ذوالفقار علی بھٹو نے آج سے پچاس برس پہلے نومبر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ہو گی تو انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ وہ پارٹی نہیں ایک عقیدے کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو قائم ہوئے پچاس سال ہوگئے اور آج بھی کہیں نہ کہیں پر پارٹی کا پرچم لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں اس پارٹی سے وابستہ بہت سی کہانیاں پڑھنے اور سننے کو ملیں۔ کبھی اُن کو پڑھ کے آنکھوں میں آنسو آئے تو کبھی خوشی کی وجہ سے آنکھیں نم ہوئی۔ یہ ساری تمہید مَیں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اقبال یوسف کی کتاب ”پاکستان پیپلز پارٹی کے پچاس سال“ پڑھنے کے بعد لکھی ہے۔ اقبال یوسف نے ایک کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بلاول بھٹو زرداری کا تذکرہ کر دیا۔ انہوں نے اسے کتابی شکل میں شائع کرانے سے پہلے نامور صحافی محمود شام کے ماہنامے ”اطراف“ میں قسط وار شائع کروایا۔ مَیں نے کچھ قسطیں جب اس رسالے میں پڑھیں تو تب جی چاہا کہ اس کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آنا چاہیے۔ پھر ایک دن اقبال یوسف کا فون آیا کہ شاکر صاحب مَیں آپ کو اپنی نئی کتاب بھجوانا چاہتا ہوں تو مَیں نے کہا وہی پاکستان پیپلز پارٹی کے پچاس سال تو کہنے لگے جی جی وہی کتاب۔ یہ کتاب ایک طرف پیپلز پارٹی کی داستان بیان کرتی ہے تو دوسری طرف اس پارٹی کی ایسی دستاویز ہے جسے انہوں نے محفوظ کر کے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر احسان کیا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ مَیں طفلِ مکتب ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ پی پی پی کے پچاس سال کے بےشمار اہم واقعات میری نظروں کے سامنے نہیں تھے کہ مَیں کراچی کا باسی ہوں اسی لیے سندھ اور کراچی کے اہم واقعات کو قلمبند کر سکا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے پیپلز پارٹی کی اس تاریخ کو قلمبند کیا جو آہستہ آہستہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو رہی تھی۔ اس کتاب کی اشاعت میں جہاں محمود شام کا اصرار دکھائی دیتا ہے وہاں اقبال یوسف کی پارٹی سے محبت کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔ اسی لیے محمود شام لکھتے ہیں: ”اقبال یوسف کی پی پی پی سے وابستگی اور وفاداری کا یہ منظر مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ اس کے بعد تو پاکستان کی تاریخ کے سب سے سفاک اور جابر آمر جنرل ضیاءالحق کے دور میں اقبال یوسف نے اپنی جوانی کے چمکتے دن، بھیگتی راتیں مسلسل جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں۔ مَیں سندھ ہائیکورٹ میں اپنے رسالے ”معیار“ کی بندش کے خلاف پیشیاں بھگتتا تھا۔ اقبال یوسف کو بھی عدالت میں لایا جاتا تو ان کے اہلِ خاندان ان سے ملنے، ایک جھلک دیکھنے، چند لمحے گفتگو کرنے کے لیے کوشاں ہوتے۔
اقبال یوسف پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی رہے۔ سندھ کے سیکرٹری جنرل، کراچی کے صدر پھر وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر، ان مناصب پر ہوتے ہوئے سرکاری گاڑیوں، دفاتر اور عملے کے باوجود اقبال یوسف، اقبال یوسف ہی رہے۔ وہ ان چند مشیروں وزیروں میں سے تھے جن سے پارٹی کے کارکن جب چاہے مل سکتے تھے۔ کوئی دربان راستہ نہیں روکتا تھا۔ کراچی کے صدر کی حیثیت سے وہ کبھی لیاری میں مصروف دکھائی دیتے، کبھی جلسہ، کبھی رنچھوڑ لائن، کبھی لیاقت آباد میں۔ تعلق ان کی دلّی والوں سے ہے۔ پنجابی سوداگران دہلی برادری جو کبھی مزاحمتی سیاست میں حصہ نہیں لیتی اپنی برادری اور دوسرے لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں، اسپتال، ڈسپنسریاں تعمیر کرواتے ہیں۔ دہلی میں اپنے چلتے کاروبار، بسے بسائے گھر چھوڑ کر پاکستان آئے، یہاں نئے سرے سے کاروبار کی بنیاد رکھی، کامیابیاں حاصل کیں۔“
ایسے میں اقبال یوسف کی پارٹی کے ساتھ محبت کتاب کی صورت میں جب سامنے آئی تو جی چاہا کہ اپنے قارئین کو اس کتاب سے متعارف کروایا جائے۔ کہ انہوں نے پاکستان کی ایک اہم سیاسی پارٹی کے پچاس برسوں کو نہ صرف ایک کتاب بلکہ ایک دستاویز کا درجہ دیا جس میں پاکستان کی جمہوری جدوجہد کے پانچ عشروں کی تاریخ ہے جہاں پر اسیری کا تذکرہ ہے، کوڑوں کی سزائیں ہیں، جلاوطنی اور پھانسی کے منظرنامے اور وہ سب کچھ جو اس پارٹی کے ساتھ پاکستان کے مختلف طالع آزما حکمرانوں نے کیا۔ یہ کتاب پاکستان پیپلز پارٹی کا تصویری البم بھی ہے اور بے شمار ایسے واقعات کا مجموعہ جو ہماری تاریخ کے ایسے باب ہیں جو ہم سے اوجھل تھے۔ اس کتاب پر تفصیل سے بھی لکھا جا سکتا ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پر اس وقت حکمرانی کرنے والے آصف علی زرداری کی سرورق پر کوئی تصویر نہ ہے اور کتاب کے اندر جب تصویری البم کو دیکھا تو اس میں بھی آصف علی زرداری کی صرف وہی تصاویر ہیں جس میں وہ محترمہ بےنظیر بھٹو کے ساتھ دولہا بنے بیٹھے ہیں۔ اقبال یوسف نے یہ بتا دیا کہ پارٹی کے مالکان وہی ہیں جنہوں نے قربانیاں دیں، کوڑے کھائے، جیلیں کاٹیں اور آصف علی زرداری تو بس بھٹو خاندان کے داماد ہیں اور ان کو بطور داماد کے وہ سب کچھ مل گیا جو سسرالی خاندان ختم ہونے کے بعد داماد کو ملا کرتا ہے۔ اقبال یوسف آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں پیپلز پارٹی کی اُس تاریخ سے واقف کرایا جو ہم سے ایک عرصے سے دور تھی۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ