سابق وزیراعظم میاں نواز شریف آج کل مختلف شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات کے ذریعے ووٹ کے تقدس کی تحریک چلائے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں آج مورخہ 9 مارچ 2018ءبہاولپور سٹیڈیم میں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کریں گے۔ بہاولپور کی بات کرنے سے پہلے اتنا سوال ہے کہ میاں صاحب آپ نے ووٹ کے تقدس کا کتنا خیال کیا ؟ میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دور حکومت میں پنجاب اسمبلی نے دو صوبوں کی قرارداد پاس کر کے قومی اسمبلی کو بھیجی کہ وہ پارلیمانی کمیشن قائم کرے ۔ قومی اسمبلی نے کمیشن قائم کیا تو ن لیگ نے یہ کہہ کر کمیشن کا بائیکاٹ کر دیا کہ پیپلز پارٹی ڈرامہ کر رہی ہے ‘ ہم بر سر اقتدار آکر صوبہ بنائیں گے ۔ اسمبلیوں کی مدت ختم ہوئی ۔ جماعتوں نے اپنے اپنے منشور دیئے ۔ ن لیگ نے اپنے منشور میں لکھا کہ ہم انتخابات میں کامیابی کے بعد صوبہ کمیشن بنا کر بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنائیں گے ۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ کسی بھی جماعت کے منشور کو ایک مقدس دستاویز کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جماعت پر لازم ہوتاہے کہ وہ بر سر اقتدار آ کر اپنے منشور اور ووٹروں سے کئے گئے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے اس پر عمل کرے ۔ اسمبلیوں کی مدت ختم ہو رہی ہے لیکن میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کی طرف سے نہ آج تک صوبہ کمیشن بنا اور نہ ہی صوبہ ‘جب سے مسلم لیگ(ن)بنی ہے وسیب کے لوگ اس جماعت کو ووٹ دے رہے ہیں اب وسیب کے کروڑوں ووٹروں کا اتنا سوال ہے کہ آپ ووٹرز اور ووٹ کے تقدس کی تحریک چلانے سے پہلے اتنا جواب دیں کہ آپ نے ووٹ کا کتنا احترام کیا ؟
میاں صاحب ! آپ نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کے مسئلے پر ڈرامہ کر رہی ہے ‘ جب کہ ہم صوبہ بنائیں گے۔ اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی نے ایک صوبے کا نام لیکر ڈرامہ اور سرائیکی وسیب سے مذاق کیا تو آپ کی جماعت نے دو صوبوں کی بات کر کے کیا ڈبل ڈرامہ نہیں کیا؟ پیپلز پارٹی کا عذّر یہ تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں ہماری جماعت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں‘ سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس تو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت موجود ہے اور سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ سرائیکی صوبے کا بل پہلے ہی منظور کر چکی ہے تو بتایئے کہ اب کس بات کی رکاوٹ ہے ؟ پوری دنیا نے دیکھا کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے علیحدگی کے غم نے آپ کو ” نظریاتی اور انقلابی “بھی بنا دیا ہے اور نا اہلی کے مسئلے پر قومی اسمبلی نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میں ترمیم بھی کر ڈالی ، جاتی امراءکے ہزاروں ایکڑ کے محل میں رہائش اور وزیراعظم ہاؤس کے صرف ایک باتھ پر 15 کروڑ روپے لاگت اور رائیونڈ و مری محل پر اربوں روپے کے سرکاری اخراجات کے ” انقلابی نظریات “ پر میں اعتراض نہ بھی کروں تو اتنا تو مجھے کہنے دیجئے کہ آپ کا تو صرف کرسی کا مسئلہ ہے ‘ جبکہ وسیب کے کروڑوں ووٹروں کے مستقبل‘ شناخت اور صوبے کے قیام کا مسئلہ ہے ۔ آپ خود انصاف کیجئے کہ کروڑوں ووٹروں کیلئے صوبہ ضروری ہے یا آپ کا عہدہ ؟ یہ ستم بھی ملاحظہ کیجئے کہ وسیب کے کروڑوں افراد کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کیلئے سب سول سیکرٹریٹ اور ملتان بگ سٹی کے منصوبے اناؤنس ہوئے لیکن وہ بھی نہیں دیئے گئے ۔ اگر صوبہ نہیں بنانا تھا تو پنجاب اسمبلی سے قرارداد اور پارٹی منشور میں صوبے کا وعدہ کیوں کیا ؟ مجھے حیرانی ہے کہ عدالت عالیہ باقی تمام امور کا از خود نوٹس لے رہی ہے مگر اتنی بڑی کرپشن اورووٹروں سے دھوکے پر کیوں خاموش ہے ؟
نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ ہم نے عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی اور اب تحریک عدل چلا رہے ہیں ۔ میاں صاحب اپنے اجتماعات کو عوامی فیصلوں کا نام دے رہے ہیں ۔ لیکن دوہرے معیار ملاحظہ کیجئے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو عدالت کی طرف نا اہل قراردے کر ہٹایا گیا تو میاں نواز شریف چیختے چلاتے ہوئے سڑکوں پر آئے اور تقریریں شروع کر دیں ‘یوسف رضا گیلانی! وزیراعظم ہاؤس سے نکلو ،کرسی چھوڑو، عدالت کافیصلہ مانو ، اگر تم نے عدالت کا فیصلہ نہ مانا اور اقتدار نہ چھوڑا تو تمہیں گھسیٹ کر باہر کر دیں گے ۔ اب یہی فیصلہ جب میاں صاحب کے خلاف آیا ہے تو میاں صاحب کا عدالتوں کے خلاف لب و لہجہ یہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں سکھا شاہی نہیں چلے گی ‘ پارلیمنٹ اور ووٹ کے تقدس کو تسلیم کرنا ہوگا۔ میاں صاحب کی عمر ماشا اللہ اس وقت 66 سال ہے اور 33 سال سے وہ اقتدار کے مزے لے رہے ہیں ۔ نام جمہوریت کا ہے لیکن تمام فیصلے وہ خود کرتے ہیں ۔ ان کی کابینہ کا نام ”کچن کابینہ“ ہے ۔ ملک کے تمام اختیارات کا وہ خود محور و مرکز ہیں ۔ دوسری قوموں کے تو اپنے صوبے ہیں ۔ انہیں مرکز نہ سہی صوبے میں تو اختیار حاصل ہے لیکن سرائیکی وسیب کا ووٹ لے کربھی میاں صاحب! آپ نے کچومر نکال کر رکھ دیا ہے اور سرائیکی وسیب کی حیثیت محض ایک بیگار کیمپ بن کر رہ گئی ہے ۔ آپ کی نا اہلی کے بعد سرائیکی وسیب کو چند ایک وزارتیں ملی بھی ہیں تووہ بھی بے اختیار۔ میرا صرف اتنا سوال ہے کہ یہ خودسکھا شاہی نہیں تواور کیا ہے؟
وسیب کے مرکز ملتان میں سرائیکی کلچر ڈے کی تین روزہ تقریبات میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس بات کو دوہرایا کہ ہم صوبہ بنائیں گے ۔ مجھے اپنے سرائیکی ہونے پر فخر ہے ۔ سندھ کلچر ڈے کی طرح سرائیکی کلچر ڈے کی تقریبات بھی سرکاری سطح پر منائی جانی چاہئیں کہ سرائیکی پاکستان کی قدیم اور عظیم ترین تہذیب ہے ۔ میں یوسف رضا گیلانی کے مقدمے کا مدعی یا وکیل نہیں ہوں‘ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ان کو سرائیکی ہونے کی سزا ملی‘ سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بارے میں تیس سکینڈ کی سزا اس لئے غلط تھی کہ وہ ایک کریمنل مائنڈ سیٹ کی اختراع تھی کہ تیس سکینڈ میں اپیل کا حق بھی چھین لیا گیا حالانکہ قاتل کو بھی نظر ثانی کی اپیل کا حق ہوتا ہے۔دوسرا یہ سزا اس لئے خلافِ آئین تھی کہ آئین میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا جواب درست تھا کہ میں آئین کے مطابق چل رہا ہوں ۔ اس کے باوجود آپ نے یوسف رضا گیلانی کا ساتھ نہ دیا ۔ آج آپ اسی سزا کا شکار ہوئے ہیں تو یوسف رضا گیلانی نے فیصلے کے حق میں تالیاں نہیں بجائیں ‘ یہی فرق ہوتا ہے سیاسی اور غیر سیاسی سوچ کا۔ اسی کا نام مقافاتِ عمل ہے ۔ سرائیکی میں ایک کہاوت ہے ” نہ کر سس برائیاں ‘ متاں لہنی اپنڑیاں جائیاں “ ۔ترجمہ:(اے ساس اپنی بہو کی برائیاں نہ کرکل آپ کی بیٹی بھی کسی کی بہو بنے گی۔)
آپ بہاولپور تشریف لا رہے ہیں ‘ ہم آپ کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ گزشتہ دورِ حکومت میں آپ بہاولپور آئے تو صحافی نے آپ سے بہاولپور صوبے کا سوال کیا تو اس پر آپ نے کہا کہ میں تو بہاولپور سے اس قدر محبت کرتا ہوں کہ بہاولپور صوبہ تو کیا ریاست بحال ہونی چاہئے ۔وقت گزر گیا ،آپ بر سر اقتدار آئے تو اتنا سوال ہے کہ آپ نے بہاولپور کیلئے کیا اقدامات کئے ۔ وہ بہاولپور جو کہ قیام پاکستان سے پہلے بر صغیر جنوبی ایشیاءکا خوشحال ترین خطہ تھا ‘ شاید آپ کو یاد ہو کہ نہ ہو 1906ءمیں جب بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال بنا یہ بر صغیر جنوبی ایشیاءکا سب سے بڑا ہسپتال تھا ۔ اسی طرح 1924ءمیں بہاولپور کی سنٹرل لائبریری قائم ہوئی تو یہ بھی بر صغیر جنوبی ایشیاءکی سب سے بڑی لائبریری تھی ۔ صادق پبلک سکول کا رقبہ اس وقت بھی بہت سی یونیورسٹیوں سے زیادہ ‘یعنی ساڑھے 12 ہزار ایکڑ ہے ۔ آپ جس سٹیڈیم میں خطاب کرنے تشریف لا رہے ہیں ‘ ایک وقت یہ ہندوستان کا سب سے بڑا سٹیڈیم تھا ۔ ریاست بہاولپور کے روپے کی شرح قیمت برطانیہ کے پاؤنڈ کے برابر تھی ۔ علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری ریاست بہاولپور سے وظیفہ خوار تھے ۔ پنجاب یونیورسٹی ‘ ایچی سن کالج سمیت لاہور کے بہت سے تعلیمی ادارے ریاست بہاولپور کی امداد سے تعمیر ہوئے ۔ تحریک پاکستان میں سب سے زیادہ مالی مدد ریاست بہاولپور نے کی اور پاکستان قائم ہوا تو کرنسی کی گارنٹی بھی ریاست بہاولپور نے دی ۔ اس کے ساتھ پہلی تنخواہ کیلئے 7 کروڑ روپیہ نقد دیا گیا ۔ریاست بہاولپور میں مہاجرین کو ان کے کلیم کا دو گنا دیا گیا۔ یہ اور اسی طرح کے سینکڑوں خدمات کے بدلے سوال اتنا ہے کہ ریاست بہاولپور کو کیا ملا؟ کتنے دکھ کی بات ہے کہ خدمات تسلیم کرنے کی بجائے قیام پاکستان کے بعد ریاست بہاولپور کو لوٹ کا مال سمجھ لیا گیا ۔صرف یہ نہیں کہ رقبے لوٹے گئے ‘ ناجائز الاٹمنٹوں کا طوفان برپا کیا گیا ‘ حتیٰ کہ بہاولپور کے دفاتر سے فرنیچر اور قالین تک اٹھا کر لاہور لے جایا گیا۔ ”میں بھی پاکستان ہوں ‘ تو بھی پاکستان ہے “ کیا اسی کا نام ہے۔ آج بہاولپور کے جلسے میں آنے والے ووٹرز کے دلوں میں موجود ایسے سوالات کے جوابات ضرور دیجئے گا۔
(بشکریہ : روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ