نئے اتحاد کے بعد اصولی طور پر پی پی اور صوبہ بہاولپور والوں کو اس پر ردِ عمل دینا چاہیے تھا لیکن ان دونوں پارٹیوں کی خاموشی حیران کن ہے البتہ تحریکِ انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کچھ دنوں بعد مخدوم خسرو بختیار سے ملاقات کر کے پی پی پی کے لیے راستے بند کر دیئے کیونکہ اگر یوسف رضا گیلانی پہلے رابطہ کرتے تو یقینا پی پی اس سے فائدہ اٹھا سکتی تھی۔ ویسے بھی اس اتحاد نے جس پارٹی کو زیادہ نقصان پہنچایا وہ تحریکِ انصاف ہے۔ اس لیے سب سے پہلے شاہ محمود قریشی بھاگے بھاگے ان کے پاس گئے ہیں کہ کہیں یہ لوگ ان کا کھیس ہی چوری نہ کر لیں۔ شاہ محمود قریشی نے خسرو بختیار سے کیا باتیں کیں اس کا ذکر ہم بعد میں کرتے ہیں پہلے ہم صوبہ بہاولپور، جمشید دستی اور پی پی فیکٹر پر کچھ کہنا چاہیں گے۔
جمشید دستی گزشتہ 2 انتخابات سے قومی اسمبلی میں آزاد حیثیت سے موجود ہیں۔اپنے حلقے میں خاصے مقبول ہیں بلکہ چند دن قبل انہوں نے رانا قاسم نون کے حلقے میں ”فری بس سروس“ شروع کر کے رانا قاسم نون کو پیغام دیا ہے کہ وہ اس حلقے میں بھی آ رہے ہیں۔ ضلع مظفرگڑھ میں اگر جمشید دستی مضبوط ہونا چاہتے ہیں تو اگر وہ ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کی چھتری تلے آ گئے تو ممکن ہے کہے اس محاذ میں ایک اچھا اضافہ ہوں گے۔ اگر وہ ماضی کی طرح اکیلے ہی اپنے انتخابی حلقوں میں کھڑے ہو گئے تو ان کی حیثیت وہی ہو گی جو موجودہ اسمبلی میں ہے یعنی وہ اکیلے ہی اسمبلی میں موجود ہوں گے۔ دوسرے معنوں میں یہ سمجھ لیں کہ وہ اسمبلی میں نوابزادہ نصراللہ خان کی یاد کے طور پر سرگرم ہوں گے کہ نوابزادہ صاحب بھی اسمبلی میں اکیلے ہوتے تھے لیکن اکیلے ہونے کے باوجود ایک زمانہ ان کے ہم رکاب ہوتا تھا۔ جمشید دستی کے پاس اب نوابزادہ صاحب والا ہنر نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اگر جنوبی پنجاب کے سیاستدان (چاہے کسی کے کہنے پر) صوبہ بنانے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں تو تمام اہم ناموں کو صوبہ محاذ کی حمایت کرنا ہو گی۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی تشکیل کے بعد تادمِ تحریر تحریکِ انصاف کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت نے ان کی قیادت سے رابطہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ن لیگ سے مستعفی ہو کر مختلف سیاست دانوں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس صوبہ محاذ والے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین کو توڑنا تو چاہیں گے لیکن وہ کبھی بھی ن لیگ میں نہیں جائیں گے۔ ویسے بھی ابھی تک جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں جن سیاست دانوں کے نام آئے ہیں وہ سیاست کے میدان میں ہمیشہ اتنے محتاط ہوتے ہیں کہ ہر فیصلہ پوچھ پوچھ کر کرتے ہیں۔ باقی رہ گئے پیپلز پارٹی والے تو جنوبی پنجاب میں اس پارٹی کے پاس سیّد یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کے علاوہ ایک بلاول ہاؤس ہے۔ اگر گیلانی صاحب کا پورا خانوادہ معہ مخدوم احمد محمود بھی پارٹی کی تائید سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا حصہ بن جاتے ہیں تو اس اتحاد کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور پی پی کو بھی سہارا مل جائے گا۔ اس موضوع پر ہم بعد میں آتے ہیں۔ فی الحال ہم آپ کو یہ بتانے جا رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے بعد پی ٹی آئی کیوں پریشان ہے؟ اس کی وجہ واضح ہے کہ اس اتحاد نے اصل میں تو تحریکِ انصاف کے چھابے میں ہاتھ ڈالا ہے۔ تحریکِ انصاف یہ سمجھ رہی تھی کہ جو فتح ان کو اس علاقے میں ملنے والی تھی وہ ساری ملائی جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے حصہ میں آ سکتی ہے۔ اسی سوچ کے تابع مخدوم شاہ محمود قریشی نے فوری طور پر مخدوم خسرو بختیار سے ملاقات کی تو اس کے بعد انہوں نے پارٹی کا پالیسی بیان کچھ یوں جاری کیا نیا پاکستان جنوبی پنجاب صوبہ کے بغیر ممکن نہیں۔ عوام سازش کا شکار نہ ہو۔ انہوں نے مخدوم خسرو بختیار کو اپنے پہلو میں بٹھا کر کہا صوبائی اسمبلی میں نئے صوبے کی قراردار منظور ہونے کے بعد ن لیگ نے صوبہ نہ بننے دیا۔ شاہ محمود قریشی نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مَیں نے گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ سے بھی کہا تھا کہ ملتان کو جنوبی پنجاب کے لیے سیکرٹریٹ کا درجہ دے دیں لیکن انہوں نے بھی ہماری ایک نہ سنی۔ شاہ محمود قریشی نے جنوبی پنجاب کی آبادی، رقبے اور آمدنی کے اعداد و شمار دیتے ہوئے کہا کہ ہم کب تک تخت لاہور کے قیدی رہیں گے۔ اس موقعہ پر انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہ سندھ میں پسماندگی ختم کرنے کے لیے انہوں نے شہری اور دیہاتی علاقوں کا کوٹہ مقرر کیا۔ لیکن شریف برادران نے ایسا نہیں کیا۔ شاہ محمود قریشی نے پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کا مقدمہ کھل کر لڑا اور کہا کہ کسی بھی ایشو پر تین صوبے جب متفق ہوتے ہیں تو پنجاب اپنی آبادی کے دھونس پر ان پر حاوی ہو جاتا ہے جس وجہ سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید خراب ہو جاتا ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کی اس گفتگو کے بعد اسی پریس کانفرنس میں خسرو بختیار کی بات چیت پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات کس کروٹ بیٹھیں گے۔ مخدوم خسرو بختیار نے ہم سب سے پوچھا جا رہا ہے کہ ہم پانچ سال تک حکومت کے ہاتھ کیوں مضبوط کرتے رہے تو اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ہم کسی مصلحت کے تحت چپ تھے۔ اگر صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ اب اسمبلی کی مدت تمام ہونے میں ڈیڑھ ماہ باقی ہیں۔ ہم نے پنجاب اسمبلی میں نئے صوبے کے لیے قرارداد پیش کر دی ہے۔ اگر ن لیگ ہمارے ساتھ مخلص ہے تو پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور کر کے اس کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کرائے تاکہ ہمیں بھی معلوم ہو سکے یہ جماعت عوامی اُمنگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔اگر حکومت قرارداد پاس نہیں کراتی جو جنرل انتخابات سے پہلے وہ جنوبی پنجاب میں نئے صوبے کے حوالے سے ریفرنڈم کروا لے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رہنما ابھی تک مزید بڑے ناموں کے منتظر ہیں تاکہ اس محاذ کی طاقت میں اضافہ ہو سکے۔ تحریکِ انصاف کے شاہ محمود قریشی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد یہ بات تو طے ہو گئی کہ اس محاذ کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہے۔ کیا اس حمایت کے بعد جنوبی پنجاب کے عوام کو اپنے حقوق منوانے کے لیے صوبہ مل جائے گا؟ اس کے لیے جنوبی پنجاب کے عوام کو کتنا انتظار کرنا ہو گا۔
(جاری ہے)
فیس بک کمینٹ