پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں میونسپل کارپوریشن ملتان میں بیرسٹر ظفرﷲ خان کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ ایک دن کسی کام کے لیے ہم گھنٹہ گھر بلدیہ ملتان کی عمارت میں گئے تو ہم نے ایڈمنسٹریٹر کے کمرے میں رش دیکھا تو اُس رش میں اضافہ کرنے کے لیے ہم بھی داخل ہو گئے۔ جا کر تعارف کروایا تو روشن آنکھوں والے ایڈمنسٹریٹر نے ہمیں بیٹھنے کا کہا۔ اور پوچھنے لگے بتائیے مَیں کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ مَیں نے کہا میرا کام کچھ لمبا ہے آپ باقی لوگوں کو فارغ کر دیں۔ کہنے لگے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے دفتر میں رش کم ہو جائے گا تو ناممکن ہے۔ یہ لوگ جائیں گے اور دوسرے آ جائیں گے۔ اس دوران مَیں نے دیکھا کہ انہوں نے کارپوریشن کے کچھ اہلِ تشیع ملازمین سے کہا 22 رجب آ رہا ہے تو کون کون نیاز کھلائے گا؟ اس کے بعد انہوں نے دفتر کے باریش کلرک سے کہا آپ کے ہاں میلاد کی محفل کب ہوتی ہے؟ سر پہ کپڑا رکھ کر جب اُن کے پاس کارپوریشن کا ایک ٹھیکیدار آیا تو انہوں نے پوچھا کہ رائیونڈ کب جانا ہے؟ اور آخر میں انہوں نے سوئیپرز کے ایک وفد کو یہ کہہ کر خوش کر دیا کہ اس مرتبہ کرسمس کی تنخواہ ایک ہفتہ پہلے آپ لوگوں کو مل جائے گی۔ مَیں اُن کا یہ انداز دیکھ کر حیران ہو گیا کہ بیرسٹر ظفرﷲ خان انسانی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے اور اس کے مطابق پھر دفتر کا کام اُن سے خوش اسلوبی سے کروا لیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم آپ کو بتائیں کہ بیرسٹر ظفرﷲ خان ہمارا اگلا مکالمہ کیا ہوا اُن کا پروفائل ملاحظہ فرمائیں۔
ظفرﷲ خان نے ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم صوفیائے کرام کے شہر ملتان سے حاصل کی۔ ایف اے کا امتحان ملتان ایجوکیشن بورڈ سے دوسری پوزیشن میں پاس کیا۔ بی۔اے کے امتحان میں بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم۔ایس۔سی (بین الاقوامی تعلقات) کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کچھ عرصے تک انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ 1987ءمیں سول سروس آف پاکستان کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1997ءمیں سٹی یونیورسٹی لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ، برسٹل (برطانیہ) سے 1988ءمیں قانون میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ حاصل کیا اور لنکنز اِن (لندن) سے بار ایٹ لاءکرنے کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے کر قانون کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔ بیرسٹر ظفرﷲ خان نے ہیگ (ہالینڈ)، تورین (اٹلی)، جنیوا (سوئٹزرلینڈ) اور آکسفورڈ (برطانیہ) سے قانون اور بین الاقوامی تعلقات پر کئی خصوصی کورسز کیے۔ بیرسٹر ظفرﷲ خان اسلام، قانون اور حقوقِ انسانی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ نواز شریف کے سابقہ دورِ حکومت میں وفاقی سیکرٹری قانون و انصاف اور وزیرِاعظم پاکستان کے خصوصی معاون / وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بھی رہے۔
میری یہ ملاقات اُن سے اُس وقت ہوئی جب وہ سول سروس آف پاکستان کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے فعال رکن کی حیثیت سے بطور ایڈمنٹسریٹر میونسپل کارپوریشن ملتان کام کر رہے تھے۔ جب مَیں نے انہیں یہ بتایا کہ کارپوریشن کی لائبریری تباہ و برباد ہو رہی ہے تو انہوں نے فوری طور پر اس پر ایکشن لیا اور کہنے لگے کہ بہت جلد تصوف پر میری بھی کچھ کتابیں آنے والی ہیں۔ مَیں نے سوچا پاکستان میں بےشمار لوگ تصوف کا مطالعہ رکھتے ہیں اور اُن کی خواہش بھی ہوتی ہے کہ اس موضوع پر وہ قلم اٹھائیں لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن کچھ عرصے بعد جب بیرسٹر ظفرﷲ خان نے اپنی کتاب ”کسی اور زمانے کا خواب“ بھجوائی تو مجھے حیرت ہوئی کہ بیورکریسی کا یہ کَل پُرزہ اندر سے صاحبِ تصوف نکلا۔ اُس کتاب کا جب ہم نے پروگرام کروایا تو صدرِ محفل پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری نے آ کر جب اُن کی توصیف کی تو ہمیں اور بھی خوشی ہوئی کہ ایک بہت بڑا عالم اُن کی اس کتاب کے مضامین پر کھلے دل سے توصیف کر رہا ہے۔ مشرف کے زمانے میں ہی اُن کا جب ملتان سے تبادلہ ہوا تو ملتان والوں نے اُن کی کمی کو بہت محسوس کیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد ہمیں علم ہوا کہ انہوں نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اور وہ اسلام آباد میں مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر انسانی حقوق پر کام کر رہے ہیں۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد نواز شریف کی جب حکومت آئی تو انہوں نے بیرسٹر ظفرﷲ خان کو پہلے وفاقی سیکرٹری قانون بنایا پھر وزیراعظم نے انہیں اپنا خصوصی معاون بنایا۔ جب نواز شریف بہت زیادہ قانونی مسائل میں گھِر گئے تو انہوں نے انہیں وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف مقرر کر دیا۔ مضبوط قانونی ٹیم بنانے کے باوجود نواز شریف پانامہ کیس میں سزا پانے کے بعد اپنے عہدے سے محروم ہوئے لیکن اُن کی ٹیم حکومت کو بحران کو نہ نکال سکی البتہ بیرسٹر ظفرﷲ خان نے اپنا تحقیق و تالیف کا سفر جاری رکھا۔؎
حال ہی میں اُن کی نئی کتاب ”حرفِ محرمانہ“ (عہدِ حاضر میں فکری اجتہاد) منظرِ عام پر آئی تو اُس کی ضخامت دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ انہوں نے ملتان میں رہ کر گاؤ ں کے مدرسے سے جو مختلف مذہبی تعلیم حاصل کی تو اس کے اثرات اُن کی شخصیت پر بھی دکھائی دیئے۔ انہوں نے کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں علما کے سامنے اسلام، انتہا پسندی، دہشت گردی کے موضوع پر جب لیکچر دیئے تو ان کو انگریزی زبان میں بھی ڈھالا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی تحقیق کو بہت زیادہ پذیرائی ملی تو انہوں نے پھر زیادہ وقت مسلم تہذیب کے اُن ادوار کو دیا جو ماضی کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد بیرسٹر ظفرﷲ خان نے ہمارے گمشدہ میراث کو دریافت کیا جس کو انہوں نے مختلف کتابوں کی صورت میں ہم تک پہنچا دیا۔ بیرسٹر ظفرﷲ خان کا اسلام، تصوف اور معاشرے پر اس کے اثرات پر جو کام ہے وہ انہیں ہمیشہ اپنے ہم عصر لکھنے والوں سے ممتاز رکھے گاکہ انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جو اس سے پہلے کسی اور کے قلم کا حصہ نہ بنے۔ اور ہمیں خوشی یہ ہے کہ بیرسٹر ظفرﷲ خان جن کا تعلق ملتان سے ہے وہ آج بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں وہ یہ بات بتاتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے علمی سفر کا آغاز ملتان سے ہوا اور ملتان کے تحقیقی اور علمی پس منظر میں اُن کا یہ کام ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ