نامور خطاط، مصور اور اسمائے حسنیٰ و اسمائے حضرت محمد کو سینکڑوں کی تعداد میں ڈیزائن کرنے والے علی اعجاز نظامی 8 مارچ 2019ءکی شام 7 بجے ملتان میں انتقال کر گئے۔ جب مجھے نامور خطاط راشد سیال نے استادِ محترم علی اعجاز نظامی کے انتقال کی خبر سنائی تو مجھے تازہ دَم شاعر مختار علی کی لکھی ہوئی ایک نظم یاد آ گئی:
قلم ہاتھوں میں آتے ہی
ہماری انگلیاں یوں رقص کرتی ہیں
کہ نقطے، دائرے، الفیں، کشش اور زیر، زبر و پیش
باہم جھومتے گاتے
قلم کی بزم کو آراستہ کرتے ہیں
اپنے حُسن کے جلوے دکھاتے ہیں
ہماری خوش نویسی درحقیقت رَمز ہے
اِک خواب کی، اِک عشق کی، اِک جستجو کی
ازل سے تا ابد جو خالق و مخلوق کا باہم تعلق ہے
قلم سے لفظ کا بھی ہوبہو ویسا ہی رشتہ ہے
ہمارے لفظ کی توقیر
کُن کے دائرے کے درمیاں
نقطے میں پنہاں ہے
اسی نقطے میں پنہاں رمز کو
ہم اپنی تحریروں میں اکثر آشکارا کرتے ہیں
ہمیں خطاط کہتے ہیں
استاد علی اعجاز نظامی سے ہمارا تعلق 1980ءسے تھا۔ جب مَیں اور رضی ملتان شہر میں سائیکل پر گھوما کرتے تھے۔ شاہین مارکیٹ میں موجود خطاطوں اور کاتبوں کی بیٹھکوں کے چکر لگایا کرتے تھے۔ انہی دنوں رضی نے مقامی اخبار میں اپنی صحافت کا آغاز کیا تو شعبہ ڈیزائننگ میں اُس کی ملاقات علی اعجاز نظامی سے ہوئی۔ ہاتھ میں سگریٹ، گول چہرہ، شاندار ہیئر سٹائل اور کاغذ پر قلم لے کر منفرد انداز سے خطاطی کرنا نظامی صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے پاس کوئی مصروفیت نہ ہوتی تھی اور ہم نظامی صاحب کے پاس بہت سا وقت گزارتے۔ ملتان میں کلر سیپریشن کے لیے کوئی کیمرہ نہ ہوتا تھا تو اُن کے بنائے ہوئے کتابوں کے سرورق کو لاہور یا فیصل آباد بھجوایا جاتا، وہاں سے پازیٹو بن کر آتا تو علی اعجاز نظامی اپنی نگرانی میں اس سرورق کو شائع کرواتے۔ رضی الدین رضی نے 1983-84ءمیں روزنامہ سنگ میل ملتان میں ادبی صفحے کا آغاز کیا تو نظامی صاحب نے کیری کیچر بنانے شروع کیے ۔ اُس میں بھی اُن کا قلم کمال کی مہارت رکھتا تھا۔ محنت کرنا اُن پر ختم تھا اور ہم نے پوری زندگی میں انہیں کبھی تھکا ہوا نہیں پایا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا نظامی صاحب کے کام میں نکھار آ رہا تھا اور ہم اُن کے اور مداح ہوتے جا رہے تھے۔ ہم تو کیا 1990ءکی دہائی میں جنوبی پنجاب کے تمام ادیب جو کتابیں شائع کرواتے تھے اُن سب کے سرورق نظامی صاحب نے بنائے جس وجہ سے وہ ادیبوں میں بہت اہمیت اختیار کر گئے تھے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ اُن کی کتاب کا سرورق نظامی صاحب بنائیں۔ نہ کبھی محنتانہ پر جھگڑا، نہ کسی سے شکوہ نہ شکایت۔ اسی عرصہ میں انہوں نے داڑھی رکھی اور اس کے ساتھ ہی اُن کے کام کا شعبہ تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے قرآنی آیات، احادیث نبوی، اسمائے حسنیٰ اور حضور پاک کے ناموں پر مختلف انداز سے پینٹ کرنا شروع کیا۔ ایک جنون تھا جو اُن کی زندگی میں آ گیا۔ ہر روز وہ نئے ڈیزائن سے کبھی حضور پاک کے نام اور کبھی اﷲ تعالیٰ کے نام، کبھی اہلِ بیتؑ اطہار سے محبت کا اظہار کرتے۔ یہ کام انہوں نے اتنی محنت، محبت اور توجہ سے کیا کہ انہیں یاد ہی نہ رہا کہ وہ ایک بے فیض معاشرے میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ ایک دن اُن کا فون آیا، کہنے لگے شاکر بھائی اب تو گھر میں پینٹنگ رکھنے کی جگہ بھی نہیں رہی۔ ملتان کے کسی سرکاری ادارے میں میرے یہ فن پارے آویزاں کروا دیں۔ مَیں ایک روپیہ بھی معاوضہ نہیں لوں گا۔ مَیں نے آرٹس کونسل، ڈپٹی کمشنر آفس، یونیورسٹی، ٹاؤ ن ہال، رضا ہال کے متعلقین سے آج سے پندرہ برس قبل بات کی کہ اُن کے فن پاروں کو جگہ دے دیں۔ جب ہمارے دلوں میں فنکار کے لیے جگہ نہیں ہو گی تو اُن کے فن پارے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ کچھ سرکاری دفاتر میں اُن کے پینٹ کردہ اﷲ تعالیٰ اور حضور پاک کے ناموں کے فریم دکھائی دیتے ہیں لیکن اُن کا اصل کام ان کے گھر میں دیمک نے ختم کر دیا۔
وقت گزرتا رہا، گھر کی ذمہ داریاں بڑھتی گئیں، استادِ محترم دیکھتے ہی دیکھتے بڑھاپے کی طرف چل دیئے۔ بیماریوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔ لیکن وہ تھکے نہیں۔ اب انہوں نے کمرشل کام شروع کر دیا۔ مساجد کی تزئین و آرائش سے وہ گھر کا نظام چلانے لگے۔ ملتان کی قدیم عمارتوں کو انہوں نے تصویریوں میں محفوظ کر دیا۔ استاد جی سے اب مہینوں بعد جب ملاقات ہوتی تو اُن کا وہ شکوہ سب سے پہلے لب پہ آتا کہ میرے فن پارے گھر میں پڑے خراب ہو رہے ہیں۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوتا۔ دو ہفتے قبل مجھے برادرم راشد سیال کا فون آیا کہ علی اعجاز نظامی صاحب کو دل کا عارضہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر جمیل اُن کا علاج کر رہے ہیں۔ اُن کو ملتان کے کارڈیالوجی ہسپتال میں منتقل کرنا ہے آپ آ جائیں۔ مَیں اُس دن لاہور تھا، مَیں نے کہا واپس آ کر دیکھتا ہوں۔ اور جب مَیں نے آ کر رابطہ کیا تو راشد سیال کہنے لگے کہ اُن کی طبیعت ایسی نہیں ہے کہ ہم ہسپتال لے جائیں۔ زمانے کی فضول و بےکار مصروفیت نے اتنا وقت بھی نہ دیا کہ مَیں جا کر نظامی صاحب کی عیادت کر آتا۔ 8 مارچ کی شب مَیں ملتان سے باہر تھا۔ 10 مارچ کی صبح آ کر 9 مارچ کے اخبارات دیکھے تو کسی بھی اخبار میں اُن کے انتقال کی خبر نہ تھی۔ نظامی صاحب آپ بہت بڑے آرٹسٹ تھے لیکن آپ کوئی معروف سیاستدان تو نہیں تھے، آپ کا بڑا گھر نہیں تھا، آپ کی ذات کے ساتھ کوئی سکینڈل بھی تو وابستہ نہیں تھا، آپ نے کبھی ہاتھ نہیں پھیلائے تھے، آپ نے سرکار سے بھی کبھی امداد نہ مانگی، وہ جو ہاتھ میں قلم اور برش تھا اس نے آپ کو پہچان دی اسی لیے دنیا نےاس بے فیض اور دیمک زدہ معاشرے نے آپ کو وہ مقام نہ دیا جس کے آپ حقدار تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ آخرت میں آپ کے بنائے ہوئے وہی فن پارے (اسمائے حسنیٰ و رسولِ رحمت) آپ کے لیے شفاعت کا باعث بنیں گے۔ ایک فنکار اپنی آخرت کا سامان اپنے فن پاروں کے ذریعے زندگی میں ہی کر لیا کرتا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ