برادرم ظہور احمد خان کے دفتر فکشن ہاؤس جانا ہوا تو شو روم کی سیر کرتے ہوئے ایک کتاب ”ثمینہ راجہ کے خط“ پر نظر پڑی جو سیّد انیس شاہ جیلانی نے مرتب کیے۔ انیس شاہ جیلانی کے تعارف کے یوں تو بہت سے حوالے ہیں لیکن ان کا اصل حوالہ مبارک اُردو لائبریری (محمد آباد) رحیم یار خان ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے جناب ظفر اقبال تواتر سے ان کی ایک کتاب کے اقتباسات اپنے کالم میں دے رہے ہیں۔ سیّد انیس شاہ جیلانی خاکے لکھتے نہیں بلکہ خاکے اُڑاتے ہیں۔ اس کتاب سے قبل وہ رئیس امروہوی اور دیوانِ غالب پر بھی اپنی کتاب لا چکے ہیں ان کی تمام کتب اپنے اپنے دور کے مطابق اہم ہوں گی لیکن ”ثمینہ راجہ کے خط“ تو بڑے خاصے کی چیز ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ ثمینہ راجہ کے شاندار خطوط کے اقتباسات پڑھیں یا ان خطوط پر ہمارا تبصرہ دیکھیں پہلے ہم آپ کو ثمینہ راجہ کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے۔ اُردو کی یہ نامور اور منفرد لب و لہجے کی شاعرہ، ادیبہ، مدیر اور مترجم 11 ستمبر 1961ءکو بہاولپور (بحوالہ وکی پیڈیا) پیدا ہوئیں۔ 30 اکتوبر 2012ءکو اسلام آباد میں انتقال ہوا۔ 1973ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ 12 کتب شائع ہوئیں۔ پی ٹی وی پر ادبی پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اور مقتدرہ قومی زبان کے رسائل کی ادارت کرتی رہیں۔ فیصل عجمی کے رسالے آثار کی بانی مدیر ٹھہریں وغیرہ وغیرہ۔ثمینہ راجہ کیسی شاعرہ تھیں اُس کا اندازہ ابتدائی شاعری سے لگایا جا سکتا ہے۔
اُس سے ناطہ ٹوٹ چکا تھا لیکن پھر بھی
اُس کی چوکھٹ پر میری پازیب پڑی تھی
دشمن ہزار بار زمانہ ہوا بھی تھا
مجھ کو ترے خیال کا کچھ آسرا بھی تھا
اُس رات تھا قمر بھی سحابوں کی اوٹ میں
اُس رات تم نہ آئے دریچہ کھلا بھی تھا
اِس مرتبہ مجھے یہ نیا تجربہ ہوا
گرمی کی شدتوں سے بدن سرد ہو گیا
ہر شے مَیں اُس کے واسطے رکھوں سنبھال کر
وہ گویا میرے گھر کا ہی اِک فرد ہو گیا
ثمینہ راجہ کے یہ خطوط 1977ء سے 2001ء تک کے ہیں جن میں ادبی و سیاسی رجحانات کی خبریں ملتی ہیں۔ پہلے خط میں ثمینہ راجہ لکھتی ہیں ”مَیں اس پسماندہ علاقے کی بہت سی دبی دبائی اور معمولی تعلیم یافتہ لڑکیوں کی طرح ایک لڑکی ہوں ان میں بس ایک بات مجھ سے علیحدہ کرتی ہے، مجھے مطالعے کا بے حد شوق ہے اگرچہ میرا تمام جیب خرچ اس شوق کی نذر ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کتابوں کا شوق سیر نہیں ہوتا۔ ہمارے نزدیک کوئی بڑی لائبریری نہیں۔ میرے ذرائع بے حد محدود ہیں۔ مجھے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ایک لائبریری کی تلاش ہے۔ کیا آپ کی لائبریری میری یہ خواہش پوری کر سکے گی براہ کرم جواب اثبات میں دیں۔ کتابیں میری ذہنی غذا ہیں اور زیادہ دن تک فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔“
اسی طرح ثمینہ راجہ کا 10 ستمبر 1977ء کا لکھا ہوا خط ملاحظہ فرمائیں اور ان کی سیاسی دور اندیشی کو بھی دیکھیں۔ ”ہمارا پورا گھرانہ قومی اتحاد کا حامی ہے اور پورا گاؤں پی۔پی کا زبردست مخالف۔ یہاں تو بھٹو کا اچھے الفاظ میں ذکر کرنے پر بھی بے بھاؤ کی پڑتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھٹو کے خلاف مقدمہ چلانے والے انصاف کے پردے میں زیادتی کر رہے ہیں۔ اس ننھے سے ملک کا شیرازہ (جو 1971ء کے بعد بمشکل یکجا ہوا تھا) پھر سے بکھیر دیں گے۔“
24 اکتوبر 1977ء کے خط میں لکھتی ہیں: ”آپ کی بھتیجی یکتا کی شادی ہو رہی ہے پہلے پہل جب مجھے علم ہوا کہ پیروں کے گھرانے میں ایک لڑکی یکتا نامی بھی ہے تو بہت اچنبھا ہوا۔ یکتا تو بہت خوبصورت اور انوکھا نام ہے۔ لڑکیوں کی شادیوں پر غالباً مبارک باد دینے کی رسم نہیں ہے تاہم دُعا ہے کہ وہ تقریب بخیر و خوبی اختتام کو پہنچے۔“
یہ خط پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ سیّد انیس شاہ جیلانی کے گھر میں بچیوں کی شادی کی مبارک باد نہیں دی جاتی ہے البتہ جیلانی صاحب کے ادبی ذوق کی وجہ سے بچیوں کے نام خوبصورت رکھے جاتے تھے۔ یکتا کا مکمل نام کتاب میں دُرِیکتا لکھا گیا ہے۔ اس کتاب میں ثمینہ راجہ بار بار سید انیس شاہ جیلانی کو لکھتی ہیں رئیس امروہوی کی وجہ سے میرے ذہن میں آپ کا ایک تصور انہی سے ملتا جلتا تھا لیکن آپ کی تحریر سے بزرگی کی کوئی علامت مترشح نہیں ہوتی اُس کی کیا وجہ ہو گی؟ آپ نے مجھے ”جناب“ کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ بے حد بے تکلفی کی نشانی ہے یا لکھنے والے کی شوخیء طبعی کی علامت۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ میری اور آپ کی عمر میں بھی کم و بیش بیس برس کا فرق ہے کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ اپنا طرزِ تخاطب بدل ڈالیں؟ اسی طرح ثمینہ راجہ ایک اور خط میں (ابتدائی خطوط) میں لکھتی ہیں: ”مجھے لوگوں سے خط و کتابت کا کوئی شوق نہیں ہے آپ کو محض اس لیے لکھ بیٹھی تھی کہ آپ جناب رئیس کے دوست ہیں۔ خیال تھا ان ہی کی طرح عمر رسیدہ اور بزرگ انسان ہوں گے۔ عمر رسیدگی والی بات تو غلط ثابت ہوئی لیکن بزرگ تو آپ کو مَیں سمجھتی ہوں (خواہ آپ کو اس سے شدید اختلاف ہی کیوں نہ ہو) آغاز میں ثمینہ راجہ کا انیس شاہ جیلانی کے متعلق یہی موقف تھا لیکن کچھ عرصے بعد وہ خود لکھتی ہیں ”آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں کہ یہ جو مَیں بستی مراد پور پنواراں میں رہتی ہوں اور جیتی ہوں تو اس کا یعنی اس جینے کا بڑا سبب چند گنے چنے لوگوں کے خطوط ہیں۔“
ثمینہ راجہ کے تمام خطوط اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان کی زندگی کے تمام دکھ ان میں دکھائی دیتے ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد ثمینہ راجہ کو اپنے بھائی راجہ مجید کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا جس کو ثمینہ راجہ کا لکھنے پڑھنے کا شوق زہر لگتا تھا۔ ثمینہ راجہ اگر شاعری و ادب کی بجائے ایک گھریلو خاتون کا روپ دھار لیتی تو شاید وہ موت کے منہ میں اتنی جلدی نہ جاتی۔ ثمینہ راجہ بار بار اپنے خطوط میں سید انیس شاہ جیلانی کو اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ بھی دیتی رہی۔ دوسری جانب شاہ کا حوصلہ بھی قابلِ داد ہے کہ انہوں نے ثمینہ راجہ کی اپنے بارے میں تمام آراء کو من و عن شائع کرایا ہے۔ ثمینہ راجہ کہیں کہیں پر ان کو باور کراتی ہیں کہ وہ ان کی بیٹیوں کی ہم عمر ہیں اور لکھتی ہیں ”مَیں کبھی نہیں چاہوں گی کہ آپ کا لب و لہجہ قابو سے باہر ہو۔ ایک بات مجھے پورے دھیان اور سچائی سے جواب دیجئے کبھی یکتا یا تمکنت سے گفتگو کرتے ہوئے بھی آپ نے محسوس کیا کہ آپ کا لہجہ قابو سے باہر ہو چکا ہے؟ آپ کے خیال میں اگر میرا دماغ خراب ہے تو جان لیجئے کہ مَیں کسی وہم میں مبتلا نہیں ہوں۔ تو آپ کے لب و لہجے کی ہو ہے جو اس مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ بے قابو ہے ۔ مجھے آپ کے عشق عشق کی گردان پر حیرت ہے۔ یکتا اور تمکنت کا حوالہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ آپ جان جائیں کہ مَیں زاہدہ حنا اور غزالہ بختیار نہیں کیونکہ میرے اور ان کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میرے لیے اتنے کھلے الفاظ مت استعمال کیجئے آپ میرے لیے محترم ہیں اور کسی بے تکلف دوست کو محترم کہہ کر مخاطب نہیں کیا جاتا۔ آپ مجھے بہن اور بیٹی بے شک مت بنائیے لیکن خط لکھتے ہوئے اتنا تو دھیان رہے کہ آپ اپنے ہم سَن مرد سے نہیں کسی کی بہن اور بیٹی سے مخاطب ہیں۔“(جاری ہے)
فیس بک کمینٹ