عمرہ کی ادائیگی سے واپسی پر علالت اور خاندانی مصروفیات کی بناپر شجاع آباد‘بہاولپور اور فیصل آباد میں زیادہ وقت گزارنا پڑا۔ قدرے تاخیر سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں‘ اس غیر حاضری پر قارئین کرام سے معذرت خواہ ہوں، انشاءاللہ یہ دیری نکال دوں گا۔ لگتا ہے کہ کراچی سے خیبرتک ملک میں سیاسی افراتفری کا ایک طوفان برپا ہونے والا ہے جس کی شروعات ہوچکی ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں‘ صورتحال یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی بھرتی‘ تنزلی‘ تبادلے‘ترقی یہ سارے کام حکومتی اداروں کے کرنے کے ہوتے ہیں لیکن یہ سارے کھیکھڑارکان اسمبلی نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ سڑکوں کی مرمت وتعمیرہائی وے اتھارٹی کافرض ہوتاہے یہ بھی اراکین اسمبلی نے اپنے ذمے لئے ہوئے ہیں۔ بجلی کے کھمبوں کی تنصیب اورکنکشن واپڈا کی ذمہ داری ہے یہ بھی اراکین اسمبلی نے اپنے سر لئے رکھی ہے۔ تھانیداروں کی تعیناتی یہ محکمہ پولیس کامسئلہ ہے مگر اسے بھی اراکین اسمبلی نے اپنے سر کا درد بنا رکھا ہے ۔یہ سارا ورثہ انگریز کے عہد حکومت کا ہے اُسے ہر علاقے میں اپنے مفادات کے نگہبان درکار تھے ہم نے اس ترکے کو ایک لمحہ کے لئے ترک کرناگوارا نہیں کیا۔ چنانچہ ہر بار جب بھی انتخابات کامرحلہ درپیش ہوتاہے اورپارلیمنٹ کو وجود میں آنا ہوتاہے تو وہی لوگ ہر پارٹی کی فرسٹ چوائس ہوتے ہیں جو موجودہ سماجی ڈھانچے اور رائج الوقت سیاسی نظام کی بدولت ووٹ لے سکتے اورجیت سکتے ہوں۔ خدا کرے کہ ہمارا معاشرہ جلد سے جلد ذہنی غلامی سے آزاد ہو‘ لوٹا گروپ سیاستدانو ں سے نجات ملے‘ ووٹر کو وڈیرے کے چنگل سے آزادی ملے‘ایڈہاک ازم کی چیچڑی سے آزادی نصیب ہو‘ رشوت کے جن اورسفارش کے بھوت سے چھٹکارا ملے‘ ہارس ٹریڈنگ کی سیاست دفع ہو‘ایسی آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہوئے دیکھنا ہر شخص کا خواب ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ یہ سورج اُبھرے۔ ظلم‘ جور‘ ناانصافی لوٹ مار اور عدم تحفظ کا اندھیرا رخصت ہو۔ اس اندھیرے نے ہر سو اندھیرنگری کا راج قائم کر رکھاہے کیایہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ آج ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نابود‘زرِمبادلہ مفقود اور مقامی کاروبار پرجمود ہے۔ ہمت کی پستی اورطبیعت کی خرمستی آڑے آئی ہوئی ہے۔ سیاسی میدان کامنظر یہ ہے کہ ایم کیو ایم باہم دست وگریبان ہے۔ فاروق ستار کو کامران ٹیسوری لے بیٹھے ہیں۔ بہادرآباد گروپ میں عامر خان کاراج ہے۔ مصطفی کمال اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں‘ اندرون سندھ فی الحال پیپلزپارٹی کی گرفت میں ہے۔1970کے پہلے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے عبدالحفیظ پیرزادہ اور عبدالستار گبول کراچی سے کامیاب ہوئے تھے۔ دو سیٹیں یہ متواتر حاصل کرتی چلی آرہی ہے۔جماعت اسلامی اورجمعیت علماءپاکستان کی جگہ ایم کیوایم نے لے لی تھی جو اب تین گروپوں میں تقسیم ہے کا فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں پیپلزپارٹی ہے۔
شہبازشریف گزشتہ دس برسوں میں دو مرتبہ بھی کراچی تشریف نہیں لے گئے لیکن اب پچھلے دس دنوں میں دو بار کراچی پہنچے ہیں۔ انہوں نے کراچی کو نیویارک بنانے کا اعلان کیاہے اورگھرگھرپانی پہنچانے کاوعدہ کیاہے جبکہ پنجاب میں صاف پانی کمپنی اربوں روپے لے اُڑی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ یا کراچی کی جماعت ہے ہی نہیں ورنہ نہال ہاشمی کو پنجاب سے سنیٹرکیوں بنوایا جاتا۔اس کو کوئی ایک آدھ سیٹ مل گئی تو معجزہ ہوگا۔ خیبرپختونخوا میں متحدہ مجلس ”حمل“ کو دوبارہ بحال کیاگیاہے، یہ خیبرپختونخوا کے لئے بنایاگیاہے۔ مذہبی جماعتوں نے شاید لوگوں کو بے وقوف سمجھا ہواہے ‘ ہر اقتدار میں شریک رہنے والے مولانا فضل الرحمن کاحلیہ مذہبی ہے مگر یہ سَرتا پا سیاسی ہیں۔ اسی صوبے میں عمران خان نے سینٹ کے انتخابات میں ووٹ فروخت کرنے والے پختونخوا اسمبلی کے20ارکان کے ناموں کااعلان کردیاہے۔ بے شک یہ کپتان کا جرا¿ت مندانہ فیصلہ ہے‘ ان کے اس عمل سے ان کی مخلوط حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے، اس کے باوجود انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے لیکن عمران خان غلط وقت پر درست فیصلہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ چاہے ان کایہ فیصلہ ہو یا پارٹی کے اندر انتخابات کرانے کی بات ہو‘ کپتان نے اکثر اچھے فیصلے غلط وقت پر کیے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ میرٹ پر خود ٹکٹ دیں گے۔ یقینا یہ اس میں غلطیاں کریں گے کیونکہ انہیں ادراک ہی نہیں کہ دیہاتی علاقوں اورشہری علاقوں کی انتخابی سائنس کیاہے۔ برادریوں کی اہمیت‘ روایتی جوڑ توڑ‘ علاقائی گروپ بندی اور انتخابی حلقوں کی زمینی حقیقت اپنا رنگ دکھاتی ہے‘ جس سے عمران خان ناواقف ہیں۔ بے شک عمران خان ایک انتھک‘ نیک نیت‘ سادہ دل اور دیانتدار شخصیت ہیں لیکن انہیں ہر ضلع میں انتخابی مہین کاروں سے ضرور مشورہ کرناچاہئے کیونکہ سیاسی طورپر ان کا آخری انتخاب ہوگا اورپھر کون جیتاہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ان کو سمجھنا چاہئے کہ Power PoliticsاورPopular Politocs میں زمین وآسمان کا فرق ہوتاہے۔ جہانگیر بدر مرحوم جیسا کارکن اپنی زندگی میں صرف ایک مرتبہ جیت سکا جبکہ مقابلہ بھی تین امیدواروں میں تھا۔ میاں صلاح الدین اورخواجہ سلمان بٹ سے۔ کمپیوٹرپر کاروبار تو ہو سکتاہے انتخابی سیاست نہیں کی جاسکتی جس کاثبوت علی ترین کی شکست اور پیر اقبال شاہ کی فتح ہے۔ اسی صوبے کی تیسری شخصیت امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے شریفانہ انداز میں بیان دیا کہ وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے کہا تھا کہ ہمیں سینٹ کے انتخابات میں اوپر سے حکم آیا تھا جس پر تحریک انصا ف کے ترجمان فواد چودھری جہلمی نے عامیانہ انداز میں رد عمل کا اظہار کیا اور غیر ضروری طورپر بات کو بڑھاتے چلے گئے لیکن پرویز خٹک کے وضاحتی بیان نے ماحول کونرم کیا اورسراج الحق بھی دھیمے پڑ گئے۔ پنجاب میں دنگل مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے پہلوانوں کے درمیان ہی ہوناہے۔ دھول اُڑنی شروع ہو چکی ہے‘ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے سوجھ بوجھ رکھنے والے ضرور زور لگائیں گے۔ بحریہ سرکار کی چمک بھی ان کو حاصل ہوگی لیکن فی الحال ان کے لئے صورتحال مایوس کن ہے‘ اگر کوئی معجزہ ہوجائے اور پیپلزپارٹی پنجاب سے35یا40سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ملک کے وزیراعظم آصف علی زرداری ہوں گے بلاول بھٹو نہیں، البتہ بلاول بھٹو اسمبلی میں ہوں گے۔ ن لیگ میں مزید توڑ پھوہوگی‘ بہت سوں نے اپنا بوریا بستر باندھاہوا ہے۔ مئی کے آخر میں یہ حضرات ہجرت کرینگے۔ میاں نوازشریف صاحب قدرت کی پکڑ میں ہیں‘ کوئی بڑا بول ان کو لے کر بیٹھ گیاہے‘ کوئی سوچ سکتا تھا کہ اقتدار بھی ان کا ہو‘وزیراعظم بھی اپنا ہو‘پنجاب میں دس سالوں سے ان کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہو اور کارپرجھنڈا ان کا لہرا رہاہو‘ سپہ سالار بھی انہوں نے لگایا ہو‘ بڑا قاضی بھی ان کے ساتھ کام کرچکا ہو‘ آبپارہ میں بھی ان کی عزیزداری ہو‘ آزاد کشمیر میں ان کی اپنی حکومت ہو‘ قومی اسمبلی میںان کی اکثریت ہو اورمیاں صاحب اپنی صاحبزادی کے ہمراہ ایک عدالت سے دوسری عدالت کے دھکے کھا رہے ہوں۔ اللہ کی اپنی چالیں اور رنگ ہیں۔ قرآن پاک میں فرمانِ خداوندی ہے کہ ” میں دنوں کو تمہارے درمیان پھیرتا رہتا ہوں“ ہر دم خدا سے ڈرنا چاہئے‘ وہ ذات بہت اعلیٰ ظرف ہے۔ ڈھیل اور چھوٹ دیتا رہتاہے‘ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ میاں نوازشریف کس کیفیت اور ذہنی اذیت سے گزررہے ہوںگے اورانہوں نے جواب لائن لی ہوئی ہے وہ ریاست کوقبول ہی نہیں ہوسکتی۔ اس وقت دشمنوں کو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘ باقی قارئین کرام خود سمجھدار ہیں۔ سپریم کورٹ پر یلغار کے زخم آج بھی ہرے ہیں‘ ججوں کی تقسیم بھی سب کو یاد ہے‘ قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب کے مطابق وزیراعظم ان سے مشورے کے طالب تھے کہ کسی طرح چیف جسٹس کو کم ازکم ایک رات کے لئے حوالات بند کیاجاسکتاہے اورمیاں صاحب نے گزشتہ روز تو یہاں تک کہہ دیا کہ پانچ ججوں کو سروخروکرنے کے لئے مجھے سزا دلوائی جارہی ہے اوران ججوں کوشرمندگی سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نام لے کرکہاکہ سب سے بڑا ڈکٹیٹر چیف جسٹس ہے۔
قصور میں چیف جسٹس کو ننگی ماں بیٹی کی گالیاں دی گئیں‘ عدلیہ سے حالیہ ہولناک کشیدگی پیدا کرنے کے وہ واحد ذمہ دار ہیں‘ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کسی سیاسی پارٹی یا حکمران ٹولے نے عدلیہ کی ایسی توہین کی ہو جس کا شریف خاندان مرتکب ہورہاہے۔ خدا ان کوہدایت دے اوراپنا رحم کرے۔ ان کوسمجھ آجانا چاہئے کہ دن دہاڑے ان کی آنکھوںکے سامنے جمہوری عمل کے ذریعے جس طرح عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بلوچستان اورصادق سنجرانی چیئرمین سینٹ بنے ہیں تو اورکیا کچھ نہیں ہوسکتا اور جنہوںنے سیاست کرنی ہے‘ سیاسی عمل میں زندہ رہنا ہے وہ کیسے زیادہ دیر ان کے ساتھ رہیںگے‘ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میاں صاحب نے رَج کے دھول اڑائی ہوئی ہے۔ اب ان کے لئے کہاں سے جسٹس قیوم‘ جسٹس تارڑ اور جسٹس خواجہ شریف کو لایا جائے۔ چھوٹے میاں کا مکتب فکر اس کے سوا کچھ نہیں کہ اقتدار کے اصل مرکز کے ساتھ مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہوجائے لیکن اب ”دوست“بھی ہوشیار باش ہیں اورکہتے ہیں کہ بہت بیوقوف بنالیا ان صاحب نے۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بھی سامنے آچکاہے‘ ڈیرہ غازیخان کے استاد فدا حسین گاڈی‘ برادرم عاشق بزدار‘ محترم مسیح اللہ جام پوری‘ محترم ظہوردھریجہ صاحب‘مرحوم منظور بوہڑ‘ صوفی ومجذوب محمود نظامی‘ برادرم منصور کریم‘ برادرم جاوید اختر بھٹی‘ بہاولپور کے عبداللہ عرفان‘ اشو لال‘ رفعت عباس‘ شجاع آباد کے برادرم اللہ نواز وینس‘ ماسٹر محمد مبین‘ شاکرشجاع آبادی‘ تاج محمد لنگاہ مرحوم اوربالخصوص روزانہ خبریں کے روح رواں محترم جناب ضیاشاہد صاحب کی محنت کاپھل سامنے آنے والاہے۔اب پانچواں صوبہ بن جائے گا کیونکہ ریاست کے اہم ستون کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اصل لوگوں کو اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے اور زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ اب سرائیکی علاقے میں آبادپنجابی آباد کار اوراردوبولنے والے بھی یہ حق لینے کے لئے ایک ہوگئے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب کافیصلہ کن کردارہوگا۔بہت سے سیاسی ہیوی ویٹس اپنے ”ہزاروں“ ساتھیوں کے ساتھ ادھر اُدھر ہونے کے لئے مشورے بھی کرچکے ہیں اور ان کے پاس ان کے بیانات بھی تیار ہیں، وقت کاانتظار ہے۔ دھوڑ اڑنی شروع ہوگئی ہے‘ اہم شخصیات کی زندگیوں کوبھی خطرہ لاحق ہے۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ پاکستان میںعام انتخابات کی مہم چلے اورغیر ملکی ایجنسیاں اپنا کھیل نہ کھیلیں، یہ ہوہی نہیں سکتا۔ پاکستان کے دشمن ایک صفحہ پراکٹھے ہوچکے ہیں اورہمارے اندر ان کے گماشتے ان کے اشاروں پر چلنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پرفائرنگ معمولی واقعہ نہیں ہے۔ بظاہر پارلیمنٹ موجود ہے‘ وزیراعظم بھی اُڑتے پھر رہے ہیں۔ کہنے کو جمہوریت ہے مگر اسلام آباد میں ہو کا عالم ہے‘ ماحول مارشلائی ہے۔ چیف جسٹس متحرک ہیں اور ہر روز بھاشن دیتے پھر رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ مارشل لاءکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چیف سپہ سالار بھی دو ٹوک لہجے میں جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں لیکن ٹی وی پر اینکرزگردی مچی ہوئی ہے۔کوئی ان سے پوچھے کہ بھلے لوگو کبھی مارشل لاءعدلیہ یاصحافت سے پوچھ کر آیا ہے۔
ہماری جمہوریت تو صرف ایک ٹرک کی مار ہے‘ پھر سب ساتھ ہو جاتے ہیں اور کیا وہ پاگل ہیں کہ آئیں گے جو چاہیں گے وہ کرائیں گے توپھر آنے کی کیا ضرورت ہے۔ فوج کواچھی طرح معلوم ہے کہ دشمنوں نے پاکستانی فوج کایہ کارنامہ کبھی نہیں بھولانا اور معاف کرناہے کہ اس نے اپنے وطن پاکستان کو شام‘ لیبیا اور عراق بننے سے بچا لیاہے۔ سیاسی منظر اب انتخابی منظر میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ ماضی کے اتحاد انتشار میں تبدیل ہونگے‘ میاں نوازشریف کے بیانہ کابہانہ بناکر متعدد صحت مند سیاسی کبوتر مسلم لیگ(ن) کے ڈربے سے پرواز کرجائیں گے۔ میاں نوازشریف مزاحمتی کردار جاری رکھتے ہوئے دھول اڑائیں گے جبکہ حبیب جالب کے اشعارپڑھنے والے میاں شہبازشریف مفاہمی ڈھال حاصل کرنے کی کوشش کریںگے۔بہت کم لوگ اپنا ووٹ بنوانے میں دلچسپی لے رہے ہیں‘ بہت کچھ بدلنے والا ہے‘ کوئی بڑی خبرکسی وقت بھی آسکتی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے جتنا بولنا تھا بول لیا‘ بس اسی پرقناعت کریں‘ قوم چودھری افتخار کی ڈسی ہوئی ہے‘ بہتر ہے قاضی اعظم عدالت میں سنیں‘ زیادہ تر خاموش رہیں اورٹکا کر فیصلے دیں‘ ورنہ تاریخ کاروشن باب بھی کھلاہے اورتاریخ کاکوڑا دان بھی‘ خدا وندکریم ان کو عزت نصیب کرے۔(آمین)
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ