ان کی کتاب ”جنگل اُداس ہے“ کے ہر دوسرے تیسرے کالم میں ملتان اور اہلِ ملتان کا تذکرہ ملتا ہے۔ خاص طور پر وہ جب دنیا سے جانے والوں پر لکھتے تو بہت سے دوستوں نے ان سے فرمائش کر رکھی تھی کہ منو بھائی اگر ہمیں آپ سے پہلے موت آ گئی تو مہربانی کر کے ہم پر لازمی کالم لکھنا نہ بھولیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منو بھائی مرنے والے پر کالم لکھ کر اسے زندہ کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر 6 جنوری 1977ءکو امروز میں شائع ہونے والے کالم میں ملتان کے ایک نوجوان شاعر مقبول تنویر کی موت پر لکھے کالم کا آخری پیرا ملاحظہ فرمائیں:
”تعزیتی قراردادوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”مقبول تنویر کی موت سے ملتان کے ادبی حلقوں میں خلا پیدا ہو گیا ہے وہ آسانی سے پُر نہیں ہو گا“ اس خلا کو کوئی مقبول تنویر جیسا ترقی پسند، بےروزگار اور مفلس شاعر ہی پُر کر سکتا ہے مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ادبی حلقوں کا یہ خلا جلد ہی پُر ہو جائے گا۔ جو خلا پُر نہیں ہو گا وہ سوگوار بیوہ اور یتیم بچوں کی زندگیوں کا ہے۔“
منو بھائی دوستی اور تعلق کے معاملے میں اپنے نظریات اور شخصیت کی طرح کھرے تھے۔ ایک مرتبہ کسی سے دل مل گیا تو پھر وہ اس کی خوبیوں اور خرابیوں سمیت قبول کر لیتے تھے۔ ملتان کے زمانے میں ان کا جن لوگوں سے تعلق جڑا تو وہ مرتے دَم تک قائم رہا۔ معرو صحافی خان رضوانی کا جب انتقال ہوا تو ان پر کالم لکھتے ہوئے انہوں نے لکھا: ”خان رضوانی کے انتقال کے بعد میرا ملتان کمزور ہو گیا ہے۔“
ملتان کے مضبوط ہونے کا انہوں نے سب سے پہلے تذکرہ نسیم شاہد کے پہلے شعری مجموعہ ”آئینوں کے شہر میں پہلا پتھر“ کی تعارفی تقریب میں کیا جب قومی اسمبلی کے سپیکر سیّد فخر امام کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا معاملہ چل رہا تھا۔ پورے ملک میں اُن دنوں سیّد فخر امام کے ہٹائے جانے کی بحث جاری تھی کہ ملتان سے واپسی پر منو بھائی نے کالم لکھا جس کا ملتان مضبوط ہو گا اس کا اسلام آباد بھی مضبوط ہو گا۔ ان کا یہ کالم اتنا مقبول ہوا کہ آج بھی جب ملتان سے تعلق رکھنے والے کسی سیاستدان، ادیب، شاعر، دانشور، گلوکار اور مصور کو لاہور یا اسلام آباد سے بے دخل کیا جاتا ہے تو یار لوگ ایک ہی بات کرتے ہیں کہ اگر اس کا ملتان مضبوط ہوتا تو یہ کبھی اسلام آباد یا لاہور سے واپس نہ آتا۔ اسی طرح جب سابق وزیر اعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو تب بھی یہی تجزیہ کیا گیا کہ یوسف رضا گیلانی کا ملتان کمزور ہو گیا تھا اس لیے انہیں اسلام آباد والوں نے ملتان بھیج دیا۔ یار لوگوں کا یہ تجزیہ اس وقت سوفیصد درست ثابت ہوا جب 2013ءکے انتخابات میں گیلانی خاندان ایک بھی نشست پر کامیاب نہ ہو سکا۔
ملتان کے ساتھ تعلق کا عرصہ پچاس برس سے زیادہ تھا یہی وجہ ہے کہ انہیں کبھی بھی اہلِ ملتان کے ساتھ ملاقات کا موقع ملتا وہ لازمی ملتان والوں کو وقت دیتے۔ ملتان سے جب اصغر ندیم سیّد لاہور منتقل ہوئے تو منو بھائی نے بڑی محبت سے ان کے ساتھ تعلق کا ہاتھ بٹایا۔ 1988ءمیں اصغر ندیم سیّد نے منو بھائی کے متعلق لکھا ”گریبان ایسے ملک کا کالم ہے جہاں ایک اسلوب سے کام نہیں چل سکتا اس لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جس کی کئی حیثیتیں ہوں، جس کے کئی چہرے ہوں کیونکہ یہاں کئی موسم آتے ہیں۔ کبھی تو گریبان منہ زور دریا بن جاتا ہے کبھی نیچی لہروں میں پُر سکون چلتا رہتا ہے۔ یہ موسم پر منحصر ہے کبھی یہ مرثیہ خواں ہو جاتا ہے اور کبھی گریبان منو بھائی کی خودنوشت سوانح لگتا ہے۔ منو بھائی کے کئی چہرے ہیں۔ وہ ٹی ہا¶س کے ڈنڈے پر بیٹھا ہوا شاعر بھی ہے۔ مو منہا دودھ دہی والا بھی ہے۔ وہ جیرا گول گپے والا ہے، وہ ٹنڈا بدمعاش ہے جو محلے کی عزت کا راکھا ہے۔ اول تو اسے ہر قسم کی بات کہنے کے لیے الفاظ مل جاتے ہیں اور اگر نہ بھی ملیں تو وہ نئے الفاظ ایجاد کر کے ”درفطنی“ چھوڑ دیتا ہے۔“
در فطنی سے یاد آیا کہ منو بھائی نے اپنے کالموں، نظموں اور ڈراموں میں نت نئے الفاظ بھی متعارف کرائے۔ جنرل ضیاءالحق کے دور جب اہلِ وطن پر ظلم و ستم کا سلسلہ طویل ہو گیا تو انہوں نے ضیاءالحق کا جہاں ذکر کرنا ہوتا وہاں صرف ”ضیاءالحقی“ لکھتے تو پڑھنے والوں کو علم ہو جاتا کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے۔ اپریل 1985ءمیں جب محترمہ بےنظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد لاہور پہنچیں تو انہوں نے خصوصی طور پر منو بھائی کو یاد کیا۔ محترمہ کے ساتھ ان کا تعلق شہادت تک قائم رہا۔ نظریاتی طور پر منو بھائی اگرچہ پی پی پی کے حامی تھے لیکن اس کے باوجود جب ان کا اکلوتا بیٹا کاشف ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہوا تو اس کے علاج و معالجہ کے لیے محترمہ کلثوم نواز آگے بڑھی اور پورا علاج اپنی جیب سے کرایا۔ منو بھائی نے خصوصی طور پر کالم میں کلثوم نواز کا شکریہ ادا کیا لیکن اس کے باوجود وہ نواز حکومت کے ناقد رہے۔
زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے اپنے کالم کے موضوع کو اقتصادیات کی گنتی کے لیے وقف کر دیا۔ معلوم نہیں اس کے پس منظر میں کیا رمز پوشیدہ تھا۔ وہ منو بھائی جو عوامی، ثقافتی، سماجی، علمی، سیاسی اور مرحومین پر کالم لکھنے پر قادر تھا وہ بالکل تبدیل ہو گیا۔ حتیٰ کہ آخری چند برسوں میں انہوں نے اپنے مرحوم دوستوں کے لیے جو کالم لکھے ان میں بھی وہ منو بھائی دکھائی نہیں دیتا تھا جو ہم گزشتہ کئی عشروں سے دیکھ رہے تھے۔ زندگی کے آخری سال انہوں نے اپنی خود نوشت کے واقعات کو کالم کا حصہ بنانا شروع کیا تو ایک کالم میں جب انہوں نے لکھا کہ:
”مَیں گزشتہ تیرہ دنوں سے ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہوں۔ یہاں مجھے ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے نمونیہ ہونے کی بنا پر لایا گیا لیکن یہاں آ کر پتہ چلا کہ گردے بھی کام نہیں کر رہے ہیں۔ خون میں انفیکشن کی وجہ سے ہوش اور بے ہوشی کے درمیان ٹھیک سے بات نہیں کر رہا۔ لیکن منو بھائی بضد ہے کہ مَیں اپنی حالتِ زار بتانے کی بجائے اگلی تحریر لکھوں۔ مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ جب مجھے یہاں لایا گیا تو میرے خون میں انفیکشن بہت بڑھ چکا تھا چنانچہ مجھے پے در پے ڈائلیسز کے عمل سے گزارا گیا جس سے انفیکشن میں کسی حد تک کمی واقع ہو گئی۔ لیکن ہسپتال کے ڈاکٹروں کی تمام تر محنت کے باوجود ابھی پھیپھڑوں کے انفیکشن میں کوئی کمی واقع نہیں آئی۔ لیکن منو بھائی کہتا ہے کہ معاشرے کا انفیکشن اس سے بھی کہیں زیادہ ہے اور ڈائلیسز کا کوئی بھی عمل معاشرے کے گندے خون کو صاف کرنے سے قاصر ہے۔ ایک تمہارے قلم سے کچھ لوگوں کی اُمید بندھی ہے۔ چنانچہ اُٹھو اور لکھو۔“
اسی کالم کی آخری چند لائنیں ملاحظہ فرمائیں:
”تم موت کے انتظار میں بے ہوش لیٹے رہنا چاہتے ہو تو لیٹے رہو۔ مَیں نہ خود لیٹ سکتا ہوں اور نہ ہی اپنی سوچوں کو اس بستر تک محدود کر سکتا ہوں کیونکہ آج کی نسل یا آنے والے نسلوں کو منو بھائی سے دلچسپی ہو نہ ہو منو بھائی کو اُن سے دلچسپی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔“
منو بھائی ظاہری طور پر دنیا سے چلے گئے لیکن ان کے کالم، شاعری اور ڈرامے ہمیشہ روشنی کے طور پر راستے دکھاتے رہیں گے۔ منو بھائی ایک شخص نہیں بلکہ ایک ادارے کا نام ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے کالموں کو موضوع کے اعتبار سے الگ کر کے کتابی شکل میں محفوظ کیا جائے تاکہ آنے والے دنوں میں منو بھائی کے لکھے ہوئے کالموں سے استفادہ کیا جائے کہ وہ اپنے ہر کالم میں اپنے پڑھنے والوں کو کچھ نہ کچھ تحفہ دیا کرتے تھے۔ 7 دسمبر 1994ءکے کالم کا تحفہ ملاحظہ فرمائیں اور سوچیں کہ ہم منو بھائی کی موت سے کتنے بڑے نقصان سے دوچار ہوئے ہیں۔
”منہ سے بڑا نوالہ، اہلیت سے بڑا عہدہ اور نام سے بڑا لباس بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہوتا ہے جتنی کہ بھوک سے کم خوراک، جسم سے تنگ لباس اور خواہش سے کم پذیرائی ہو سکتی ہے۔“
فیس بک کمینٹ