آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
آواز کے خوبصورت رشتے کو جس انداز میں منیر نیازی نے بیان کیا وہ ہمارے ہاں کم ہی کسی شاعر نے اس طرح لکھا ہے۔ آواز کیا ہے؟ اس کو سننے کے بعد آپ کے ذہن میں کیا خیال آتا ہے کوئی آواز سنیں تو ہم سب سے پہلے خیالات میں اس کی تصویر بناتے ہیں۔ وہ تصویر کبھی بہار کے موسم میں پھولوں کے کھِلنے کی بنتی ہے تو کبھی وہ تصویر خزاں کے دنوں میں پت جھڑ کی عکاسی کرتی ہے۔ دریا کے چلتے پانی پر بھی اس کی آواز کی تصویر پینٹ کرتی ہے تو کبھی آواز اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔ کبھی وہی آواز رات گئے تصور میں لوری کا سماں بھی دیتی ہے۔ اسی طرح قدموں کی چاپ اگر محبوب کی ہے تو وہ چاپ بھی تادیر محب کو مسحور کیے رکھتی ہے۔
آواز کبھی آنکھوں کو نم کرتی ہے تو وہی آواز آپ کے چہرے پر مسکان بکھیر سکتی ہے۔ آواز کبھی چراغ سے چراغ روشن کرتی ہے تو کبھی آواز شب کو صبح کا پیام دیتی ہے۔ اسی لیے تو سیف الدین سیف نے کہا تھا:
سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
یہ ضروری نہیں کہ ہر نئی آواز آپ کو نیا ذائقہ بھی دے۔ ہر گیت کانوں کو بھلا بھی نہیں لگتا کہ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ دیپک راگ کا گانے والا کون ہے؟ اسی طرح جب خواجہ غلام فرید کی کافی پٹھانے خان گاتا ہے تو اس کی آواز آسمان تک حکمرانی کرتی ہے۔ عابدہ پروین ہو یا حامد علی بیلا، ریشماں کی صحرا میں گونجتی آواز ہو یا ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز کا جہان۔ بابا فرید کا کلام ہو یا سلطان باہو کی ہُو۔ بلھے شاہ کی کافی پر ناچ ناچ کر جب یار کو منانا ہو، یہ سب ہی تو آواز کے عاشق ہیں۔ آنکھ کی وسعتوں کو دیکھنا ہو تو اپنے دل میں محبوب کے دل کی دھک دھک کو محسوس کرنا بھی زندگی کے آگے بڑھنے کی علامت ہے۔ یہ سب آواز کا حسن ہی تو ہے جو نہ تو شکستہ گھروں کے دریچوں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو۔ آواز کا سفر جاری رہتا ہے جب تک کوئی سننے والا باقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہناز ہو یا شاہدہ پروین، مہدی حسن ہو یا اے نیئر، یہ سب مر کر بھی زندہ ہیں۔ ان کی آواز کو بھلا کب موت آئی ہے۔ ان کے سُر زندہ ہیں لَے باقی ہے ان کی آوازوں میں مِلن رُت کے پھولوں کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔ آواز وہ پرندہ ہے جو ساتوں آسمانوں پر جا کر بھی زمین پر اپنی نظر رکھتاہے۔ آواز کبھی آنسو تو کبھی قہقہہ، آواز کبھی خواب کبھی تعبیر، آواز کبھی بہار تو کبھی برسات، آواز انتظار بھی ہے اور اقرار بھی۔ آواز دُعا ہے تو کہیں دوا۔ آواز شور میں خاموشی اور خاموشی میں شور۔ آواز کے چہرے پر جھریاں نہیں ہوتیں۔ آواز تو محبوب کے چہرے کی مانند ہے جو زندگی کے رنگ میں یاد کی لَے لے کر رقصِ درویش کرتی ہے۔ آواز سر پھری ہوا ہے جو ہر گھر سے گزرتی تو ہے لیکن اس کا ڈیرا ہر جگہ نہیں ہوتا۔ آواز فراق کا درد ہے تو کہیں وصال کا گیت۔ آواز زندگی کا تعویذ ہے تو کہیں اُداسی کی شال۔ آواز کسی کو برسوں کی جدائی دیتی ہے تو کسی کے لیے آواز ملن رُت کا پیغام ہے۔ آواز ایک خالی پنجرہ ہے جس میں مینا کی تصویر ہے جو خاموشی اوڑھ کر اُڑ گئی۔
چولستان میں چلتی ہوئی ہوا کے شور کی آواز کسی کو بے چین کرتی ہے تو کوئی چولستان کے صحرا میں کھڑا ہو کر آوازیں دیتا ہے۔ تنہائی، جدائی، انتظار سے مجھے کچھ نہیں لینا مجھے روشنی میں ملن رُت کے لمحے چاہیے اور پھر اچانک کوئی اس کو تنہائی کا قصہ سنانے بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی اس کی آواز بادشاہ اور ملکہ کی کہانی سناتی ہے کبھی شہزادے اور شہزادی کی داستان۔ آواز اپنی ویران آنکھوں سے انتظار کی دہلیز پر کھڑے ہو کر کہتی ہے کہ میرے خوابوں کو دیمک نہ لگا ؤ کہ آواز کبھی لائف لائن ہوتی تو کبھی لائف سیونگ ڈرگ کی مانند۔ آواز کبھی بوڑھی نہیں ہوتی اور نہ اس پر جھریاں اپنا عکس چھوڑتی ہیں۔ آواز کہیں پر برسات کی طراح اور کہیں رات کی رانی کی خوشبو کا پیراہن لیے آتی ہے۔ آواز کہیں پر سیکنڈ کی سوئیوں کی آواز کی تسبیح کرتی ہے تو کہیں پر اسی آواز کو کئی منٹ، گھنٹے، دن، ہفتے، مہینے اور سال بھی بھول جاتے ہیں۔ کہیں آواز موسموں کو ساتھ لے کر چلتی ہے تو کہیں یہ آواز کتاب کے صفحہ پر دل کے ساز چھیڑ کر بیٹھی ہوتی ہے۔ کہیں پر آواز چھم چھم برستی ہے تو کہیں پر آواز بِن برسے گزر جاتی ہے۔ آواز کہیں پر خوشی تو کہیںپر بین کے نوحے سناتی ہے۔ آواز کا سفر کب سے ہے اس کے بارے میں اس شخص نے تحقیق کی جس کا نام ہاکنگ تھا۔ جس کی اپنی آواز کسی نے نہیں سنی لیکن اس نے ہمیں بتایا کہ آواز کا پہیہ بچے کے پیدا ہونے کے رونے سے شروع ہوتا ہے اور آخر سفر تب بھی جاری رہتا ہے جب وہ خود تو مر گیا ہوتا ہے لیکن اس کے اردگر بَین کرنے والے موت کے تمبو پر رونق لگائے رکھتے ہیں کہ:
بین کرتی عورتیں
رونقیں ہیں موت کی
آواز کبھی سایہ ہے تو کبھی دھوپ، اکثر سوچتا ہوں کہ اگر آواز کا ساتھ نہ ہوتا تو ہم سب لوگ کتنے بے رنگ ہوتے۔ ہمارے رنگین کھڑے بھی سفید رہتے۔ اُجلے منظر بھی دھندلے رہتے۔ آواز تو وہ ہارٹ بیٹ ہے جس کو دیکھنے کے بعد ہرمسیحا کہتا ہے کہ
خیال اتنے ہیں دل میں سمجھ نہیں آتے
سمجھے بھی آئیں اگر تو کہے نہیں جاتے
وہ سامنے بھی جو ہوتا تو اس سے کیا کہتے
بس اس کی باتیں ہی سنتے ہم اور چپ رہتے
نتیجہ یہ ہے کہ آواز کا طلسم کبھی طے نہ ہو پائے گا۔ البتہ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں میں چند آوازیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آواز جھرنا ہے اور قوس و قزح کے رنگ۔ آواز میں زندگی ہے اور اسی میںموت پوشیدہ ہے۔ کسی کو شب کے آتے ہی شب بخیر کہنے ہی میں موت ہے تو صبح سویرے آواز سنانے کا تحفہ اسے زندگی دیتا ہے۔ آواز دُکھ اور سُکھ کے درمیان ایک وقفہ وصال ہے جو خیالات کے ہجوم میں گم ہو کر بھی وصل کے لمحے تلاش کر لیتا ہے کسی بھی آواز کی پسندیدگی اکثر کمال پر لے جاتی ہے۔ اشفاق احمد اپنی کتاب ”کھیل تماشا“ میں لکھتے ہیں ”تم بانسری کیوں بجانا چاہتے ہو؟ اس لیے کہ بانسری کی آواز مجھے اچھی لکتی ہے۔ اگر تم کو بانسری سے بھی اچھی کوئی اور آواز مل گئی تو بانسری چھوڑ دو گے؟ اشفاق احمد کے اس سوال کا مخاطب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ پھر کہنے لگے اگر اپنے محبوب سے کوئی اچھا چہرہ نظر آ گیا تو محبوب چھوڑ دو گے؟“
اشفاق احمد کے سوالات کا جواب ہم دیتے ہیں کہ محبوب کا چہرہ ہی سب سے اچھا ہوتا ہے اسی لیے محبوب سے زیادہ کوئی نہیں ہوتا۔ اور محبوب کی آواز بھی سب سے خوبصورت آواز ہوتی ہے کہ محبوب کی آواز میں طلسم ہوتا ہے۔ صحرا کی وسعت، جنگل کا درد، دریا کی روانی، قدیم معبدوں کی گونج اور گردشِ دوراں رکنے کا احساس جا گزیں رہتا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ