غزل کے ذریعے شاعری کا آغاز کرنے والے میر انیس کی پہچان مرثیہ بنی۔ ان کی تعداد کے بارے میں بہت سی جگہوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اُن کے مرثیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ میرانیس کا اندازِ مرثیہ خوانی ایسا تھا کہ وہ جب شعر پڑھتے تو خود شعر کی صورت بن جاتے۔ میر انیس کے سننے والے کہتے تھے کہ وہ منبر کے دوسرے زینے پر بیٹھ کر پڑھتے۔ اکثر دور بیٹھے لوگوں کو وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو پھر لوگوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ اوپر والے زینے پر بیٹھیں لیکن انہوں نے کبھی اپنے لیے سب سے اوپر والا زینہ پسند نہ کیا۔ منبر پر وہ انتہائی ادب و وقار سے بیٹھتے۔ مرثیہ پڑھنے سے قبل محفل کو صلوٰة پڑھواتے اس کے بعد چند لمحوں کے لیے خاموش ہو کر مرثیے کا آغاز کرتے۔ میر انیس نے جب بھی مرثیہ پڑھا اپنے گٹھنوں پر سفید رومال ضرور رکھا۔ بقول ڈاکٹر تقی عابدی کے وہ چشم و ابرو کے اشارات کے تیور سے شعر کے جذبات بناتے تھے اور بہت ہی کم جسم کے کسی حصے کو جنبش دیتے۔ شعر میں اگر غم، خوشی، حیرت، غصہ، رحم، تعجب یا شجاعت کا ذکر کرتے تو وہ اس تصویر بن جاتے۔ یہ طرزِ مرثیہ خوانی میر صاحب نے کسی سے سیکھا نہیں تھا بلکہ وہ خود اس کے موجد تھے اور یہ عطائے الٰہی تھی۔ اگر کوئی شاگرد میر انیس سے مرثیہ خوانی سیکھنے کی درخواست کرتا تو وہ اس سوال کے جواب میں کہتے ”یہ کیا سیکھے گا اور مَیں کیا سکھاؤ ں گا بھئی یہ کوئی سیکھنے کا فن ہے۔“
اسی طرح مولانا محمد حسین آزاد ”آبِ حیات“ کے آخری باب میں میر انیس کے بارے میں لکھتے ہیں ”میر انیس مرحوم کو مَیں نے پڑھتے ہوئے دیکھا۔ کہیں اتفاقاً ہی ہاتھ اٹھ جاتا یا گردن کی ایک جنبش یا آنکھ کی گردش تھی کہ کام کر جاتی۔ ورنہ ان کا کلام سارے مطالب کے حق پورے کر دیتا تھا۔ جب میر انیس کے والد بڑھاپے کی وجہ سے مرثیہ نہ پڑھ سکے تو انہوں نے اپنی جگہ بیٹے کو بلا لیا۔ یہ وہ دور تھا جب مرزا دبیر کا لکھنؤ میں بہت شہرہ تھا۔ جس طرح ان کا کلام لاجواب تھا اسی طرح ان کا پڑھنا بھی بے مثال تھا۔ ان کی آواز، قد و قامت، ان کی صورت کا انداز، غرض ہر شے اس کام کے لیے ٹھیک اور موزوں واقع ہوئی تھی۔ ان کا اور ان کے بھائیوں کا بھی قاعدہ تھا کہ ایک بڑا آئینہ سامنے رکھ کر خلوت میں بیٹھتے تھے اور مرثیہ پڑھنے کی مشق کرتے تھے۔ وضع، حرکات، سکنات اور بات بات کو دیکھتے تھے اور آپ اس کی موزونی و ناموزونی کو اصلاح دیتے تھے۔ ذوق
بنا کے آئنہ دیکھے ہے پہلے آئنہ گر
ہنرور اپنے ہی عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں
یہ بات درست ہے کہ مرزا دبیر کے پڑھنے میں وہ خوش ادا نہ تھی لیکن حسن قبول اور فیض تاثیر خدا نے دیا تھا۔ ان کا مرثیہ کوئی اور بھی پڑھتا تھا تو اکثر رونے رلانے میں کامیاب ہوتا تھا کہ یہی اس کام کی علت بنائی ہے۔“
میر انیس کی ایک مجلس کا احوال شمس العلماءمولانا ذکاءاﷲ سابق پرنسپل عربی کالج الہ آباد کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ”مَیں جب الہ آباد کی میر انیس کی مجلس میں پہنچا تو وسیع و عریض مکان لوگوں سے بھر چکا تھا۔ اس لیے مَیں کھڑا ہو کر سننے اور دور سے ٹکٹکی باندھ کر میر انیس کی صورت اور ان کے ادائے بیان کو دیکھنے لگا۔ وہ بوڑھے ہو چکے تھے مگر ان کا طرزِ بیان جوانوں کو مات کرتا تھا اور معلوم ہوتا تھا منبر پر ایک کل کی بڑھیا بیٹھی لڑکوں پر جادو کر رہی ہے، جس کا دل جس طرف چاہتی ہے پھیر دیتی ہے، اور جب چاہتی ہے ہنساتی ہے اور جب چاہتی ہے رلاتی ہے۔ مَیں اس حالت میں دو گھنٹے کھڑا رہا، میرے کپڑے پسینے میں تر ہو گئے اور پاؤ ں خون اترنے سے شل ہو گئے۔ مجھ کو یہ بات محسوس نہ ہوئی اس سے زیادہ دلچسپ محویت کیا ہو گی۔“
میر انیس کی شاعرانہ عظمت کے بارے میں ناقدین ایک ہی رائے رکھتے ہیں کہ ان کی شاعری کے اتنے زاویے ہیں کہ جب بھی کوئی عالم فاضل ان کی شاعری کا مطالعہ کرے گا نئے گوشوں کے ذائقوں سے آشنا ہو گا۔ ان کا منفرد اندازِ سخن اب تاریخ ادب اُردو کا روشن باب ہے۔ میر انیس نے سانحہ¿ کربلا کو جس انداز سے چشمِ تصور میں دیکھتے ہوئے مرثیوں میں قلمبند کیا اس کی مثال اُردو شاعری میں کہیں نہیں ملتی۔ میر انیس کے مرثیوں کی شہرت تو آج بھی سدابہار ہے۔ جیسے ہی محرم الحرام کا اغاز ہوتا ہے پوری دنیا کے عزاخانوں میں خطیب کی تقریر سے قبل سوز و سلام پڑھا جاتا ہے۔ خاص طور پر میر انیس کے مرثیے اہتمام سے سنے جاتے ہیں۔
انہی مجالس کے پس منظر میں جب ہم مرثیہ تحت اللفظ کی پہلی مجلس کا کھوج لگاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے مرثیہ خوانی کی پہلی مجلس لکھنؤکے ایک رہائشی غلام علی کے گھر منعقد ہوئی۔ روایت ہے کہ غلام علی جو میر مظفر حسین ضمیر لکھنوی کے گھر کے پاس رہتے تھے اور بڑے پُرخلوص عزادار تھے۔ سال بھر کی آمدن مجلس حسینؑ پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ محرم الحرام کی شبِ عاشور انہیں کوئی مجلس پڑھنے والا نہ ملا تو وہ ضمیر لکھنوی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اس سال مجلس پڑھنے کے لیے کوئی خطیب میسر نہ ہے۔ آپ نے میرے ہاں مجلس پڑھنا ہے۔ ضمیر لکھنوی نے کہا کہ مَیں غزل، مثنوی اور قصیدے پڑھتا ہوں۔ لیکن مرثیے آج تک نہیں پڑھے۔ ضمیر لکھنوی کے کھرے جواب کے بعد غلام علی نے کہا ”اچھا نہ پڑھیے لیکن یاد رہے حشر میں دامن گیر ہوں گا اور رسولِ خدا سے شکایت کروں گا۔“
یہ سنتے ہی ضمیر کانپ اٹھے صاحبِ خانہ سے مرزا گدا علی گدا کی بیاض مراثی لے کر ایک مرثیہ منتخب کیا جو یوں لکھنؤ میں پہلی مجلس مرثیہ خوانی کا آغاز ہوا۔ ضمیر لکھنوی سے لے کر میر انیس تک کے مرثیہ خوانی کا سفر طویل ہے لیکن ہم صرف میر انیس کی مرثیہ خوانی کا تذکرہ کریں گے نیر مسعود اپنی کتاب ”میر انیس“ میں لکھتے ہیں کہ ”میر انیس مرقع نگاری میں درحقیقت اپنی مثال آپ تھے۔ صبح کا منظر ہو یا تپتے ہوئے ریگستان کا ذکر سننے والا اس منظر کو دیکھ سکتا ہے اور خود کو اس کا حصہ سمجھ سکتا ہے۔“(جاری ہے)