اس مرتبہ تو کمال ہو گیا کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں رمضان المبارک کا جو چاند دکھائی دیا وہی چاند ہم جیسے غریب، محکوم و مجبور پاکستانیوں کو بھی دکھائی دیا۔ یوں نجانے کتنے عرصے بعد ہم رمضان المبارک کے چاند کی وجہ سے اپنے برادر اسلامی ممالک کی برابری کے قابل ہوئے۔ ورنہ اس سال سے پہلے یہ اہم کام پشاور کے مولانا پوپلزئی اور مولانا بجلی گھر بڑی باقاعدگی سے کیا کرتے تھے۔ دور کیوں جائیں گزشتہ سال تک مولانا پوپلزئی اپنے پوپلے منہ میں پوپ کارن رکھ کر یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ چونکہ سعودی عرب میں رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا ہے اس لیے شمالی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا کے رہنے والے روزہ رکھیں۔ پشاور اور اس کے ملحقہ علاقوں کے رہنے والے بھی اتنے سیدھے سادے ہیں کہ وہ پوپلزئی کی پوپلی باتوں میں آ کر روزے رکھنا شروع کر دیتے۔ ابھی رمضان چل ہی رہا ہوتا تھا کہ مولانا پوپلزئی عید کے چاند کے لیے کمر کس لیتے تھے اور وہ سعودیہ کے ساتھ عید منانے کا اعلان کر دیتے۔ ماضی میں بڑی عجیب و غریب صورتِ حال ہوتی کہ اگر ایوانِ صدر میں آخری روزہ پر افطاری کااہتمام ہوتا تو گورنر کے پی کے اس دن اپنے ہاں عید ملن کی تقریب سجا کر بیٹھے ہوتے۔
ملک میں اسی طرح کی ساری رونق مولانا پوپلزی اور کبھی مولانا بجلی گھر کی وجہ سے ہوا کرتی تھی۔ مولانا بجلی گھر کا تو اب کوئی ذکر اذکار نہیں ہے شاید وہ لوڈ شیڈنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن اس سال ہم تلاش بسیار کے باوجود پوپ کارن کھاتے ہوئے مولانا پوپلزئی کو تلاش نہ کر سکے۔ بہرحال یہ دونوں صاحبان ہر سال اس رویت ہلال کمیٹی کو پریشان کرتے جو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں تشکیل دی۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل 24 جنوری 1974ءکو قومی اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے ہوئی۔ اس کے بعد 12 فروری 1974ءقومی اسمبلی نے اس مرکزی کمیٹی کے ناموں کی منظوری دی۔ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے ذمہ یہ کام سونپا گیا کہ وہ خاص طور پر رمضان المبارک، شوال، محرم الحرام، ربیع الاوّل اور دیگر اسلامی مہینوں کے چاند نظر آنے یا نہ دکھائی دینے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز ہو گی۔ قومی اسمبلی نے اس کمیٹی کا پہلا کنوینر وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا کوثر نیازی کو مقرر کیا جبکہ کمیٹی کے دیگر ارکان میں مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانی مہدی حسن علوی، مولانا عطاءاللہ حنیف، مولانا سیّد محمود احمد رضوی، صاحبزادہ پیر کرم شاہ الازہری، مولانا محمد ایوب خان بنوری، مولانا عبدالغفور، پیر ہاشم خان سرہندی مجددی اور عارف شاہ قادری شامل تھے۔ 1974ءسے لے کر اب تک اس کی طویل ترین سربراہی مفتی منیب الرحمن کے پاس ہے۔ وہ مشرف دور سے لے کر اب تک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں اور خوب کر رہے ہیں۔
مشرف کے زمانے میں ایک مرتبہ عیدالفطر کا چاند دکھائی دینے کا اعلان تاخیر کا شکار ہوا تو یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر شور مچا دیا کہ درزی نے ابھی تک مفتی صاحب اور ان کی اہلیہ کے عید کے سوٹ تیار نہیں کیے۔ اس لیے عید کا چاند دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ مفتی منیب کی ہمت ہے کہ وہ اس پیرانہ سالی کے باوجود ہرماہ چاند کو تلاش کرتے ہیں۔ ایک چاند کے بارے میں ابھی اعلان کرنے کی تیاری کر رہے تھے کہ ان کے ساتھی رکن رویت ہلال کمیٹی نے ان سے پہلے صحافی سے بات کرنا چاہی تو غصہ میں پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کو بڑی مشکل سے پریس کانفرنس میں لایا گیا۔ یوں انہوں نے چاند دکھائی دینے کے بارے میں قوم کو اطلاع کی۔
اسی طرح ہمارے ملتان کے معروف عالمِ دین مفتی عبدالقوی اچھے بھلے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن تھے کہ چاند دیکھتے دیکھتے ایک دن قندیل بلوچ کو چاند سمجھ کر اس کے گھر پہنچ گئے۔ قندیل بلوچ نے اس سارے منظر نامے کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر اسے وائرل کر دیا۔ اب سب سے پہلے مفتی عبدالقوی کو یہ کہہ کر مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے فارغ کر دیا کہ جب چاند دیکھنے کی سہولت مرکزی رویت ہلال کمیٹی ہر ماہ آپ کو دیتی ہے تو آپ نے چاند دیکھنے کی علیحدہ سے قندیل کیوں روشن کی؟ اب صورت حال یہ ہے کہ مفتی عبدالقوی سے سرکاری طور پر چاند دیکھنے کی سہولت واپس لے لی گئی ہے جبکہ قندیل بلوچ کا بھی قتل کر دیا گیا ہے۔ مفتی عبدالقوی کو ناحق اس قتل میں شاملِ تحقیق کیا گیا۔ آج کل یہ کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور مفتی عبدالقوی ہر ایک کو یہ شعر سناتے ہیں:
تو اسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند ہر جائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے
بات کا آغاز ہوا تھا چاند دیکھنے سے اور بات قندیل بلوچ تک آ گئی۔ ہم ایک مرتبہ پھر رویت ہلال کمیٹی کی جانب آتے ہیں جنہوں نے اس مرتبہ رمضان المبارک کا چاند اس تاریخ کو دیکھا کہ ہم سعودیہ کے برابر آ گئے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ عیدالفطر پر ہم کیا گُل کھلاتے ہیں؟ عید تو بہرحال ہمیں اپنے موسم اور اپنے حالات کے مطابق کرنی چاہیے کہ آخر کب تک ہم چاند کے مسئلہ پر دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ ویسے بھی چاند دیکھنے والوں میں کوئی ایک بھی چاند چہرہ نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود ان کی ہمت ہے کہ پورے ملک سے رویت ہلال کمیٹی والے ایسے ایسے بزرگوں کا انتخاب چاند دیکھنے کے لیے کرتی ہے کہ جن کی اپنی آنکھوں کے موتیے اور دیگر بیماریوں کے کئی آپریشن ہو چکے ہوتے ہیں۔لیکن کمال کی بات ہے کہ وہ اس کے باوجود بڑے ذوق و شوق کے ساتھ دوربین کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔اُسی دوربین سے چاند تلاش کرتے ہیں جبکہ اس دوربین کو ایجاد کرنے والے سائنسدان کہتے ہیںکہ اس دوربین کو ہم نے صرف چاند دیکھنے کے لیے ایجاد نہیں کی بلکہ ہم نے اس سے اور بھی کام لینے ہوتے ہیں۔ سو ان ماہر موسمیات اور سائنسدانوں سے معذرت جن کا یہ دعویٰ ہے کہ چاند دیکھنے کا حق ہمارا ہے جبکہ پاکستان میں چاند دریافت رویت ہلال کمیٹی کر سکتی ہے جبکہ دیگر محکموں اور افراد سے گزارش ہے کہ جب تک ملک میں تبدیلی نہیں آ سکتی تب تک موجودہ رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات پر یقین کریں آنے والے دنوں میں جب ملک میں تبدیلی آ جائے تو ہر جگہ پر قوم ”انصاف“ کا چاند دیکھے گی۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ