ملتان کے گورنمنٹ علمدار حسین اسلامیہ کالج میں ان کا لیکچر کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل تھا۔ انہوں نے ملتان کے اولیائے کرام کی سوانح اور تعلیمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جس کا مرکزی خیال تصوف ٹھہرا۔ ڈاکٹر اسلم انصاری اور علامہ عتیق فکری کی موجودگی میں اس موضوع پر گفتگو کرنا بہت مشکل تھا لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ ملتان سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں اصحاب بار بار ڈاکٹر صاحبہ کو داد دے رہے تھے۔ اُن کی گفتگو کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حاضرینِ محفل اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ وہ سب ڈاکٹر این میری شمل کے رخصت کے منتظر تھے جبکہ ڈاکٹر صاحبہ بھی اہلِ ملتان سے چائے کی میز پر مزید مکالمہ کرنا چاہتی تھیں۔ ان سارے مناظر کو مَیں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ سبطین رضا لودھی نے ڈاکٹر این میری شمل کی تقریب کا اہتمام کر کے ہمیں ایک ایسی عالمہ سے ملوایا جس سے ملاقات کا ہم سوچ تو سکتے تھے لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکتے تھے۔ کہ ایک طالب علم کے پاس اُن دنوں اتنے وسائل کہاں تھے کہ وہ ڈاکٹر این میری شمل کا لیکچر سننے کے لیے ملتان سے باہر جائے۔
1958ءسے لے کر 1998ءتک وہ پاکستان میں 35 مرتبہ تشریف لائیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ بتایا کہ 1958ءمیں جب پہلی مرتبہ لاہور آئی تھیں تو انہیں کہا گیا کہ وہ اقبال کے شہر میں اقبالیات کے بارے میں لیکچر دیں۔ اس لیکچر کو سننے والوں میں جناب ڈاکٹر جاوید اقبال بھی موجود تھے اور وہ علامہ اقبال کے بیٹے کو وہاں دیکھ کر پریشان ہو گئیں کہ اُن کے سامنے علامہ اقبال پر کس طریقے سے بات کر سکیں گی۔ اور یہ بات بھی انہی کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر کو بیرونی دنیا میں جتنا ڈاکٹر این میری شمل نے متعارف کروایا اتنا پاکستان کے کسی بھی ادیب یا دانشور نے نہیں کرایا۔ علامہ اقبال کے بارے میں اُن کی پہلی کتاب 1963ءمیں شائع ہوئی جس کا اُردو ترجمہ پاکستان میں ڈاکٹر محمد ریاض نے ”شہپرِ جبریل“ کے نام سے کیا۔ انہوں نے اقبالیات پر جہاں بےشمار مقالات تحریر کیے، اُن کے کلام کا ترجمہ کیا وہاں انہوں نے کم و بیش علامہ اقبال پر دس کتابیں بھی تحریر کیں۔
پاکستان کے صوفیاءکے ساتھ اُن کی محبت بہت زیادہ تھی۔ شاہ عبدللطیف بھٹائی ہوں یا مست توکلی، شہباز قلندر ہوں یا حضرت شاہ شمس سبزواری، حضرت بہاءالدین زکریا کی تعلیمات سے لے کر حضرت شاہ رکن عالم کی سوانح اُن کے موضوعات ہوا کرتے تھے۔ اور وہ یہ کہا کرتی تھی کہ ان سب بزرگوں سے میری محبت مولانا روم کی وجہ سے ہے جو میرے مرشد ہیں۔ مولانا روم پر اُن کی کتابوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے لیکن اُن کی ایک کتاب ”The Triumphal Sun: A Study of the Works of Maulana Jalaluddin Rumi“ نے اُنہیں پوری دنیا میں مقبول کر دیا۔ اس کتاب میں انہوں نے مولانا روم کے نظریات اور شاعری کو جس انداز سے دیکھا وہ لوگوں کو بہت پسند آیا۔ مغرب میں مولانا جلال الدین رومی کو متعارف کرانے والی یہ پہلی کتاب ٹھہری جس کا اسلوب اتنا رواں دواں تھا کہ ہر جگہ پر اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس کتاب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یورپی اور دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ کیا گیا۔ انہوں نے جیسے جیسے مولانا جلال الدین رومی کو پڑھا تو ویسے ہی وہ اُن پر نت نئے اسلوب اپنا کر لکھتی رہیں۔ جب وہ مولانا روم پر لکھتیں تو یہ کہتیں
”مَیں جب انقرہ سے قونیا کی طرف جانے والی سڑک پر سفر کرتی تھی تو مجھے 1950ءکے عشرے کا اناطولیہ کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب اُس علاقے میں جدید عمارتوں کی تعمیر تو بہت دور کی بات سڑکیں بھی اتنی بہتر نہیں تھیں۔ اور میرا اُٹھنے والا ہر قدم اُس روحانی زیارت کو قریب کر دیتا تھا کہ جس کے تحت مَیں یہ سوچا کرتی تھی کہ میرے سفر کے دوران گزرنے والے تمام پتھر، سارے درخت، پرندے اپنے اپنے انداز میں ایک دوسرے کے لیے مولانا کا پیغام پڑھتے ہیں۔ اور ہر دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان اس سے مسخر ہوتے ہیں۔“
1926ءمیں جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے ارفرٹ میں پیدا ہونے والے این میری شمل کا گھرانا اپنے علاقے کا متوسط گھرانا کہلاتا تھا۔ گڑیاں کھیلنے کی عمر میں این میری شمل نے اپنے ہاتھوں میں کتابوں سے پیار کیا۔ پرائمری سکول سے ہائی سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہیں مشرقی دنیا سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ وہ خود یہ کہا کرتی تھیں کہ مجھے نہیں معلوم میرے وجود میں اسلامی خطے سے محبت کہاں آ گئی کہ میرے والدین نے کبھی بھی مشرقی علوم یا اسلامی تاریخ میں دلچسپی نہیں لی۔ یہ خدا کی طرف سے میرے لیے ایک انعام تھا البتہ جرمنی میں ایک پرانی روایت موجود تھی کہ یہاں کے لوگ مشرقی علوم سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ جیسے جیسے این میری شمل بچپن سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھیں انہی دنوں جرمن میں نازی عناصر نمایاں ہو رہے تھے۔ اور ان کے اثرات علمی، تہذیبی اور مذہبی حلقوں تک بھی پہنچ رہے تھے۔ ایسے ماحول میں جب شمل نے اسلامی تہذیب اور مشرقی علوم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کو پڑھنا چاہا تو والدین نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ایک اُستاد کا انتظام کر دیا۔ یہیں سے انہوں نے اسلامی تہذیب اور مشرقی علوم کو سمجھنے کا آغاز کیا۔ برلن یونیورسٹی، انقرہ یونیورسٹی ترکی، ہاورڈ یونیورسٹی میں مختلف ادوار میں پڑھنے اور پڑھانے کے بعد انہیں 1995ءمیں بون یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر بنا دیا گیا۔ پاکستان کے ساتھ ان کا عشق اتنا زیادہ تھا کہ انہیں جب بھی کبھی یہاں آنے کا کہا جاتا تو وہ فوراً تیار ہو جاتیں۔
اس کالم کو تحریر کرنے سے پہلے مَیں نے اپنی یادوں کو دہرانے کے لیے سبطین رضا لودھی سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹر این میری شمل اپنی زندگی میں تین مرتبہ ملتان تشریف لائیں۔ مَیں نے سبطین رضا لودھی سے کہا مجھے تو ان کا صرف ایک مرتبہ کا ملتان آنا یاد ہے۔ یہ باقی دو بار کب تشریف لائیں جس پر وہ کہنے لگا کہ جن دنوں وہ دوسری اور تیسری مرتبہ ملتان آئیں تھیں اُن دنوں ہم پاکستان میں نہیں تھے لیکن وہ ہر مرتبہ ڈاکٹر غضنفر مہدی کے کہنے پر ملتان آتی رہیں۔ مَیں نے ڈاکٹر این میری شمل کے بارے میں بات کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کرنا چاہا تو یہ سوچ کر اُنہیں فون نہ کیا کہ آج کل ان کی طبیعت ناساز ہے تو مجھے قاضی جاوید کا لکھا ہوا ایک واقعہ یاد آ گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ”ڈاکٹر این میری شمل نے آمد کے پہلے روز سہ پہر کے وقت مجھ سے کہا کیا ہم داتا صاحب کے مزار پر جا سکتے ہیں، کیوں نہیں مَیں نے جواب دیا۔ مزار یہاں سے زیادہ دور نہیں ہم کل شام کو وہاں چلیں گے۔ ڈاکٹر صاحبہ مسکرائیں اور کہنے لگیں مسٹر قاضی ’کل‘ یہ نہ بھولیے کہ آج جمعرات ہے۔“
بس مجھے اپنے پڑھنے والوں کو یہی بتانا تھا کہ 1926ءمیں جرمنی کے گھرانے میں پیدا ہونے والی ایک عورت نے مشرقی نظریات کو اس انداز سے اوڑھا کہ اسے معلوم تھا کہ اولیاءاﷲ کے مزارات پر جمعرات کو حاضری دینے سے من کی مراد مل سکتی ہے اور یہ بات ہمارے ہاں آج بھی لاکھوں لوگوں کو معلوم نہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ