جب ڈاکٹر زریں اشرف نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر عمرانہ مقصود کی کتاب ”اُلجھے سلجھے انور“ کے بارے میں پوسٹ لگائی تو مَیں نے اُس کتاب کی تلاش کے لیے لاہور رابطہ کیا۔ ہر طرف سے جب انکار ہوا تو پھر ہم نے کراچی میں کتاب کے پبلشر کو فون کیا۔ معلوم ہوا کہ انور مقصود کے چاہنے والوں نے وہ کتاب بازار سے غائب کر دی اور وہ انہی کے دوستوں کو تحفے میں دے رہے ہیں۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر انوار احمد نے اسی کتاب کے متعلق فیس بک پر پوسٹ لگائی کہ مَیں نے عمرانہ مقصود کی کتاب زریں اشرف سے مانگ کر پڑھ لی ہے۔ ہر طرف سے کتاب کی تعریفیں آ رہی تھیں لیکن کتاب تھی کہ میرے ہاتھ میں آنے سے ڈر رہی تھی۔ حالانکہ مَیں خود کتاب دوست ہوں اور اچھی کتاب کے لیے ہر وقت سرگرداں رہتا ہوں۔ ایسے میں اچھی بات یہ ہوئی کہ زریں اشرف ہمارے ہاں تشریف لائیں اور مَیں نے اُن سے ”اُلجھے سلجھے انور“ والی کتاب عاریتاً مانگ لی۔ انہوں نے ٹھیک ایک گھنٹے بعد کتاب بھجوا دی۔ اور وہ کتاب آج کل میرے سرہانے موجود ہے۔ کتاب کا ہر صفحہ اتنا لطف دے رہا ہے کہ ایک عرصے بعد کسی کتاب کو محبوب کی طرح عزیز رکھے ہوئے ہوں۔ انور مقصود کا خاندان پوری دنیا میں اپنی خوبیوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا، زبیدہ طارق، احمد مقصود حمیدی اور زہرہ نگاہ کو کون نہیں جانتا؟ ان میں سے صرف فاطمہ ثریا بجیا سے میری بالمشافہ ملاقات رہی۔ انور مقصود اور زہرہ نگاہ سے ملاقات اُن کی تخلیقات کے ذریعے سے ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔ ایسے میں جب عمرانہ مقصود نے اپنے شریکِ حیات انور مقصود کے بارے میں کتاب لکھی تو خوب اشتیاق ہوا کہ یہ کتاب پڑھنی چاہیے کہ انور مقصود کا مَیں مداح ہوں اور ایسا مداح کہ اُن کا کوئی بھی ٹیلیویژن پروگرام ہو یا تحریر مجھے ہمیشہ اچھی لگتی ہے۔ انور مقصود تو اپنی جگہ پر بہت بڑے لکھاری ہیں لیکن عمرانہ مقصود نے کتاب کے آغاز میں جو دیباچہ لکھا اس سے معلوم ہو گیا کہ یہ کتاب کوئی عام کتاب نہیں ہے۔ عمرانہ مقصود لکھتی ہیں ”لمبی رفاقت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک عادت سی بن جاتی ہے۔ جس طرح اپنے اردگرد دَر و دیوار، چھت اور دروازے دیکھنا ہماری عادت میں شامل ہوجاتا ہے، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے وجود کا احساس کیے بغیر ایک دوسرے کو دیوار، دروازہ یا چھت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ہاں ان دونوں میں سے جب ایک چلا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ چھت گر گئی یا دیوار ڈھے گئی یا دروزے کو دیمک کھا گئی۔ کھل گئے دروازے اور طوفان اندر آ گیا۔ میرا اور انور کا ساتھ ماشاءاﷲ خوب مزے سے گزرا، اور گزر رہا ہے۔ اونچ نیچ ہر رشتے میں آتی ہے۔ یہی پہچان ہے کہ ہم زندہ ہیں۔ برا وقت نہ آئے تو اچھے کی قدر کون کرے گا۔ آج کل نودولتیوں کے یہاں روپے پیسے کی ریل پیل میں بچہ منہ میں سونے چاندی کے چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ سونے اور چاندی میں کھیل کر بڑے ہوتے ہیں۔ زندگی کا وہ رُخ جو ہماری نسلوں نے دیکھا ہے، اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتے…. اور ہم ہیں کہ لمحے لمحے پر پرانا وقت یاد آتا ہےجب ڈیڑھ روپے کا فلم کا ٹکٹ خریدنے کے لیے بجٹ سے باہر جانا پڑتا تھا۔ مہینے کے آخر میں اگر گھی، تیل، چینی ختم ہو جائے تو منگانا ناممکن سا لگتا تھا۔ بچوں کی معصوم خواہشات بہت بڑی بڑی لگتی تھیں۔ یہ جو کچھ مَیں نے لکھا، یہ میری سوچ ہے۔ میرا ساتھی ایسا نہیں سوچتا۔ وہ آرٹسٹ ہے۔ مَیں بہت سوچ سمجھ کر کوئی بات کروں، رائے لینا چاہوں تو وہ کسی اور دنیا میں ملتے ہیں۔ کبھی ’ہوں‘ …. ’ہاں‘ میں جواب دے دیا، کبھی کہہ دیا ’جو سمجھ میں آئے کر لو‘ …. کبھی کچھ بھی نہیں سنا، یا اَن سنی کر دی …. اور مَیں نے سر پیٹ لیا۔ آہستہ آہستہ مَیں نے اپنے آپ کو بدلنا شروع کیا اور فیصلے خود کرنے لگی۔ پہلے دو دو، چار چار روپے بچانے کے فیصلے تھے اور اب اگر گاڑی بدلنا چاہوں یا امریکا جانا چاہوں، اپنا فیصلہ کر لیتی ہوں…. شادی ہم دونوں کی مرضی سے ہوئی۔ ہم دونوں انسان ہیں، فرشتوں سے شادیاں بھی نہیں ہوتیں۔ میری ہزار غلطیاں انور نے معاف کی ہوں گی اور انور کی ہزار غلطیاں مَیں نے معاف کی ہوں گی۔ ہم بہت بار لڑے بھی ہیں اور لڑ کر پھر مَن گئے ہیں۔ کہتے ہیں لڑائی سے پیار بڑھتا ہے، بڑھتا ہو گا لیکن مجھے لڑائی کے دوران پیار کم ہونے کا احساس ہی نہیں ہوا بڑھنے کا کیسے پتہ چلتا؟ شادی کا مقصد تب ہی حل ہوتا ہے جب ساتھی کی برائیاں اور اچھائیاں دونوں کو ہی زندگی کا حصہ سمجھا جائے اور انہی کے ساتھ رہنا سیکھا جائے۔‘‘
یہ کتاب عمرانہ مقصود نے میرے محبوب انور مقصود کے لیے لکھی ہے۔ مجھ سے پہلے یقینی طور پر وہ عمرانہ کے محبوب بنے ہیں۔ انور مقصود میرا محبوب تب بنا جب مَیں نے ٹیلی ویژن پر ان کے پروگرام دیکھے۔ روزنامہ حریت ان کے کالم کی وجہ سے خریدا۔ مجھے اب اس ڈائجسٹ کا نام یاد نہیں جس میں انور مقصود ہر ماہ کالم لکھا کرتے تھے۔ وہ ڈائجسٹ اُس وقت تک مَیں ہر ماہ اپنی لائبریری کا حصہ بناتا رہا جب تک انور مقصود اس میں لکھتے رہے۔ مَیں نے اپنے محبوب سے آخری ملاقات ملتان آرٹس کونسل کے سٹیج پر ڈرامہ ”سیاچن“ کے ذریعے کی جس میں میری ایک نئے انور مقصود سے ملاقات ہوئی اور اس کے بعد مَیں اپنے محبوب کے اور قریب ہو گیا۔ انور مقصود سراپا لکھاری ہیں اور لکھاری بھی ایسے کہ جن کے جملوں سے شاید ہی کوئی حکمران محفوظ رہا ہو۔ ضیا دور سے لے کر موجودہ دور تک انہوں نے ہر حکمران کی خرابیوں پر بڑے خوبصورت انداز سے طنز کی۔ وہ جملہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں اور ان کی خاموشی میں بہت سے جواب پنہاں ہوتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ عمرانہ مقصود نے صرف انور مقصود کی خود نوشت ہی نہیں بلکہ اپنے پورے خاندان کا احوال لکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے آخر میں جب یہ لکھا گیا ”کتاب پڑھ کر اندازہ نہیں ہوتا انور مقصود زیادہ اُلجھے ہیں یا زیادہ سلجھے تو عمرانہ مقصود نے اُن کی سوانح لکھنا شروع کر دی۔“ تو معلوم ہوا کہ یہ کتاب یادوں کی پٹاری سے بھری ہوئی ہے۔ لاکھوں کے شہر ملتان میں یہ پٹاری سب سے پہلے ڈاکٹر زریں کے پاس آئی اور اس نے پھر اسے تبرک کی طرح تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ مَیں نے ڈاکٹر صاحب کو کتاب واپس بھجوا دی ہے۔ معلوم نہیں آج کل اس تبرک سے کون فیض اٹھا رہا ہے۔ البتہ عمرانہ مقصود کا دیباچہ ”مَیں نے جینا سیکھ لیا ہے“ پڑھنے کے بعد مجھے اپنے گھر کے حالات بھی انہی کے گھر کے حالات کی طرح لگے ہیں۔ شکریہ انور مقصود اور عمرانہ مقصود آپ نے اپنے گھر کی کہانی لکھتے ہوئے بہت سے گھروں کی کہانی کو قلمبند کیا۔ اور خاص طور پر مجھے تو یوں لگا کہ یہ اُن کی کہانی نہیں بلکہ ہر اُس گھر کی کہانی ہے جہاں پر کتاب سے محبت کرنے والے موجود ہیں اور اسی وجہ سے الجھنیں بڑھتی رہتی ہیں اور کتابوں ہی کے ذریعے الجھنیں سلجھنوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ