چند روز قبل ایک مقبول رہنما نے جلسہ عام میں مخالف خاتون سیاست دان کے لب و لہجے کی نقل اتاری اور اپنے سامعین کی گویا اچھی تربیت کی۔ فریق مخالف کی طرف سے ایک خاتون اور ایک مرد وزیر نے شائستگی کی حدود کو پامال کرکے رکھ دیا۔ ادھر سوشل میڈیا کی طرف نظر جاتی ہے تو بھائی ظفراللہ خان نے زہد و اتقا کے پتلوں کی خوش بیانی کے کچھ نمونے ایک تجزیے میں شامل کئے ہیں ۔ اقتباسات اس قدر پاکیزہ ہیں کہ مدیر کو نوٹ لکھنا پڑا کہ دل آزاری سے گریز کے خواہاں احباب اس تحریر کو پڑھنے سے اجتناب فرمائیں۔ سبحان اللہ! سیاست محترم ترین قومی سرگرمی ہے۔ ذرائع ابلاغ تمدنی مکالمے کی مستند لغت کے پابند ہیں۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ ہم منہ چھپائے پھر رہے ہیں ۔
سیاسی مکالمہ اپنے موقف کی استواری، دلیل کی تحقیق اور بیان کی تربیت کے مسلسل عمل کا نام ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں کانگرس اور مسلم لیگ شریک تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح، محمد علی جوہراور علامہ اقبال کی تقریر و تحریر پر کوئی انگلی رکھ کے دکھائے۔ اسی طرح مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل اور ابوالکلام آزاد کی تقریر و تحریر میں کہیں ناشائستگی سرزد نہیں ہوئی ۔ دور کیوں جاتے ہیں ۔ ٹھیک سو برس پہلے 1916 میں باچا خان نے اپنی قوم کی سیاسی تربیت شروع کی تھی۔ قید و بند، نظر بندی اور تشدد، خدائی خدمت گار کون سی آزمائش سے نہیں گزرے۔ پاکستان میں نیپ کا سیاسی کارکن آج بھی اپنے لب و لہجے سے پہچانا جاتا ہے۔ حقائق، معلومات اور تجزیے کے معیار سے قطع نظر باچا خان کے پیروکار سے ناشائستگی کی توقع نہیں کی جاتی۔ ہماری سیاسی لغت میں زوال کی کہانی عبرت انگیز ہے۔ ہماری جدوجہد آزادی کی روایت دستوری سیاست کی تھی۔ اس کے متوازی ایک دھارا دستور سے ماورا ہنگامی سیاست اور غیر معمولی حالات کی کشتی چلانا چاہتا تھا۔ گاندھی جی نے بھگت سنگھ کی حمایت نہیں کی تھی۔ قائداعظم اور علامہ اقبال تحریک خلافت میں شریک نہیں ہوئے۔ وطن آزاد ہوا تو غیر معمولی حالات تھے۔ سیاست کے اس دھارے کو قوت پکڑنے کا موقع مل گیا جو اصول ضابطے کی پابندیوں سے نالاں تھا۔ فسادات، متروکہ املاک، آئین سازی میں تاخیر اور مسلم لیگ کا مفروضہ ماورائی رتبہ، یہ چاروں زاویے اس سیاست کی طرف لے کر جاتے تھے جس میں سب جائز تھا اور ہر ایک کو فقط اپنی غفلت سے رہنمائی درکار تھی۔ پھر 1958 آیا ۔ آمریت سیاست کے معمول کو برطرف کرنے کا نام ہے۔ دس سالہ آمریت کی کوکھ سے بھٹو، بھاشانی اور مجیب کی سیاست برآمد ہوئی۔ جماعت اسلامی کی خود راستی نے جنم لیا۔ ملک ٹوٹ گیا لیکن ہم ایک دوسرے کی زبانیں کھینچنے کا اعلان فرماتے تھے۔ ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ اپوزیشن کو ڈنڈا ڈولی کرکے اسمبلی سے باہر پھینکنے میں حرج نہیں جانتے تھے۔ ہم نے انارکی کو سیاسی مفاد کا آلہ کار بنایا تھا۔ انارکی ایک قطبی کیفیت بن کر ہم پر سوار ہو گئی۔ ضیاء آمریت کے طویل برسوں میں ایک طرف اہل تقویٰ کی خود ساختہ حقانیت تھی تو دوسری طرف وہ راندہ درگاہ جنہیں اظہار کے لیے حرف انکار سے چارہ نہیں تھا۔ ہمارا دہن بگڑ گیا۔ دور فاصلاتی متوازی اقتدار کے عشرے میں ہم نے الزام در الزام کے سلسلے کو یہاں تک پھیلا دیا کہ ایک موقع پر عدالت میں اخبار کے تراشے کو قابل قبول شواہد کا درجہ دے دیا گیا۔
ہم وہ بدقسمت ہیں جنہوں نے نوے کی دہائی میں اخبار کا نیوز روم دیکھ رکھا ہے۔ رپورٹر کے ہنر کا حدود اربعہ جانتے ہیں۔ اس دور کی صحافت کو پکی سرکار کا سبق پڑھایا گیا تھا۔ منتخب حکومت کچی سرکار تھی، چنانچہ بد عنوان نااہل اور کمزور تھی۔ پکی سرکار سچی تھی اور حتمی فتح کی سزاوار تھی۔ ہم اخبار نویس کچی سرکار پر نشتر زنی اور نمک پاشی کے ہنر آزمایا کرتے تھے۔ پکی سرکار کے دامن سے بندھے بہت سے نیم رخ کردار تھے۔ ہم نے سامری کے ہر بچھڑے کو سجدہ کیا۔ مغرب کے پہاڑوں سے اترے یا تھل کے صحراﺅں سے نمودار ہو۔ کراچی کے ساحلوں پر جل پری نمودار ہو یا سانگھڑ سے آنے والا جام جہاں نما۔ سیاست کے کھیل کو آئین کی کتاب سے جدا کر دیا گیا تو ہم نے کھیل کے نئے قواعد طے کر لیے۔ صورت یہ ہے کہ چار عشروں سے کسی سیاسی جماعت نے اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت نہیں کی۔ ہم نے سیاست ہی کو ایک مردود اصطلاح ٹھہرایا ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ ہم سچے ہیں ۔ ہمارے مخالف سب جھوٹے، چور اور ڈاکو ہیں۔ اس سیاسی رجحان کے پس پشت پاکستان کے وہ چودہ کروڑ افراد ہیں جو 1982 کے بعد پیدا ہوئے۔ انہیں دلیل کی ثقافت سے تعلق نہیں۔ بیان کی تصدیق کا یارا نہیں۔ ان سے اتنی معمولی بات پر بحث کرنا بھی کار دارد ہے کہ میڈلن البرائٹ 1992 میں امریکا کی وزیر خارجہ تھیں یا 1997 میں۔ البتہ روٹی بیٹی کی بات ہو تو ہمارا کمال دیکھئے گا۔ کسی کی عزت اچھالنا ہے تو ہم سا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا۔ ہمیں غیر مصدقہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کیونکہ ہم کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔ ہم تو تھرڈ امپائر کی انگلی کے منتظر ہیں۔ کوئی پوچھ لے کہ تھرڈ امپائر کون ہے تو گھونسا تان لیتے ہیں۔
دیکھیئے! سیاسی مکالمے میں لب و لہجہ، سوچ اور ایقان کی پختگی میں راست تعلق ہوتا ہے۔ ہماری زبان میں کچا پن اس لیے ہے کہ ہماری سوچ میں وسعت نہیں۔ ہم اعتماد کی کمی کو لہجے کی گھن گرج سے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک نقطے کے بیش و کم ہونے کے مضمرات نہیں سمجھتے، اس لیے بے نقط سناتے ہیں۔ سید انشا یاد آ گئے۔ ’صاحب کے ہزلہ پن سے ہر ایک کو گلہ ہے، میں جو نباہتا ہوں میرا ہی حوصلہ ہے‘۔ کہنا صرف یہ تھا کہ کچی اور پکی سرکار، دیدہ اور نادیدہ حکومت نیز سچ اور جھوٹ کے مفروضہ ملاکھڑے کے دن تیزی سے گزر رہے ہیں ۔ آئین کی کتاب کی طرف چلئے۔ ہم سب میں بہت سی خامیاں ہیں اور آپ بھی کچھ ایسے دودھ کے دھلے نہیں۔ ’میں میر، کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے‘….
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ