ضیاءدور کی بات ہے کہ ہمیں کمیونسٹ کامریڈ اور ترقی پسند جیسے لفظ بہت اچھے لگتے تھے کہ یہ لفظ جن لوگوں کے نام کے ساتھ لکھے جاتے تھے ضیاءدور میں وہی لوگ کوڑوں کی ٹکٹکی پر سجائے جاتے تھے۔ لاہور قلعے کی قید ان کی منتظر ہوتی تھی۔عمرقید کی سزائیں ایسے لوگوں کے ماتھے کاجھومرہواکرتی تھیں۔پھر1987ءمیں بستی لال کمال میں جنرل ضیاءکے طیارے کازوال ہوا تو پھرہمارے سیاسی بیانیے میں کمیونسٹ ،کامریڈ اورترقی پسند جیسے لوگ غائب ہوتے گئے۔کبھی کبھار سندھ سے جام ساقی کے بارے میں کوئی خبر پڑھنے کوملتی تویاد آتا کہ اس سیاستدان کوبھی کبھی کامریڈ لکھاجاتاتھا توکبھی کمیونسٹ۔جام ساقی کی پہلی تصویری رونمائی ہمارے سامنے اس وقت ہوئی جب وہ محترمہ بے نظیربھٹو کے ہمراہ ایک فوجی عدالت میں کھڑے تھے۔ان کے کاندھے پر ہتھکڑی دکھائی دے رہی تھی۔محترمہ بے نظیر بھٹو ان کے سامنے تشریف فرما تھیں۔اوراس تصویر میں بہت سے فوجی بھی دکھائی دے رہے تھے۔لیکن جام ساقی ایک دلیر انسان کی طرح بے نظیر کے ساتھ موجودتھے۔پھرہم نے یہ بھی دیکھا کہ ا نہوں نے 1988ءکے بعد کبھی بے نظیر کی مخالفت کی تو کبھی حمایت۔ لیکن وہ اپنے نظریے کے ساتھ جڑے رہے۔اقتدار کی بالکونیوں میں انہیں لانے کی کوشش تو کی گئی لیکن وہ جلد ہی واپس اپنے شہر حیدرآباد چلے گئے۔وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اقتدار کی جن راہداریوں میں پسے ہوئے عوام قدم دکھائی نہیں دیتے ان راہداریوں میں چلنے کا ہمیں بھی کوئی حق نہیں۔ جام ساقی کے بارے میں یہ سب باتیں اس لیے بھی یاد آئیں کہ گزشتہ دنوں جب ان کا انتقال ہوا تو ہرجگہ پر ایک ہی بات لکھی گئی کہ کامریڈ جام ساقی رخصت ہوگئے۔انہوںنے اپنے طویل سیاسی سفر میں کبھی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ کام کیا ۔کبھی وہ عوامی نیشنل پارٹی کاحصہ رہے۔عوامی لیگ ،پاکستان پیپلزپارٹی ،جئے سندھ محاذ اور مزدور کسان پارٹی میں بھی وہ سرگرم رہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کاآغازکمیونسٹ پارٹی کے ذریعے کیا۔جب وہ سندھ یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے توانہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے طلباءونگ کے طورپر نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن بنائی۔یہ وہ زمانہ تھا جب سندھی،بلوچی ،پشتون اوربنگالی قوم پرست جماعتیں ون یونٹ کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل تھیں۔ان کاصوبہ سندھ ایسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔اس دور میں سندھ میں فاضل راہو،رسول بخش پلیجو،جی ایم سید،حیدربخش جتوئی کے علاوہ لالا قادر،یوسف لغاری اوردیگر لوگ سرگرم عمل تھے۔ایوب خان نے جب پولٹیکل پارٹیز ایکٹ نافذ کیا توانہوںنے ملک میں عوام کو شعور دینے کے لیے تیزی سے کام شروع کردیا۔یوں اگردیکھا جائے تو جام ساقی نے بطور طالب علم بھی اپنے سیاسی منشور پر عمل کرنا شروع کردیا۔مختلف مارشل لاﺅں کے دور میں جام ساقی زیادہ دیر تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ایک مرتبہ انہوںنے بتایا کہ پنجاب کی ایک جیل میں وہ بند تھے تو میں نے کچھ سامان منگوانے کے لیے ایک سپاہی کو کہا کہ یہ سامان لے کر آﺅ تو وہ سپاہی فوراً بھاگ کر جارہا تھا کہ میں نے اسے آواز دے کر روکا کہ ٹھہرو ،پیسے لیتے جاﺅ وہ سپاہی وہیں پر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ سر آپ ہمارے لیے جان دے رہے ہیں کیا ہم آپ کی ضروریات کاسامان اپنی جیب سے نہیں لاسکتے۔اوریہ کہہ کر وہ رو پڑا۔حالانکہ یہ وہی سپاہی تھا جو مجھے پچھلے کئی ہفتوں سے جیل میں ماررہاتھا۔اس کی یہ بات سن کرمیں نے سوچا کہ میری فکر کا سفر ناکام نہیں ہوا۔یہ میری کامیابی کی پہلی سیڑھی تھی اورپھر میں نے اس سپاہی کی اس خوشی کوپورا بھی کیا۔ جیل اورجام ساقی میں خاصی دوستی تھی۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے گھر ایک جھوٹی اطلاع بھجوادی کہ ان کاانتقال ہوگیا ہے تو ان کی اہلیہ نے یہ سنتے ہی صدمے میں کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی ۔اسی طرح انہیں ایک مرتبہ شاہی قلعہ لے جایا جارہاتھا کہ جیل انتظامیہ نے جام ساقی کوبتایا کہ ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے اس پر جام ساقی نے کہا کہ میں یہ خبر سننے کے بعد شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوچکا تھا لیکن ان کے سامنے مسکراتارہا کہ کہیں جیل انتظامیہ مجھے کمزور نہ سمجھے۔اس طرح کے بے شمار واقعات جام ساقی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس میں وہ سیاستدان کے ساتھ ساتھ ایک بڑے انسان بھی دکھائی دیتے تھے۔ آج جب وہ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں لیکن ان کانظریہ موجودہے۔وہ ایک ترقی پسند نظریات کے حامل سیاست دان تھے جن کے نزدیک انسان کی اہمیت زیادہ تھی۔وہ یہ کہا کرتے تھے کہ سندھ میں تھر کامسئلہ بہت اہم ہے اس پر کسی بھی حکومت نے توجہ نہیں دی۔تھر کی 90فیصد آبادی کو 24گھنٹوں میں صرف ایک مرتبہ کھانا ملتا ہے اوروہ ایسا جس کو میں پتلا دلیہ کہتا ہوں۔لوگ رات کوکھا کر اپنے بچوں کے لیے ناشتے کے طورپر تھوڑا سا بچا کررکھ لیتے ہیں۔لوگوں کے روزگار کے ذرائع نہیں۔ان کاموقف تھا کہ ہمیں تھر کے علاقے میں سڑکیں چاہیں۔ریلوے لائنز درکار ہیں ۔تھر میں صنعت لگائی جائے ۔پانی وافر مہیا کیا جائے تاکہ جانوروں کے ساتھ انسان جس طریقے سے فاقہ کشی کا شکارہیں وہ زندگی کی طرف واپس لوٹیں۔ جام ساقی ہمارے سیاسی منظرنامے کا ایک ایسا عہد تھا جو اب کبھی بھی ہمارے ملک میں دکھائی نہیںدے گا۔جام ساقی پر ان کے بے شمار دوست مضامین لکھ کر ان کی یادوں کوتازہ کررہے ہیں لیکن ایک واقعہ جو نورالہدی شاہ نے لکھا وہ اتنا شاندار ہے کہ اس واقعے کو میں اپنے کالم کاحصہ بنارہاہوں تاکہ معلوم ہوسکے کہ ہم کتنے بڑے شخص سے محروم ہوئے ہیں۔یہ قصہ کچھ یوں ہے کہ جام ساقی کے گھر اس کی والدہ کی تعزیت کے لیے بےنظیر بھٹو آ رہی تھیں۔ پریشانی یہ تھی کہ کامریڈ جام ساقی کے گھر کوئی صوفہ نہ تھا۔ میں نے پوچھا، کرسی تو ہوگی؟ کہا، بس ایک پرانا پلنگ ہے۔ لمبی ٹوٹی پھوٹی گلی سے گزر کر بےنظیر بھٹو اپنے جیالوں کے لشکر کے ساتھ کامریڈ کی بیٹھک میں داخل ہوئیں۔ اور سیدھی آ کر پلنگ پر بیٹھ گئیں۔ سامنے چپ کھڑے کامریڈ کو تعزیتی انداز میں مخاطب کیا۔ کامریڈ آپ کی والدہ کا بہت افسوس ہوا۔ کامریڈ ایک اداس مسکراہٹ مسکرایا۔۔۔ مجھے آپ کے آنے کی بہت خوشی ہوئی ہے بی بی! آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کی کیا خدمت کروں۔ میں دل ہی دل میں گھبرا گئی کہ کامریڈ اس پورے لشکر کی کیا خدمت کرے گا! جواب میں بےنظیر نے ایک ایسی بات کہی جس نے مجھے ایک چھوٹا سا ہنر سکھا دیا انسانی معاملات کا۔ ان دنوں ابھی منرل واٹر بمشکل کراچی تک پہنچا تھا۔ حیدرآباد میں ابھی دستیاب نہ تھا۔ عام لوگ نلکے کا پانی پیتے تھے جس کا رنگ میلا میلا سا ہوتا تھا۔ جو لوگ ان معاملات میں حساس تھے وہ پانی بوائل کرتے تھے۔ بینظیربھٹو کے پینے کے لیے منرل واٹر کی بوتل قریب کھڑی کسی ورکر (شاید ناھید خان!) کے ہاتھ میں تھی۔ بینظیربھٹو نے بڑے سکون سے کامریڈ کو مخاطب کرکے کہا۔۔۔۔۔۔ میں صرف آپ کے گھر کا پانی پیوں گی کامریڈ! جب تک کامریڈ پانی لاتا، اس سے پہلے ہی بینظیربھٹو کو ان کا اپنا منرل واٹر پیش کیا گیا۔ بینظیر نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور کامریڈ جو مٹیالا سا زرد رنگ پانی بےحد سادہ سے گلاس میں لایا وہ بڑے سکون کے ساتھ پی کر کامریڈ کا شکریہ ادا کیا۔ پھر پوچھا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے! کامریڈ ایک پرسکون سی مسکراہٹ مسکرایا اور کہا آپ آئیں یہی بہت ہے۔۔۔۔۔ بینظیر کے جانے کے بعد میں نے اسے مشورہ دیا کہ بینظیربھٹو سے اپنے لیے کچھ فائدے بھی لو۔ حق پہنچتا ہے تمہیں۔ جواب میں وہ انکار میں سر ہلا کر ہنس دیا۔ یہ دنیا کامریڈ جام ساقی اور بینظیربھٹو جیسے لوگوں کے لیے اب رہی بھی نہیں۔ اب نہ کوئی زمین سے نکلتا ہوا میلا پانی پینے والا رہا ہے اور نہ ہی زمین کا مٹیالا پانی پلانے والا۔ نہ وہ جام رہا اب جس میں دھرتی کا پانی پیا جائے۔ نہ وہ ساقی رہے اب جو دھرتی کا پانی پلاتے تھے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ