اُردو کے نامور شاعر اور ہمارے مہربان محسن بھوپالی مرحوم نے جب درج ذیل شعر کہا تھا
یونہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
تو کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ شعر ہم ملک کی نامور گلوکارہ گلبہار بانو کی بیماری پر یاد کریں گے۔ وجہ یہ ہے کہ 23 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر شکیل انجم لاشاری نے ایک خبر فائل کی ”چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری“ جیسی خوبصورت غزل اور سرائیکی لوک گیت گا کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی گلوکارہ کو بہاولپور میں ان کے آبائی گاؤں میں یرغمال بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ تھانہ سمہ سٹہ پولیس نے بہاولپور کے نواحی قصبے خانقاہ شریف میں ان کے گھر چھاپہ مار کر گلبہار بانو کو حفاظتی تحویل میں لے کر تھانے منتقل کر دیا۔ جبکہ ان کے بھائی ایاز افضل کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ گلبہار بانو گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ محرم الحرام میں اپنے شوہر کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے خانقاہ شریف بہاولپور گئیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں جا کر جائیداد کے تنازعے پر گلبہار بانو کو بھائی نے گھر میں قید کر لیا جس پر تھانہ سمہ سٹہ کے ایس ایچ او افضال نے بتایا کہ ہمیں گلبہار بانو کو حبسِ بے جا رکھنے کی اطلاع ملی جس پر ان کو بازیاب کرایا گیا۔ ایس ایچ او کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت گلبہار بانو کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ جبکہ ان کے بھائی ایاز افضل نے پولیس کو بیان دیا کہ میری بہن اس نفسیاتی مریضہ بن چکی ہیں جس کا علاج ہونا ضروری ہے۔
جب گلبہار بانو کے بارے میں یہ خبر اگلے دن کے اخبارات میں شائع ہوئی تو بہاولپور کے نامور قانون دان محسن رضا جوئیہ کی درخواست پر سیشن جج بہاولپور نے سمہ سٹہ پولیس کو حکم دیا کہ گلبہار بانو کو 26 اکتوبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ امتیاز حسین لکھویرا کے بقول گلبہار بانو کی جائیداد ہتھیانے کے لیے سوتیلے بھائی نے نشہ آور ٹیکے لگا کر اسے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ 26 اکتوبر کو جب گلبہار بانو کو عدالتِ عالیہ میں پیش کیا گیا تو انہوں نے میڈیکل بورڈ اور حبس بے جا کی تحقیق کے لیے کمیٹی بنانے کا فیصلہ لیا۔ سیشن جج بہاولپور چوہدری محمد طارق جاوید نے سماعت مکمل کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکارہ کا سرکاری طور پر علاج کروایا جائے اور گلبہار بانو کو اُن کی خواہش پر دوسرے بھائی کی تحویل میں دے دیا گیا۔
قارئین کرام گلبہار بانو کا تعلق خانقاہ شریف سے ہے جہاں پر اس سے قبل معروف گلوکارہ پروین نذر نے خواجہ غلام فرید کے کلام کو خوبصورت انداز میں گا کر شہرت حاصل کی تھی۔ ایک ہی شہر سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان دونوں گلوکاراؤں نے اپنے اپنے زمانے میں فن کے ذریعے حکمرانی کی۔ خاص طور پر خوش شکل و خوش گلو گلبہار بانو اسم بامسمیٰ ٹھہریں۔ انہوں نے جب ریڈیو پاکستان بہاولپور سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تو اُن کی آواز کو جب ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل سیّد انور محمود نے سنا تو ان کو انہوں نے نہ صرف اہم سرکاری تقریبات میں مدعو کیا بلکہ صدارتی ایوارڈ بھی دلوایا۔ اسی دوران گلبہار بانو نے محسن بھوپالی کی یہ غزل گائی:
چاہت میں کیا دُنیاداری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری
مَیں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہربلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری
مدت گزری اِک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسن
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری
اس غزل نے محسن بھوپالی اور گلبہار بانو کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس غزل کی گائیکی اتنی خوبصورت ہے کہ آج بھی اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ اس سے پہلے پاکستان کے ثقافتی منظرنامے میں روحی بانو کے بارے میں اسی قسم کی خبریں پڑھنے کو مل رہی تھیں۔ روحی بانو نجانے آج کل کس حال میں ہیں البتہ گلبہار بانو کے بھائی نے یہ ”کرم“ کیا کہ اسے دربدر کرنے کی بجائے گھر میں نشے کے انجکشن لگا کر دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا۔ گلبہار بانو کے ساتھ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ جس خاوند کے درجات کی بلندی کے لیے وہ فاتحہ خوانی کرنے کے لیے کراچی سے خانقاہ شریف آئی اس نے بھی کئی مرتبہ اس کے ساتھ ایسا ہی ظلم روا رکھا۔ مشرقی عورت کا یہ المیہ ہے کہ وہ ساری زندگی جس چکی میں پستی ہے پھر بھی اس اذیت کا اظہار نہیں کرتی۔ اس کا خیال تھا کہ خاوند کی موت کے بعد اس کی زندگی میں کچھ اچھے لمحے آئیں گے لیکن ایک بھائی نے اسے اچھے لمحوں کے خواب دیکھنے سے بھی محروم کر دیا۔ گلبہار بانو کی گائی ہوئی مشہورِ زمانہ غزل جب ٹیلیویژن پر نشر ہوتی ہے تو اس کی بڑی آنکھیں اور خوبصورت چہرہ دلوں پر حکمرانی کرتا ہے لیکن اب جو سوشل میڈیا پر اس کی تازہ ویڈیو دیکھنے کو ملی تو وہ پاگل پن کی حالت میں لوگوں کو دھتکار رہی ہے۔ یعنی
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ