ہم نے گزشتہ دنوں سٹیفن ہاکنگ پر جو کالم لکھے تو اس کے پسند کرنے کی تعداد اپنی جگہ پر اہم ہے لیکن ان کالموں کے اختتام پر ڈاکٹر ہارون خورشید پاشا کے حوالے سے ہم نے سرائیکی کے معروف شاعر شاکر شجاع آبادی کی بیماری کی بابت جو بات لکھی اس پر ہم سے بے شمار دوستوں نے رابطہ کیا اور مطالبہ کیا کہ شاکر شجاع آبادی کی شاعری پر بات کریں اور بیماری کے متعلق بھی بتائیں۔ جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے وہ اس وقت سرائیکی وسیب کے معروف و مقبول شاعر ہیں۔ ان کی شاعری ہر عام و خاص میں مقبول ہے۔ یہ شاعری مقبول کیوں ہے؟ اس کا جواب ان کی شاعری سے تلاش کرتے ہیں۔
جے مر کے زندگی چہندیں فقیری ٹوٹکا سن گھن
وفا دے وچ فنا تھی ونج بقا جانے خدا جانے
تو محنت کر، تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے
اے پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بےکار نئیں ویندی
دُعا شاکر توں منگی رکھ، دُعا جانے خدا جانے
….٭….
بے وزنے ہیں تیڈی مرضی ہے بھاویں پا وچ پا یا بھاویں سیر اِچ پا
پا چن دی چٹی چاندنی وچ یا رات دے سخت اندھیرے اِچ پا
بھاویں کہیں دشمن دی فوتکی تے یا جُھمردے کہیں پھیر اِچ پا
راہ رلدے شاکر کنگن ہیں بھاویں ہتھ اِچ پا بھاویں پیر اِچ پا
شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا انتخاب اب کالم کے آخر میں دیں گے۔ اس سے پہلے آپ پڑھ لیں کہ وہ سرائیکی ہونے کے باوجود ہر نسل کا پسندیدہ شاعر ہے۔ وہ جب کلام پڑھتا تھا تو تب سننے والوں کو سمجھ آ جاتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بیماری نے قوتِ گویائی پر ایسے اثرات ڈالے ہیں کہ وہ اب اپنا کلام سناتا ہے لیکن بیماری نے اس پر اتنا غلبہ کر لیا ہے کہ اسے اب اپنی شاعری سنانے کے لیے مکبر رکھنا پڑ گیا ہے۔ مکبر سے یاد آیا کہ آج سے تقریباً پندرہ برس پرانا واقعہ ہے کہ رحیم یار خان کی ضلعی انتظامیہ نے ایک کل پاکستان محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا۔ پورے ملک سے معروف شعراءکرام سٹیج پر براجمان تھے۔ ملتان سے خالد مسعود خان، قمر رضا شہزاد اور رضی الدین رضی شاکر شجاع آبادی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ رحیم یار خان کے اس مشاعرہ کی اکثریت حاضرین شاکر شجاع آبادی کا نام پڑھ کر مشاعرہ گاہ میں پہنچی اور وہ بار بار مطالبہ کر رہے تھے کہ شاکر شجاع آبادی کو سٹیج پر بلایا جائے۔ عوام کے پُر زور اصرار پر جب شاکر شجاع آبادی شعر سنانے کے لیے آیا تو ان کے ساتھ ”مکبر“ بھی موجود تھا۔ پہلے شاکر شجاع آبادی اپنی بیماری کے باوجود شعر کہتا (جو غور کرنے پر سمجھ آتے) تو بعد میں ان کا اسسٹنٹ وہی شاعری سناتا۔ شاکر شاعری کر رہا تھا کہ اچانک خالد مسعود خان نے شاکر شجاع آبادی کو مخاطب کیا اور کہا ”شاکر اپنے مکبر کو چماٹ چا رکھ۔ اے شاعری غلط پڑھدا پیئے۔“ شاکر شجاع آبادی نے غصہ سے اپنے ساتھی کو دیکھا تو پریشانی کے عالم میں اس نے اگلا شعر بھی غلط پڑھ دیا۔ اب شاکر شجاع آبادی کا غصہ دیدنی تھا اس نے اپنے مکبر کو کہا وہ جا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ جائے۔ تب شاکر نے زور لگا کر اپنے اعصاب کو مجتمع کیا اور تالیوں کے شور میں شاعری سنا کر رخصت ہو گیا۔
شاکر شجاع آبادی کا اصل نام محمد شفیع ہے۔ قلمی نام شاکر شجاع آبادی سے پوری دنیا میں جانا جاتاہے۔ وہ پاکستان کا واحد سرائیکی شاعر ہے جس کو حکومتِ پاکستان نے 2 مرتبہ صدارتی حسن کارکردگی ایوارڈ دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ کی بیماری سے ملتی جلتی بیماری میں وہ مبتلا ہے۔ ڈاکٹر ہاکنگ 55 برس تک ایک وہیل چیئر پر بیٹھ کر کائنات کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھا گیا۔ جبکہ شاکر شجاع آبادی اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ وہ چلتا پھرتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے کھاتا پیتا ہے۔ سوائے اس بات کے کہ اسے بولنے اور لکھنے میں دقت ہوتی ہے باقی وہ چین سموکر ہے۔ نارمل لوگوں کی طرح غصہ کرتا ہے۔ دوستوں میں موجود ہو تو لطیفہ گوئی کے علاوہ جملہ وغیرہ بھی اچھالتا ہے۔ حکومت سے بھی شاکی رہتا ہے کہ وہ اس کا علاج نہیں کروا رہی ہے۔ ماضی میں بیت المال پاکستان کے سربراہ زمرد خان نے ان کے علاج معالجہ کی ذمہ داری لی۔ علاج کے لیے ہسپتال میں داخل بھی رہا لیکن چونکہ اس بیماری کا علاج پوری دنیا میں نہیں ہے اس لیے صحت یابی نہ مل سکی۔
وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومت ملتان کی طرف سے ہر ماہ ان کے لیے امدادی چیک جاری کیا جاتا ہے۔ سرائیکی شاعری سے پیار کرنے والے گاہے گاہے انہیں نوازتے رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی شاعری کی کتب کی اشاعت کسی اچھے ادارے سے کروا لے تو اتنی رائلٹی مل سکتی ہے کہ اسے بار بار کاسہ¿ گدائی نہ پھیلانا پڑے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری کی انا ہی تو اس کے ماتھے کا جھومر ہوتی ہے۔ لیکن مَیں بڑے دکھی دل سے لکھ رہا ہوں کہ شاکر شجاع آبادی بارہا ہمیں اس معاملے میں مایوس کر چکے ہیں حالانکہ ان کے پاس اﷲ کا دیا ہوا بہت کچھ ہے خاص طور پر ان کی شاعری تو لاکھوں دلوں پر حکمرانی کرتی ہے۔
توں لکھ کروڑ ہزار سہی
مَیں لکھ دا نئیں، لاچار سہی
توں حُسن جمال دا مالک سہی
مَیں کوجھا تے بیکار سہی
توں باغ بہار دی رونق سہی
توں گل پُھل تے مَیں خار سہی
میکوں شاکر اپنے نال چا رکھ
مَیں نوکر توں سرکار سہی
قارئین کرام مَیں یہ کالم لکھتے ہوئے تھک سا گیا کہ آج کل کمر میں شدید درد کی وجہ سے زیادہ دیر تک لکھا نہیں جاتا۔ ٹھہر ٹھہر کر لکھتا ہوں۔ تو آرام کی خاطر فیس بک کی ورق گردانی کرنے لگتا ہوں۔ ایسے ہی ایک لمحہ میں جناب رضا علی عابدی کی وال کی سیر کرنے گیا۔ وہاں پر ملتان سے تعلق رکھنے والی ماہر تعلیم و دانشور ڈاکٹر شاہدہ رسول کے بارے میں پوسٹ کو پڑھا تو سوچا کہ اس پوسٹ کو اپنے پڑھنے والوں تک بھی پہنچایا جائے۔ عابدی صاحب لکھتے ہیں ”شاہدہ رسول ملتان کی نہایت ذہین اور ہونہار طالبہ ہے۔ قدرت نے اسے بینائی سے محروم کر دیا ہے لیکن اس کی تمام توانائی اس کے دل و دماغ میں منتقل ہو گئی ہے۔ اس نے ملتان کی بہاءالدین زکریا یونیورسٹی سے ایم۔اے نہایت کامیابی سے پاس کیا اور ایم۔فل کی ڈگری لینے کا فیصلہ کیا۔ اسے رضا علی عابدی پر تحقیقی مقالہ لکھنے کا کام سونپا گیا۔ اسے پڑھنے اور لکھنے کے لیے ایک مددگار لڑکی فراہم کی گئی جو سایہ کی طرح اس کے ساتھ رہی اور اس نے دن رات ایک کر کے تحقیق شروع کر دی۔ شاہدہ نے ملتان سے مجھے لندن فون کیا اور کہا اسے کچھ معلومات درکار ہیں۔ مَیں نے وہ ساری معلومات ایک کیسٹ میں بھر کر بھیج دیں تاکہ وہ سن کر کام چلا سکے۔ شاہدہ رسول نے حیرت انگیز طور پر ایک جامع مقالہ مکمل کر کے داخل کر دیا۔ ممتحن اساتذہ نے اسے کامیاب قرار دے کر ڈگری عطا کر دی۔ مَیں ملتان گیا تو شاہدہ سے ملنے گیا۔ اس نے اپنے شعبہ میں اور گھر مدعو کیا۔ اپنا مقالہ مجھے دیا اور میری دُعائیں لیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی معذوری کی وجہ سے دشواریاں اس کی راہ میں حائل ہوتی رہتی ہیں لیکن وہ اعلیٰ سے اعلیٰ امتحانوں سے گزر کر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ اب پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار ہے۔ اور ان دنوں ملتان میں خواتین کے کالج میں پڑھا رہی ہے۔“
جن دنوں عابدی صاحب نے شاہدہ رسول کے لیے یہ تحریر لکھی تو اس نے پی ایچ ڈی نہیں کیا تھا۔ گزشتہ سال دسمبر میں جب رضا عالی عابدی ملتان تشریف لائے تو شاہدہ رسول نے ان کے اعزاز میں خواتین یونیورسٹی (جہاں پر شاہدہ رسول شعبہ¿ اُردو کے ساتھ وابستہ ہیں) میں بھرپور تقریب کا اہتمام کیا۔ شاہدہ رسول ایک پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر ہو چکی ہیں۔ تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں اور کبھی بھی انہوں نے اﷲ سے اس بات کا شکوہ نہیں کیا کہ اس نے اسے بینائی سے محروم کیوں رکھا؟ کیونکہ ڈاکٹر شاہدہ رسول نے اپنی اس معذوری کو کبھی بھی کسی جگہ پر آڑے نہیں آنے دیا اور نہ ہی اپنے معاصرین کی طرح ہاتھ پھیلائے۔
بس میری بھی یہی خواہش ہے کہ شاکر شجاع آبادی ہو یا کوئی اور اس طرح کے فنکار وہ ہاکنگ اور شاہدہ رسول کی طرح مثال بنیں نہ کہ معاشرے پر بوجھ بنیں۔ ویسے بھی شاکر شجاع آبادی خود کہتا ہے تو پھر اسے چاہیے کہ اپنے کہے کی لاج رکھے۔
تو محنت کر، تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے
فیس بک کمینٹ