زندگی میں کچھ شخصیات ایسی آتی ہیں جن کا براہِ راست آپ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اُن کی موجودگی سے آپ کو یہ احساس ضرور رہتا ہے کہ اُن کی وجہ سے آپ کی عزت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بی بی سی ٹیلیویژن اسلام آباد بیورو کے وجدان نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہنے لگا کہ مَیں نے ملتان پر کچھ دستاویزی فلمیں بنانی ہیں مجھے آپ کا تعاون درکار ہے۔ مَیں نے کہا آپ حکم کریں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے مَیں محلہ جھِک دہلی گیٹ ملتان کی اُس معذور لڑکی سے ملنا چاہتا ہوں جو اپنے ہاتھوں سے محروم ہے اور اپنے معمولات اپنے پیروں کی انگلیوں سے ادا کرتی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ یہ لڑکی چوک خونی برج پر موجود ایک جنرل سٹور کے مالک کی بیٹی ہے۔ جس کی معذوری کا تذکرہ گاہے گاہے ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں۔ مَیں نے وجدان سے وعدہ کیا کہ اس لڑکی سے آپ کی لازمی ملاقات کا اہتمام کروا دوں گا۔ وجدان نے کہا وہ ملتان کے کُھسوں پر بھی فلم بنانا چاہتے ہیں۔ جس پر مَیں نے اُن کو چوک گھنٹہ گھر کی مارکیٹ کا بتایا۔ آخر میں وجدان نے کہا کہ مَیں اُس شخصیت سے بھی ملنا چاہتا ہوں جس نے اپنے گھر میں محلے کے بچے اور بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینا شروع کی، بچوں کو اس تعلیم کی طرف راغب رکھنے کے لیے گھر میں حلوہ بنا کر کھلانا شروع کیا تو وہ حلوہ اتنا مقبول ہوا کہ بعد میں اُس شخصیت نے اپنے سسر کے ساتھ مل کے ملتانی سوہن حلوے کی ملتان میں بنیاد رکھی۔ مَیں نے وجدان کی بات سنی اور حیران ہو گیا کہ ملتان میں رہتے ہوئے مجھے حافظ کا ملتانی سوہن حلوے کے اس پس منظر کا علم نہ تھا۔ وجدان نے یہ بات مجھ سے دسمبر 2016ءکے آخری ہفتے میں کی تو مَیں نے اس کی دستاویزی فلموں کی تیاری کے لیے مختلف افراد سے رابطہ کیا۔ سوہن حلوے والی فلم کے لیے جب مَیں نے حافظ حبیب الرحمن کے بیٹے خلیل احمد سے ذکر کیا تو کہنے لگے آپ کو تو معلوم ہے کہ حافظ صاحب اب پیرانہ سالی کی وجہ سے اپنی دکان پر کم ہی آتے ہیں لیکن مَیں کوشش کرتا ہوں کہ وہ بی بی سی والوں کو انٹرویو دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ابھی میری اس سلسلے میں اُن سے بات چیت چل رہی تھی کہ معلوم ہوا کہ حافظ صاحب کی طبیعت خراب ہے اور وہ کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ میں داخل ہیں۔ مَیں اُن کی عیادت کے لیے گیا تو دیکھ کر خوش ہو گئے اور کہنے لگے شکر ہے شاکر کو بھی ہم سے ملاقات کا وقت مل گیا۔ مَیں مسکرا دیا۔ انہوں نے میری مسکراہٹ کو دیکھے بغیر اپنے بیٹے خلیل احمد سے کہا کہ شاکر صاحب کے لیے فروٹ لاؤ۔ مَیں نے کہا آپ لوگوں کو حلوہ کھلاتے ہیں اور میری فروٹ سے تواضع کر رہے ہیں۔ خلیل مسکرا کر کہنے لگا شاکر بھائی آپ کو حافظ صاحب کا پتہ نہیں ہے یہ صبح کارخانے سے درجنوں سوہن حلوے کے ڈبے منگواتے ہیں، ہر ڈاکٹر، نرس اور دیگر سٹاف جب چھٹی کر کے وارڈ سے گھر جا رہا ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں یہ ڈبہ پکڑا دیتے ہیں اور کہتے ہیں مَیں ڈاکٹروں کی دواؤں سے کہاں ٹھیک ہوتا ہوں میرے ڈاکٹر تو وہ ہیں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں اور مجھے بے لوث دُعائیں دیتے ہیں۔ ورنہ جو شخص گزشتہ کئی عشروں سے شوگر کا مریض ہو وہ اب تک کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ اور پھر خلیل احمد نے اُن کے سرہانے میز کی طرف اشارہ کیا اور کہا حافظ صاحب نے یہاں پر بھی سوہن حلوے کی مفت دکان کھول رکھی ہے۔ مَیں یہ سب کچھ دیکھ کے مسکراتا رہا اور ملتان کی اُس تہذیبی اور سماجی شخصیت کو دیکھ کے دُعائیں کرتا رہا کہ اﷲ انہیں تادیر سلامت رکھے کہ ان کی وجہ سے ملتان والوں کا نام پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ یادش بخیر نشتر ہسپتال میں ڈاکٹر پروفیسر عنایت اﷲ، ڈاکٹر سیّد الطاف باقر اور ڈاکٹر سلمیٰ تنویر نے جگر کی بیماریوں کے متعلق عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے پوری دنیا سے ماہر ڈاکٹر ملتان تشریف لائے۔ کانفرنس کے میزبانوں نے مجھے حکم دیا کہ اُن کے مہمان ملتان کی سیر کرنا چاہتے ہیں اور مَیں اُن کے لیے گائیڈ کے طور پر کام کروں۔ جس دن کانفرنس کے مہمان ڈاکٹروں نے ملتان کی سیر کرنا تھی اُسی دن نشتر کالج و ہسپتال کے چیئرمین بورڈ آف مینجمنٹ خواجہ جلال الدین رومی نے مجھے فون کیا اور کہا شاکر بھائی ان ڈاکٹر صاحبان کو پورا ملتان تو لازمی دکھائیے گا لیکن اس دوران اُن کی تواضع ملتانی سوہن حلوے سے لازمی کیجئے گا۔ مَیں نے رومی صاحب کی ہدایت کو اپنے پلے باندھا اور ڈاکٹروں کے ایک بڑے گروپ کو لے کر ملتان دکھانا شروع کر دیا۔ چوک دہلی گیٹ ملتان پر ہمارا یہ قافلہ بس سے اُترا اور مَیں سارے قافلے کو گلی کمنگراں والی سے گزار کر چوک حسین آگاہی کی طرف روانہ ہوا تو پورے قافلے کی ایک ہی فرمائش تھی کہ حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ ہم نے تازہ کھانا ہے۔ کچھ دیر میں ہم حافظ حبیب الرحمن کے پاس موجود تھے۔ وہ مجھے اور ڈاکٹروں کے اہلِ خانہ کو دیکھ کر خوش ہو گئے۔ مَیں نے کہا حافظ صاحب یہ آپ کے حلوے کی شہرت سن کر آئے ہیں۔ ان کی تواضع تازہ حلوے سے کی جائے۔ کہنے لگے ان کو بٹھائیں اور ابھی ان کے لیے گرما گرم حلوہ منگوائے دیتا ہوں۔ ہماری وہ نشست تقریباً آدھا گھنٹہ رہی اور پوری دنیا کے ڈاکٹروں نے اُن سے حلوے میں استعمال ہونے والی اشیا اور تیاری کے مراحل پوچھے۔ وہ اپنے میٹھے لہجے میں بتاتے رہے کہ یہ ملتانی سوہن حلوہ کیسے تیار ہوتا ہے۔ وقت گزرتا رہا اور شہر میں کہیں نہ کہیں اُن سے ملاقات ہو جاتی۔ جب کبھی بہت دن گزر جاتے تو اُن کا فون آتا اور کہتے، لگتا ہے آپ بہت مصروف ہو گئے ہیں۔ اُن کی یہ بات سُن کے مَیں اُن سے ملاقات کے لیے پہنچ جاتا کہ اُن کے پاس بیٹھ کر مجھے اچھا لگتا کہ پرانے وقتوں کی ایک ایسی شخصیت جس نے ملتان کو اپنی آنکھوں سے آباد ہوتے دیکھا اور اب بھی پھیلتے ہوئے ملتان کو دیکھ کر یہ کہتے کہ جو لطف اندرونِ شہر رہنے کا ہے وہ بیرونِ شہر کہاں۔ میرا اُن سے گاہے گاہے اس اعتبار سے غائبانہ رابطہ رہتا کہ مجھے کہیں نہ کہیں ملتانی سوہن حلوہ بھجوانا ہوتا ہے جس کے لیے مجھے انہی کی دکان سے خریداری کرنا ہوتی تھی۔ 28 جنوری 2017ء کی شام جب مَیں ملتان ٹی ہاؤس میں برادرم سجاد جہانیہ اور بڑے بھائی آصف خان کھیتران کے اعزاز میں سجائی گئی تقریب میں پہنچا تو حافظ صاحب کے چھوٹے بیٹے خلیل احمد کا فون آیا آواز میں پریشانی نمایاں تھی، کہنے لگے شاکر بھائی کارڈیالوجی ہسپتال پہنچیں حافظ صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ مَیں دوستوں کو بتائے بغیر وہاں سے روانہ ہوا اور پھر ہسپتال میں حافظ صاحب کو اُکھڑی ہوئی سانسوں کے ساتھ دیکھا۔ خلیل بھائی نے نم آنکھوں سے کہا آپ حافظ صاحب کا چیک اپ کروائیں مجھ سے اُن کی یہ حالت نہیں دیکھی جا رہی۔ مَیں نے ڈاکٹروں کے آگے اُن کی تازہ ECG رکھی اور ڈاکٹروں نے فوراً کہا ان کو آکسیجن لگائی جائے۔ ابھی آکسیجن ماسک ان کے چہرے پر نہیں لگایا تھا کہ اُن کی سانس کی ڈوری دیکھتے ہی دیکھتے میرے سامنے ٹوٹ گئی۔ مَیں نے ڈاکٹروں کو بلایا اور کہا دیکھیں یہ کیا ہو رہا ہے؟ ڈاکٹروں نے اُن کو بیڈ پر لٹایا اور انہوں نے سی پی سٹارٹ کر دیا۔ دو ڈاکٹروں نے اُن کی جاتی ہوئی سانس کو بحال کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کی نبض ڈوب چکی تھی لیکن مانیٹر پر اُن کے دل کی دھڑکن ابھی بھی نارمل انسانوں جیسی تھی۔ ڈاکٹروں نے اُن کو مصنوعی تنفس دینا شروع کیا۔ مَیں اس صورتحال سے اُن کے بیٹے کو آگاہ کرنے ایمرجنسی سے باہر آیا خلیل اور وحید کو اکٹھا کیا، بتایا کہ اب حافظ صاحب کی نبض ڈوب گئی ہے لیکن اُن کے دل کی دھڑکن موجود ہے جس پر دونوں نے کہا اس کا مطلب ہے ابھی ہم پُراُمید رہیں۔ میرے پاس اُن کی اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مَیں ایک مرتبہ پھر تیزی سے اُس کمرے کی طرف گیا جہاں پر حافظ صاحب زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ نبض جو رات آٹھ بجے ڈوب گئی اس کے دل کی دھڑکن نے سوا نو بجے ساتھ چھوڑا۔ جب میرے سامنے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اُن کے سینے کے اوپر دباؤ ڈال کر دھڑکن بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو مَیں سوچ رہا تھا کہ نبض ڈوب جانے کے بعد ڈاکٹر ز اپنے ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں یہ حافظ صاحب کے سینے میں موجود قرآن پاک کا معجزہ تھا کہ دل کی دھڑکن چلتی رہی اور پھر وہ لمحہ آ گیا کہ مَیں نے خلیل احمد کو گلے لگایا اور کہا اس مرتبہ حافظ صاحب ہمارے ساتھ گاڑی پر نہیں جائیں گے اُن کے لیے ایمبولینس منگوائی جائے۔ رات ساڑھے نو بجے حافظ صاحب کی میت کو جب ہم گھر لے جا رہے تھے تو کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ملتان کی ایک ایسی نامور شخصیت دم توڑ گئی جس نے ملتان کی شہرت اور عزت میں اضافہ کیا اور پھر رات گئے رضی الدین رضی نے اپنے فیس بک پر لکھا ”ہمیں بہت سے حافظ اور حلوے اچھے نہیں لگتے مگر حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ تو ہماری پہچان ہے۔“ اُن کی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اُن کے بنائے ہوئے حلوے نے پوری دنیا میں ملتان کی پہچان کروائی۔ خدا اُن کے درجات بلند کرے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)