شاکر شجاع آبادی کا شمار سرائیکی کے معروف شعراء میں ہوتا ہے جن کی شاعری کو خطے میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ چند ماہ قبل ایک ٹیلیویژن چینل نے شاکر شجاعبادی کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے اپنی علالت کے بارے میں تفصیل بیان کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کا سرکاری سطح پر بیرونِ ملک علاج کروایا جائے۔ یہ انٹرویو نشر ہوتے ہی پاکستان سویٹ ہومز کے سرپرست اعلیٰ زمرد خان نے شاکر شجاعبادی سے رابطہ کیا اور ان کو پیشکش کی کہ اسلام آباد تشریف لے آئیں آپ کا علاج کراتا ہوں اور جتنا خرچہ ہو گا مَیں برداشت کروں گا۔ یہ پیشکش کرتے ہوئے زمرد خان آبدیدہ بھی ہوئے اور انہوں نے مستقل آبدیدہ شاکر شجاعبادی کو اور آبدیدہ کر دیا۔ شاکر شجاعبادی نے جب زمرد خان کی یہ آفر سنی تو قبول کرتے ہوئے وہ اسلام آباد چلے گئے۔ اب میڈیا والوں کو شاکر شجاعبادی کے نام سے ایک اور ایشو مل گیا۔ کہ سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے گورنر رفیق رجوانہ، سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی، سابق وفاقی وزراء جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی سمیت کسی نے بھی شاکر شجاعبادی کو علاج کی پیشکش نہ کی۔ اور یوں یہ اعزاز اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے زمرد خان کو مل گیا۔ اس کے بعد ٹی۔وی کے مختلف چینلز پر شاکر شجاعبادی کو پاکستان سویٹ ہوم میں زیرِ علاج دکھایا گیا۔ اسی دوران ٹیلیویژن اور اخبارات میں اُن کے جو انٹرویو نشر ہوئے اس میں شاکر شجاعبادی نے کھل کر زمرد خان کی تعریف کی۔ دوسری جانب اسلام آباد میں موجود شاکر شجاعبادی کے چاہنے والوں نے بھی وہاں جا کر شاکر شجاعبادی کو مالی امداد سے نوازا اور یوں ہمیشہ کی طرح شاکر شجاعبادی کا حال پہلے سے بہتر ہو گیا۔ زمرد خان کو بھی یہی کچھ چاہیے تھا کہ اخبارات اور ٹیلیویژن والے اس کی تعریف کریں اور شاکر شجاعبادی تو ویسے بھی ہر وقت میڈیا میں اپنے دکھوں کا رونا رو کر اِن رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ بس وہ پاکستان سویٹ ہوم میں رہنے لگے۔ اسی دوران برادرم ظہور دھریجہ سے ملاقات ہوئی اور مَیں نے اُن سے شاکر شجاعبادی کے بارے میں دریافت کیا تو وہ کہنے لگے مَیں اس شخص کو بہت قریب سے جانتا ہوں آپ میری بات کہیں نوٹ کر لیں شاکر شجاعبادی ایک دن پھر وہاں سے باہر آئے گا اور باہر آتے ہی زمرد خان کے خلاف بات کرے گا۔ مَیں نے سوچا کہ ظہور دھریجہ چونکہ آج کل شاکر شجاعبادی کے زیرِ عتاب ہیں اس لیے وہ اس کے خلاف بات کر رہے ہیں ۔ بعد میں کئی ملاقاتوں میں ظہور دھریجہ سے مَیں نے شاکر شجاعبادی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا مَیں اپنی بات پر قائم ہوں۔
اب اچانک شاکر شجاعبادی نے زمرد خان کے خلاف لب کشائی کی ہے تو معلوم ہوا کہ ظہور دھریجہ نے جو اُن کی شخصیت کے بارے میں تجزیہ پیش کیا تھا وہ بالکل درست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے سینئر صحافی اور دانشور مسیح اﷲ جامپوری کا وہ جملہ کبھی نہیں بھولتا جو انہوں نے شاکر شجاعبادی کی امداد کے متعلق لکھا تھا وہ جملہ آپ بھی پڑھ لیں۔ ”سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے محمد شفیع شاکر شجاعبادی سے ہمدردی ہے کہ بے پناہ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے باوجود بھی وہ ہزار نعمت سے محروم ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔“ یہ اُس زمانے کا مضمون ہے جب شاکر شجاعبادی نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اُن کو علاج معالجے کے لیے امریکہ بھجوایا جائے۔ اس سے قبل وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے حکم پر شاکر شجاعبادی کا لاہور کے سرکاری ہسپتال میں علاج ہوا۔ علاج کا تخمینہ دس بارہ لاکھ روپے لگایا گیا۔ وہ رقم صوبائی حکومت کی طرف سے ہسپتال کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی۔ جس پر موصوف نے شور مچایا یہ پیسے ہسپتال کی بجائے مجھے دے دیئے جائیں مَیں اپنے گھر بیٹھ کر علاج کرا لوں گا۔ اسی طرح وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور مختلف سرکاری اداروں کی طرف سے اُن کو ماہانہ ہزاروں روپے امداد ملتی ہے۔ اور اس کے باوجود وہ ہر وقت اپنی بیماری کے نام پر کاسہ پھیلائے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جسمانی معذوری کے باوجود اپنے بےشمار ہم عصر شعراءکرام سے بہتر شاعری کر رہے ہیں۔ لیکن جسمانی معذوری کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مستحق اہلِ قلم کا حصہ امداد بھی خود وصول کر لیں۔ شاکر شجاعبادی کو کئی مرتبہ مَیں نے بھی حکومت کی طرف سے چیک بھجوائے۔ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کی ہدایت پر بھی ان کی ماہانہ امدادی رقم میں اضافہ کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی ہمیشہ ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اسی طرح اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے بھی اُن کو امداد دی جاتی ہے۔ سالِ گزشتہ 14 اگست کو اُن کے لیے تمغہ حسن کارکردگی کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ مالی امداد سے لے کر سرکاری سرپرستی کا پروٹوکول ہر وقت شاکر شجاعبادی کے لیے وقف لیکن اُن کی لالچ میں کمی نہیں آ رہی۔ میری بھی یہ خواہش ہے کہ خدا اُنہیں جلد صحتِ کاملہ دے لیکن اُن کے معالجین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری لاعلاج ہے۔ زمرد خان نے تو صرف انسانی ہمدردی میں اُن کی اشک شوئی کی لیکن اُن کے نصیب میں بھی شاباش نہ آئی۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں مستقل نوازشات کے ذریعے شاکر شجاعبادی کا خیال رکھ رہی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی ہو یا رفیق رجوانہ ان سب لوگوں نے ہمیشہ سرائیکی کے اس شاعر کا خیال رکھا۔ لیکن شاکر شجاعبادی کو اب خود سوچنا چاہیے کہ لوگ اس پر اب انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اسے اپنی روش تبدیل کرنا ہو گی کہ سرائیکی وسیب میں اس سے بہت بہتر شاعری کرنے والے موجود ہیں اور ان کو شاکر شجاعبادی سے کہیں زیادہ علاج اور مالی امداد کی ضرورت ہے لیکن اُن شعراء کی طرف سے کبھی بھی کوئی اپیل یا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ اس لیے اسے اپنے پڑھنے والوں کے جذبات سے کھیلنے کی بجائے اپنی شاعری پر توجہ دینی چاہیے جو آج بھی پڑھنے والوں کو متاثر کرتی ہے۔ان کی شاعری میں سے کچھ انتخاب حاضر ہے آپ دیکھیں کہ وہ جسمانی معذوری کے باوجود کتنی خوبصورت شاعری کر رہے ہیں۔ ان کے زبان زدِ عام شاعری ملاحظہ فرمائیں:
توں لکھ کروڑ ہزار سہی مَیں ککھ دا نہیں لاچار سہی
توں حُسن جمال دا مالک سہی مَیں کوجھا تے بےکار سہی
توں باغ بہار دی رونق سہی تو ں گَل پھُل تے مَیں خار سہی
میکوں شاکر اپنڑے نال چا رکھ مَیں نوکر توں سرکار سہی
فیس بک کمینٹ