیں پہ پَیر ہیں نہ اپنے سر پہ آسمان ہے
اگر ہر اک جبیں پہ ذلتوں کا ہی نشان ہے
ہر اک خوشی ہے عارضی ، ہر ایک دکھ جوان ہے
گمان ہے یقیں مگر یقین ہی گمان ہے
عجیب داستان ہے
توآپ ہی بتائیے کہ کس لئے ہے زندگی؟
۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ زندگی ہے تو وہ میرے آس پاس ہو
وہ جو مرا وجود ہے وہی مرا لباس ہو
نہ دل کبھی اداس ہو
نہ لب پہ کوئی پیاس ہو
اگر یہ زندگی ہے تو وصال ہی وصال ہو
نہ کوئی پائمال ہو
دکھوں کو بس زوال ہو
نہ آسماں پہ دھول ہو
نہ دل کوئی ملول ہو
کتا ب ہو ، گلاب ہو
نصاب ہو ، شباب ہو
کہیں پہ ماہتاب اور کہیں پہ آفتاب ہو
عذاب بھیجتے ہیں جو انہی پہ بس عذاب ہو
میں کہہ سکوں سکون سے جو میرے دل کی بات ہے
میں کہہ سکوں یہ دن نہیں ، میں کہہ سکوں یہ رات ہے
میں کہہ سکوں یہ ہونٹ ہیں، میں کہہ سکوں یہ ہاتھ ہے
میں کہہ سکوں وہ ساتھ ہے جو میری کائنات ہے
اگر یہ ہو سکے تو زندگی کو زندگی کہوں
میں روشنی کو روشنی ، خوشی کو بھی خوشی کہوں
وگرنہ عمر بھر یہی میں سوچتا رہوں گا بس
پوچھتا رہوں گا بس
وہ زندگی میں گر نہیں تو کس لئے ہے زندگی ؟
اب آپ ہی بتائیے کہ کس لئے ہے زندگی؟
روزنامہ ایکسپریس 27 فروری 2015