سینٹ انتخابات میں جنوبی پنجاب کو جوحصہ ملا وہ سب کے سامنے ہے۔رانا محمودالحسن جواس وقت پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔مسلم لیگ(ن)کے سینئر رہنماءہیں ،ان کے والد رانا نورالحسن مرحوم بھی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ان کے انتقال کے بعد رانا محمود الحسن دومرتبہ ایم این اے بنے۔تیسری مرتبہ وہ 2013ءکے انتخابات میں مخدوم شاہ محمودقریشی سے شکست کھا کر گھربیٹھ گئے تھے ۔ان کی شکست کی وجہ یہ بھی ٹھہری کہ وہ جب پہلی مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے تو تب مشرف کادورتھا۔دوسری مرتبہ جب عوام نے ا نہیں کامیاب کروا کر اسمبلی بھجوایا تو بی بی کی حکومت تھی۔ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر تھے۔نوکریاں ندارد ،تھانے کچہری میں رٹ نہ ہونے کے برابر۔نتیجہ یہ ہوا کہ جب2013ءکے ا نتخابات ہوئے تھے توان کے سامنے شاہ محمودقریشی ہیوی ویٹ امیدوارآگیارزلٹ آیاتوشاہ محمود قریشی رانا محمودالحسن کو چت کرچکے تھے۔البتہ شاہ محمودقریشی کے نتیجے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر پٹی ٹی آئی کے جاویدانصاری جیت سکے جبکہ دوسری نشست پر ن لیگ کے چوہدری عبدالوحید ارائیں ایم پی اے منتخب ہوئے۔رانا عبدالجبار پی ٹی آئی کے شکست خوردہ امیدوارتھے تو انہوںنے جعلی ڈگری ہونے کی وجہ سے اپنے مدمقابل فاتح امیدوار وحید ارائیں کے خلاف عالت میں رٹ دائر کردی۔سماعت شروع ہوئی اور آخرکارچوہدری عبدالوحید ازائیں نااہل قرارپائے۔ تو ضمنی ا نتخابات میں ن لیگ نے رانا محمودالحسن کوٹکٹ دی جبکہ پی ٹی آئی نے دوبارہ رانا عبدالجبار کو ٹکٹ دیا تو ضمنی انتخاب میں رانا محمودالحسن نے اپنے ہی قریبی عزیز رانا عبدالجبار کوشکست دے کر میدان مارلیا۔رانا محمودالحسن 2013ءکے انتخابات میں شکست کھانے کے بعد خاصے دلبراشتہ تھے کہ اس کامیابی نے انہیں ایک مرتبہ پھر ملتانی سیاست میں ان کردیا۔وحید ارائیں کوجب عدالت نے نااہل قراردیا تووہ تب صوبائی وزیر برائے جیل خانہ جات تھے۔رانا محمودالحسن جب ایم پی اے بنے تو سب کا خیال تھا کہ میاں صاحبان انہیں صوبائی وزیر لازمی بنائیں گے لیکن میاںصاحبان نے رانا محمودالحسن کو وزارت کی سعادت سے محروم رکھا۔البتہ ترقیاتی کاموں اوردیگر سہولیات سے انہیں مالا مال کرتے رہے۔خیال یہی کیا جارہاتھا کہ 2018ءکے انتخاباتم یں شاہ محمودقریشی کے مقابلے میں ایک مرتبہ پھررانا محمودالحسن مدمقابلہ ہوں گے دوسری جانب شاہ محمود قریشی بھی نہال تھے(نہال ہاشمی نہیں تھے)کہ اس مرتبہ پھرقسمت یاوری کرے گی اور کامیابی آسانی سے مل جائے گی کہ ایک طرف جاوید انصاری(پی ٹی آئی کے ایم پی اے)کی اپنے حلقہ پر گرفت اچھی ہے اور اکثر شاہ محمودقریشی اپنے ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے جاوید انصاری کے ساتھ حلقہ میں موٹرسائیکل کی سیر کرتے رہتے دکھائی دیتے ہیں۔جاوید انصاری کا یہی انداز سیاست لوگوں کو پسند ہے اورفائدہ یقیناً شاہ محمودقریشی کوملنا ہے۔
بات ہورہی تھی کہ رانا محمودالحسن کے سینیٹر بننے کی جن کو شہبازشریف نے خصوصی طیارہ بھیج کر لاہور طلاب کیا۔سینیٹ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور پھر3مارچ 2018ءکی شام جب نتائج آنے شروع ہوئے تو ابتدائی خبرویں میں آیا کہ رانا محمودالحسن ہارگئے ۔عین اسی وقت ہم گورنرپنجاب کے ہمراہ ایک تقریب میںموجودتھے ۔انہیں بھی یہی پیغام ملا کہ رانا محمودالحسن سینیٹ انتخابات میں کامیاب نیہں ہوسکے کہ اچانک خبروں میں آگیا کہ رانا محمودالحسن اور سرور چوہدری سینیٹر منتخب ہوگئے دونوں کی کامیابی حیرت انگیز تھی ۔ملتان میںا ن کے گھر میں مٹھائی بھنگڑے اورخوشی میں ہوائی فائرنگ شروع ہوگئی۔پولیس نے مسلم لیگ(ن) کے رنگ میں بھنگ ڈالا۔فائرنگ کرنے والوں کی گرفتاری ہوئی یوں رانا محمودالحسن نے سینیٹر بنتے ہی پہلا فون ملتان کے آرپی او کو کیا کہ مہربانی کرکے میرے حامیوں کو رہا کیا جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہورہاہے کہ آخر رانا محمودالحسن کوعوامی سیاست سے نکال کرمسلم لیگ(ن)اس حلقہ سے کس کو انتخاب لڑاناچاہتی ہے۔اس حلقہ سے شہبازشریف یا مریم نواز شاہ محمودقریشی کے مدمقابل ہوں گے یاپھر ن لیگ اگر پی ٹی آئی کے مضبوط رہنماءجاوید انصاری (ایم پی اے)کوبوطر ایم این اے ٹکٹ دینے کی آفر کردے تو شاہ محمودقریشی کومشکلات کاسامناکرسکتے ہیں ۔کیونکہ ابھی تک ن لیگ کی مرکزی قیادت کی طرف سے رانامحمودالحسن کوسینیٹر بنانے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔اگرن لیگ این اے147میں شاہ محمودقریشی کے مقابلے میں اگر ملتان شہر سے کوئی امیدوارسامنے لاتی ہے تو پھرمقابلہ اتنا آسان ہوگا کہ شاہ محمودقریشی آسانئی سے پی ٹی آئی کی طرف سے سندھ میں انتخابی مہم چلائیں گے کیونکہ این اے 147 میں مسلم لیگ(ن)ملتان قیادت شاید ہی مخدوم شاہ محمودقریشی کو شکست دے سکے کہ ابھی تک توایسا ہی لگ رہاہے کہ ن لیگ نے شاہ محمودقریشی کواوپن فتح کاموقع دیا۔اگر جاوید ہاشمی کے لئے رانا محمودالحسن کوسینٹ میں بھجواکر حلقہ خالی کرایا ہے تو مسلم لیگ (ن)کا یہ فیصلہ احسن نہیں ہے۔بہرحال اب عام انتخابات میں چند ماہ رہ گئے لیکن این اے147میں مسلم لیگ(ن)کس امیدوار کو اتارے گی ابھی یہ طے بھی نہیں کیا۔اگر چوہدری عبدالوحید ارائیں عدالت سے اپنے لیے کلین چٹ لے کرآجاتے ہیں تو تب بھی یہ مقابلہ برابری کانہیں ہوگا کہ جب سے ان کے بھائی نوید الحق ارائیں ملتان کے میئر بنے ہیں ان کے خلاف شہر میں ایک مسلم لیگ(ن) کا گروپ محاذ آرائی کرہاہے ۔ایسے میں مخدوم شاہ محمودقریشی کے لیے یہ نشست مزید محفوظ ہوگئی ہے۔اگرمیریم نواز یا میاں شہبازشریف میں سے کوئی ایک اس حلقہ میں امیدوار بن گیا توپھر شاہ محمودقریشی کے لیے بہت مشکلات ہیں۔
سارے گھڑمس کے باوجود ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے آخر رانا محمودالحسن جیسے عوامی بندے کو سینیٹر با کران کاکیریئر کیوں خر اب کیا۔وہ آسانی سے اپنی ہاری ہوئی نشست جیت سکتے تھے ؟اس معاملے میں پوشیدہ رموز کیاہیں؟اگر رانا محمودالحسن تحریک انصاف میں ہوتے اوران کے بارے میں ایسا فیصلہ آجاتا توہم سمجھتے کہ یہ ”ہیرنی“کی ہدایت ہے۔مسلم لیگ(ن)میں کوئی ہیرنی ہے نہ ہیر ۔توپھررانامحمودالحسن کوسینٹ میں کیوں بھیجاگیا۔
اسی طرح مسلم لیگ(ن)نے وفاقی وزیرحافظ عبدالکریم کوبھی سینیٹر بنوالیا ہے ان کاتعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے۔مسلم لیگ (ن)کایہ فیصلہ مناسب ہے کہ حافظ صاحب اپنے انتخابی حلقے میں خاصی مشکلات کاشکارہیں۔حلقہ کے عوام ان سے شاکی ہے پھرانہوں نے ڈیرہ غازی خان میں جویونیورسٹی بنائی ہے اس میں زیرتعلیم طلباءوطالبات کی ڈگری بھی مشکوک ہے آئے دن ان کی یونیورسٹی میں پڑھنے والے انہی کے خلاف احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے شاید انہوں نے اپنی قیادت سے کہا ہو کہ مجھے عوامی عدالت میں بھیجنے کی بجائے سینیٹ میں بھیجا جائے۔مراعات بھی ملتی رہیں اورعوام کے کام بھی نہیں کرنے پڑیں گے۔ن لیگ کے حافظ عبدالکریم کوسینیٹربنوا کربہت فوائد حاصل کیے۔اب وہ لغاری گروپ کی فرمائشیں بھی پوری کرسکتی ہے اگر سردارذوالفقارعلی کھوسہ کو رام کرلیں تو حافظ عبدالکریم کا چھوڑا ہواحلقہ کھوسہ خاندان کوبھی دیا جاسکتا ہے۔ڈیرہ غازی خان سے حافظ عبدالکریم کاسینیٹر بن جانا بہت الجھی کہانیوں کوسلجھا سکتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ(ن)حافظ صاحب کی نشست بچاسکے گی کہ حافظ صاحب نے اپنے ووٹروں کوبہت ناراض کردیا تھا۔دیکھیں اب اس حلقہ میں کون سا ایسا امیدوار آتا ہے جو ن لیگ کو فتح سے ہمکنار کرتا ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ