اُردو شاعری کی مختلف اصناف نے ہر دور میں شعراءکرام کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ایسے شعراءجو نئے تجربے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے لیے ایسی اصناف تخلیقی طور پر مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ انہی اصناف میں ایک صنفِ سخن ہائیکو ہے۔ ہائیکو کی جنم بھومی جاپان ہے۔ یعنی ہائیکو کی ہیئت دیکھ لیں اور جاپانیوں کی جسامت دیکھ لیں۔ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار دکھائی دیتے ہیں۔ جاپانی بنیادی طور پر خوبصورت اور سمارٹ ہوتے ہیں اور تو اور ان کا نامور پہلوان انوکی بھی ہمارے جھارا پہلوان کے مقابلے میں اتنا سمارٹ تھا کہ بے چارہ لاہور آ کر چت ہو گیا۔ بات ہو رہی تھی ہائیکو کی۔ یہ صنف دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کفایتِ لفظی اور اختصار کا دوسرا نام ہائیکو ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اُردو میں ہائیکو کہنے والوں نے جو مضامین کے انبار لگائے وہ اتنے ملائم، خوبصورت اور منفرد ہیں کہ شاعر کا جی چاہتا ہے کہ وہ ہائیکو ضرور کہے۔ ہائیکو کے صوتی اوزان 5-7-5 ارکان کے تین منظوم مصرعوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ خوبصورتی کی بات یہ ہے کہ انہی تین مصرعوں میں مافی الضمیر بھی بیان ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہمیں پاکستانی شعراءکے ہاں دیکھنے کو ملی کہ انہوں نے جاپانی انداز کو پاکستانی انداز میں ڈھال کر ہائیکو کہی۔ اس میں ان کو اتنی کامیابی ملی کہ شائقینِ ادب نے اشعار کی طرح ہائیکو بھی یاد کرنے شروع کر دیئے۔ اُردو شاعری کی مختلف اصناف نے ہر دور میں شعراءکرام کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ایسے شعراءجو نئے تجربے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے لیے ایسی اصناف تخلیقی طور پر مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ انہی اصناف میں ایک صنفِ سخن ہائیکو ہے۔ ہائیکو کی جنم بھومی جاپان ہے۔ یعنی ہائیکو کی ہیئت دیکھ لیں اور جاپانیوں کی جسامت دیکھ لیں۔ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار دکھائی دیتے ہیں۔ جاپانی بنیادی طور پر خوبصورت اور سمارٹ ہوتے ہیں اور تو اور ان کا نامور پہلوان انوکی بھی ہمارے جھارا پہلوان کے مقابلے میں اتنا سمارٹ تھا کہ بے چارہ لاہور آ کر چت ہو گیا۔ بات ہو رہی تھی ہائیکو کی۔ یہ صنف دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کفایتِ لفظی اور اختصار کا دوسرا نام ہائیکو ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اُردو میں ہائیکو کہنے والوں نے جو مضامین کے انبار لگائے وہ اتنے ملائم، خوبصورت اور منفرد ہیں کہ شاعر کا جی چاہتا ہے کہ وہ ہائیکو ضرور کہے۔ ہائیکو کے صوتی اوزان 5-7-5 ارکان کے تین منظوم مصرعوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ خوبصورتی کی بات یہ ہے کہ انہی تین مصرعوں میں مافی الضمیر بھی بیان ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہمیں پاکستانی شعراءکے ہاں دیکھنے کو ملی کہ انہوں نے جاپانی انداز کو پاکستانی انداز میں ڈھال کر ہائیکو کہی۔ اس میں ان کو اتنی کامیابی ملی کہ شائقینِ ادب نے اشعار کی طرح ہائیکو بھی یاد کرنے شروع کر دیئے۔ فلسفے کی کتاب کھو لی تو سارتر کے حروف پر تتلی اپنی ہستی کی سوچ میں گم تھیڈاکٹر محمد امین کا مندرجہ بالا ہائیکو یوں لوگوں میں مشہور ہوا جیسے میر، غالب، اقبال، فیض اور فراز کے اشعار مشہور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کی تحقیق کے مطابق اُردو ہائیکو کو سب سے پہلے تراجم کے ذریعے ظفر اقبال کے رسالہ ”لیل و نہار“ کے ذریعے متعارف کرایاگیا ۔ ظفر اقبال کے بعد عبدالعزیز خالد اور ڈاکٹر پرویز پروازی نے جاپانی ہائیکو کو اُردو کے قالب میں ڈھالا۔ اُردو میں تخلیقی لحاظ سے سب سے پہلے ڈاکٹر محمد امین نے طبع آزمائی کی۔ ڈاکٹر محمد امین نے ہائیکو کیوں کہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ کیا وہ غزل یا نظم کے مستقبل سے مایوس ہو چکے تھے؟ کیا وہ اپنے آپ کو غزل و نظم کے میدان میں اَن فٹ محسوس کرتے تھے۔ نہیں بالکل نہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر محمد امین کی غزل و نظم آج بھی معاصر شعراءمیں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب وہ پی۔ایچ۔ڈی کے سلسلہ میں جاپان گئے تو وہ وہاں سے ہائیکو کی پنیری لے آئے۔ اس پنیری کو ملتان میں بیٹھ کر شاعری کی کیاری میں لگایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی مہک چاروں اور پھیل گئی۔ یوں انہوں نے جاپان میں قیام کے دوران ہائیکو کے مزاج کا مطالعہ کیا اس کا ثمر پاکستان آ کر اٹھایا اور بڑی کامیابی سے اس صنف میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ یہ 1980ءکی دہائی کا زمانہ تھا۔ ڈاکٹر محمد امین نے ہائیکو کہنے کے لیے بحرِ خفیف مسدس استعمال کی اور مفرد الفاظ کی بجائے اضافت و ترکیب کا نظام بھی قبول کیا۔ ان کے اس تجربے کے بعد خیال کی رو کا موضوع کے ساتھ گہرا تعلق بن گیا۔ جس سے یہ صنف جاپانی اثر سے باہر آئی اور بالکل پاکستانی آہنگ کے ساتھ سامنے آ گئی۔ اب ڈاکٹر محمد امین کی کہی ہائیکو اتنی خوبصورت اور توانا تھی کہ اس کی گونج بڑے بڑے شعراءکرام تک پہنچ گئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اختر ہوشیارپوری، ادا جعفری، محسن بھوپالی، حمایت علی شاعر، حیدر گردیزی، اقبال ارشد، حسین سحر، جمیل ملک، طالب قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، رضی الدین رضی، حیدر قریشی، ساحل احمد، اکبر حمیدی، نسیم سحر، حمید الماس، اختر شمار، اطہر ناسک، خاور اعجاز، اکرم کلیم، میاں مقبول احمد، اظہر ادیب، علی محمد فرشی، اقبال حیدر، تابش دہلوی، جمیل نقوی، حسن اکبر کمال، راغب مراد آبادی، رسا چغتائی، خواجہ رضی حیدر ، سلیم کوثر، فرتاش سیّد، سلمان غنی، سحر انصاری، شاہدہ حسن، صہبا اختر، پیرزادہ قاسم، نوید اسلم، عباس تابش، ارشد ملتانی، فہیم اصغر، عباس ملک، شفیق آصف، ساغر مشہدی، قیوم طاہر، اصغر عابد، طارق اسد، انوار فطرت اور نوازش علی ندیم نے اس میں طبع آزمائی کی۔ مجموعے شائع ہونے لگے۔ ملتان والوں کو ڈاکٹر محمد امین کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہاں پر نعتیہ اور حسینی ہائیکو کے مشاعرے منعقد ہونے لگے اور یوں جس صنف کو ڈاکٹر محمد امین جاپان سے لے کر آئے اب وہ مکمل پاکستانی اور اسلامی قسم کی صنف بن چکی ہے۔ ہائیکو لوگوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ سو کچھ ہائیکو پیشِ خدمت ہیں۔٭…. دھوپ میں نرمی تھی نرم ملائم موسم تھا یادیں بچپن کی (ساحل احمد)٭…. شہر سے دور ایک پگڈنڈی اِک اکیلا درخت پیپل کا جانے والوں کا راستہ دیکھے (ڈاکٹر بشیر سیفی)٭…. رات تھی اماوس کی اس کی بند آنکھوں میں خواب روشنی کے تھے (علی محمد فرشی)٭…. شام نے اپنے روپ کی تھالی موج کے آگے ایسے اُچھالی کونپل کونپل رچ گئی لالی (حنیف اسعدی)
ٌ( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ