2018ءکے آغاز سے تمام جماعتوں نے اپنے اُمیدواروں کے پس منظر میں ورکنگ شروع کر دی تھی خاص طور پر جنوبی پنجاب میں پی پی والوں نے خصوصی گنتی کا اہتمام کیا تو معلوم ہوا اگر پی پی جنوبی پنجاب کا کارڈ صوبہ بہاولپور والوں کے ساتھ مل کر کھیلے تو اس کی پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے۔ ویسے ابھی تک ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کی قیادت نے اہلِ بہاولپور سے رابطہ نہیں کیا اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ریاست بہاولپور جو کسی زمانے میں اتنی خوشحال تھی کہ پاکستان کے پہلے بجٹ کے لئے اس ریاست کے کارپردازوں نے اپنی جانب سے اتنا کچھ دے دیا کہ پھر اس کے بعد پاکستان کا کاروبارِ حیات چل نکلا۔ آج ریاست بہاولپور کے باسی اپنے علاقے میں سہولیات کے لیے کبھی لاہور کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی اسلام آباد کی جانب سے نظرِ کرم کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ وہی ریاست ہے جس نے پاکستان بننے سے قبل ایک ایسا ڈاک ٹکٹ جاری کی جس پر ایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری جانب پاکستان کا جھنڈا دکھائی دے رہا تھا۔پاکستان بننے کے بعد قائدِ اعظم جب گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے تو شاہی سواری ریاست بہاولپور کی تھی۔ اسی طرح ریاست بہاولپور کے نواب نے پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک، ایچی سن کالج لاہور کی بے شمار تعمیرات اور کے ای کالج کی آدھی عمارت تعمیر کرائی۔ اسی ریاست نے لاہور کے بے شمار تعلیمی اور رفاہی اداروں کو ایک عرصہ تک ہر سال لاکھوں روپے کی امداد بھی دی۔ اس زمانے کے لاکھوں روپے آج کے کروڑوں روپوں سے بھی زیادہ ہیں۔ اس کارِ خیر پر انہوں نے کبھی شور و غوغا نہ کیا۔
ریاست بہاولپور کے حکمرانوں نے عوام کو حکومت کا حصہ بنانے کے لیے 1952ءمیں ایک عبوری دستوری ایکٹ کا نفاذ کیا جس کے تحت 49 ارکان کی انتخاب کے ذریعے اسمبلی وجود میں آئی۔ ریاست کی کابینہ کو عوامی کابینہ کا نام دیا گیا۔ مخدومزادہ حسن محمود اس کابینہ کے وزیراعظم بنے تھے جبکہ عبوری ایکٹ کے تحت ریاست بہاولپور کے آئینی سربراہ نواب صادق محمد خان عباسی امیر آف بہاولپور تھے۔ یہاں پر وہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ ون یونٹ کے قیام سے پہلے تک بہاولپور صوبہ تھی اگر بہاولپور ہوتا تو مخدومزادہ حسن محمود وزیراعظم کی بجائے وزیرِ اعلیٰ ہوتے اور پھر صوبے کا ایک گورنر بھی ہوتا۔
یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تب سے لے کر اب تک ریاست بہاولپور میں بسنے والوں سے جو زیادتی ہوئی اس کا ذمہ دار کون ہے؟ بہاولپور کے باسیوں نے پانچ مرتبہ نواب صادق محمد خان عباسی کو منتخب کر کے اسمبلی بھی بھیجا لیکن وہ اسمبلی میں جا کر بھی اپنی نوابی کو نہ بھولے۔ اس کے مقابلے میں جو بھی سیاست دان آیا جن میں طارق بشیر چیمہ سے لے کر ریاض پیرزادہ تک شامل ہیں انہوں نے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے وہ کام کئے جو اس سے قبل عباسی خاندان نے نہیں کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو اس علاقے کے مقامی تھے ان کے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا جبکہ آبادکار سیاست دانوں نے تیزی سے جگہ بنائی۔ اب ہر انتخابات میں عباسی خاندان کو ناکاموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ مہاجر سیاست دن بدن عوام میں مقبول ہو رہی ہے۔ ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ میں اگرچہ طاہر بشیر چیمہ بھی ہیں جو مرکزی عہدے پر فائز ہیں اب ضلع بہاولپور سے تعلق رکھنے والے طاقتور سیاست دان ریاض حسین پیرزادہ تو نواز شریف کی کابینہ میں رہتے ہوئے ان سے شاکی رہتے تھے اب تو ان کے پاس ایک ایسا انتخاب آ گیا ہے کہ وہ بھی ن لیگ کو چھوڑ سکتے ہیں۔
حالیہ دورہ بہاولپور کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے جلسہ میں جو کچھ ہوا وہ بھی حکمران جماعت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ سب لیبر ونگ کے عہدے داروں نے وزیراعظم کی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ رکن قومی اسمبلی سیّد علی حسن گیلانی پہلے تو اس تقریب کے انتخابات میں بڑے سرگرم تھے پھر ایک مانوس کال نے انہیں اس تقریب سے دور کر دیا۔ ابھی ن لیگ یہ صدمہ برداشت کر رہی تھی کسی نے میاں نجیب الدین اویسی کی نشاندہی کی کہ وہ کہاں غائب ہیں؟ جس پر ایم این اے نجیب الدین اویسی کے سیکرٹری نے ان کے فیس بک پر وضاحت کی کہ وہ آج کل بیرونِ ملک ہیں اور ن لیگ کی قیادت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ ریاض حسین پیرزادہ (وفاقی وزیر) اور بے شمار چیئرمین (بلدیاتی اداروں کے) بھی غیر حاضر پائے گئے۔ اس تقریب کی خوبی یہ تھی کہ تقریب کے تمام مقررین (جن کا تعلق ن لیگ سے تھا) نے واضح طور پر صوبہ بہاولپور کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے جنوبی پنجاب میں سرگرم ہونے کے لیے رابطوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں شاہد خاقان عباسی نے اس مطالبہ کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا۔ اب بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، لودھراں، ملتان، وہاڑی، خانیوال کے اضلاع کے سیاست دان آنے والے دنوں میں کس کا ساتھ دیں گے؟ یہ بات تو سو فیصد طے ہے کہ وہ ن لیگ کی حمایت نہیں کریں گے۔ ن لیگ کو تو فی الحال عدالتوں سے فرصت نہیں۔ وہ جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے کیا فیصلہ کرے گی۔
”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کے قیام کے لیے یہ وقت مناسب ہے؟ اس کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ آج سرائیکی علاقوں کے بسنے والوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ پنجاب میں سے ایک اور صوبہ کی تشکیل ضروری ہے۔ پی پی پہلے ہی سرائیکی صوبے کی حامی ہے۔ جاوید ہاشمی ذاتی حیثیت میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر سرائیکی صوبہ نہ بنا تو ملک کو بے شمار خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح شاہ محمود قریشی اب اپنی پارٹی پالیسی کو سرائیکی صوبے کے قریب لا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی تینوں بڑی پارٹیاں سرائیکی صوبے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ البتہ دیکھنا یہ ہو گا کہ نئے صوبے کے نعرے کو کون سی جماعت آنے والے انتخابات میں کیش کر سکے تھی۔ فی الحال تو جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اپنے قیام سے لے کر اب تک اس کے عددی حجم میں اضافہ نہیں کر سکا نہ انہوں نے جنوبی پنجاب کے کسی بھی شہر میں کوئی جلسہ، جلوس، احتجاج وغیرہ کا اعلان کیا ہے۔ نہ ہی اس محاذ میں ارکانِ اسمبلی نے حقیقی طور پر استعفے دیئے ہیں۔ مستعفی ہونے کے لیے صرف اخباری بیان کافی نہیں ہوتا اس کے لیے سپیکر کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ یعنی اس محاذ میں شامل ارکانِ اسمبلی اپنی مدت پوری ہونے تک کی تمام مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ارکان دو ماہ کی سرکاری مراعات سے دستبردار ہونے کی ہمت نہیں رکھتے وہ جنوبی پنجاب کی مجبور و محکوم عوام کا مقدمہ مقتدر قوتوں کے سامنے کیسے لڑ سکیں گے۔ ویسے بھی جس محاذ کے قیام کا اعلان لاہور سے کیا گیا اس محاذ کی ترجیحات کا اندازہ شہر کے انتخاب سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس تمام گفتگو کا حاصل یہی سامنے آتا ہے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے پر کسی کو اعتراض نہیں سوائے ان طاقتوں کے جنہوں نے اسمبلی میں یہ بل پاس کرنا ہے اور اس خواب کو تعبیر کون دے گا؟ اس کے لیے ریاست بہاولپور کے طاقتور طبقات کے علاوہ جنوبی پنجاب کے ہر اس سیاست دان کو منافقت چھوڑ کر آگے بڑھنا ہو گا جو یہ چاہتے ہیں کہ سرائیکی بیلٹ کے مسائل ختم ہوں۔ یہ مسائل کون ختم کرے گا؟ شاید ایسے ہی مشکل لمحات کے لیے یہ مثال یاد آتی ہے:
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ