یومِ کتاب پر اس برس نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان نے 22 اپریل سے 24 اپریل 2017ء تک اسلام آباد کے پاک چائنا سنٹر میں جو شاندار میلہ سجایا اس کا اختتام خوشگوار نہ ہو سکا۔ آٹھویں قومی کتاب میلہ اس مرتبہ سلوگن ”کتاب: زندگی، اُمید اور روشنی“ تھا۔ کتاب میلہ اتنا شاندار تھا کہ اس کے بارے میں ہم الگ سے ایک کالم لکھیں گے کہ اسلام آباد اور پنڈی کے رہنے والوں نے جس انداز سے تین دن تک میلے میں شرکت کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کتاب کو ”زندگی، اُمید اور روشنی“ جانتے ہیں۔ میلہ پاک چائنا فرینڈشپ سنٹر کی خوبصورت عمارت میں ہوا۔ اختتامی تقریب میں وفاقی وزراء احسن اقبال، عرفان صدیقی اور عطاءالحق قاسمی کے علاوہ نامور اہلِ قلم نے شرکت کی۔ اختتامی تقریب بھی خیر و عافیت سے ختم ہو چکی تھی کہ معروف سیاست دانوں اور مشہور اہلِ قلم کے ساتھ تصاویر بنوانے کے شوق میں پاک چائنا سنٹر کے وسیع و عریض سٹیج پر دیکھتے ہی دیکھتے رش ہو گیا۔ ایسے میں راولپنڈی کی نوجوان شاعرہ فرزانہ ناز اپنی کتاب اٹھائے سٹیج کی جانب بڑھی (یاد رہے مین آڈیٹوریم میں نقشہ کے مطابق سٹیج اور حاضرین کے درمیان حدِ فاصل رکھنے کے لیے ایک کھائی نما خالی جگہ ہے جس کا فرش سنگِ مرمر کا ہے۔ میلے کے تینوں دن ہم تمام وقت اسی سنٹر کی مختلف جگہوں میں رہے کہ تینوں دن کتاب کے حوالے سے اتنی تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا کہ جی ہی نہیں چاہتا تھا کہ وہاں سے کہیں اور جایا جائے۔ تینوں دن ہم نے مختلف اوقات میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سکولوں کے طالب علموں کو اسی سٹیج پر کبھی ڈرامہ کرتے دیکھا تو کوئی ٹیبلو کرتا دکھائی دیا۔ کہیں پر تقسیمِ انعامات کی تقریب ہوتی اور تو اور پچاس ساٹھ بچوں نے اسی سٹیج پر صدر مملکت کی موجودگی میں کتاب کا ترانہ بھی لہک لہک کر پڑھا) فرزانہ ناز مہمانِ خصوصی کو اپنی کتاب دے کر واپس ہال کی طرف مڑ رہی تھیں کہ سیڑھیوں پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور سر کے بل اُس کھائی میں جا گریں جو سٹیج اور حاضرین کے درمیان حد قائم رکھنے کو بنائی گئی تھی۔ فرزانہ ناز اس طرح گری کہ سب سے پہلے سر پر چوٹ آئی۔ ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا اور وہ گرتے ہی بےہوش ہو گئیں۔ انتظامیہ نے فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا لیکن دماغی چوٹ اتنی شدید تھی کہ ڈاکٹروں کے فوری طور پر آپریشن کرنے کے باوجود وہ جانبر نہ ہو سکی اور اگلے دن انتقال کر گئیں۔
اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر جو طوفانِ بدتمیزی دیکھنے کو آیا وہ بالکل مشال خان کو قتل کرنے والے واقعہ جیسا ہے۔ ہر شخص فرزانہ ناز کی موت کا ذمہ دار این۔بی۔ایف کے سربراہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو ٹھہرا رہا ہے جنہوں نے قومی کتاب میلے کے انتظامات گزشتہ برسوں سے کہیں زیادہ بہتر کیے۔ کہ انہیں معلوم تھا اس سال گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ لوگ میلے میں شرکت کریں گے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ان کی انتھک ٹیم نے ہمیں تین دن تک جس انداز سے میلے کی تقریبات میں جس عزت و احترام سے نوازا وہ ماضی میں ایسی تقریبات میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم پڑھے لکھے لوگ بھی ذہنی طور پر ان لوگوں کی طرح ہو چکے ہیں جنہوں نے مشال خان کو قتل کیا۔ اب سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے تو کوئی اپنی ذاتی نفرت میں عطاءالحق قاسمی کا نام بھی لے رہا ہے۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے یہ دونوں احباب ادیب شاعر نہ ہوں کوئی آرکیٹیکٹ ہیں جنہوں نے پاک چائنا سنٹر کی تعمیر کرائی تھی۔ یہ دونوں نامور ادیب و شاعر اوّل و آخر قلم سے وابستہ ہیں نہ تو یہ پاک چائنا سنٹر کے مالک ہیں نہ ہی اس سنٹر کی تعمیر میں ان سے کوئی مشورہ کیا گیا۔
مَیں پاک چائنا سنٹر میں آج سے چار برس قبل بھی گیا تھا جب انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کی طرف سے کانووکیشن کا اہتمام کیا گیا تھا اس کانووکیشن میں میرے بیٹے نے ڈگری لینا تھی اور مَیں اپنی پوری فیملی سمیت موجود تھا۔ چار برس قبل سے لے کر اس سال اپریل تک اس ہال کی خوبصورتی اب بھی ویسے کی ویسے ہی تھی۔ کانووکیشن میں سینکڑوں بچوں نے وائس چیف آف آرمی سٹاف سے اپنے میڈل اور ڈگریاں وصول کیں۔ موسیقی کا پروگرام ہوا وغیرہ وغیرہ۔ تب بھی پاک چائنا فرینڈشپ سنٹر کے وسیع و عریض سٹیج پر طالب علم آتے جاتے رہے۔ تب سے لے کر اس سال اپریل تک کئی بار اس سنٹر میں جانا ہوا تو خدا کا شکر یہ ہوا کہ کبھی بھی سٹیج پر کوئی اس قسم کا حادثہ پیش نہ آیا۔ اس مرتبہ فرزانہ ناز سٹیج سے واپس آتے ہوئے گر گئیں تو کچھ لوگوں نے یہ لکھا کہ ادبی تقریبات کے لیے بارہ فٹ اونچا سٹیج کیوں بنایا گیا۔ تو ایسے دوستوں کے لیے عرض ہے کہ پاک چائنا سنٹر اسلام آباد کا سٹیج مستقل بنیادوں پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں کسی بھی تقریب کے لیے الگ سے کوئی چیز Plan نہیں کی جاتی۔ یہ حادثہ تو اصل میں پاک چائنا سنٹر کے ناقص ڈیزائن کی وجہ سے پیش آیا۔ فرزانہ ناز کے قتل کی اگر کوئی ایف۔آئی۔آر بنتی ہے تو اس پر بنتی ہے جس نے اس عمارت کا نقشہ منظور کیا۔ اس کے بعد یہ بھی دیکھا جائے کہ فرزانہ ناز کو کسی نے دھکا دیا یا خود ہی سیڑھیوں سے پھسل کر گری۔
فرزانہ ناز نوآموز شاعرہ تھی جس کا ایک ہی شعری مجموعہ ”ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے“ منظرِ عام پر آیا۔ وہ یہی مجموعہ ہاتھوں میں اٹھائے سٹیج کی طرف بڑھی اور موت کی وادی میں اُتر گئی۔ میٹرک بھلوال کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سے کیا۔ زمانہ طالب علمی سے فرزانہ ناز نے شاعری کا آغاز کیا۔ بی۔ایڈ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا جبکہ ایم۔اے اُردو پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ بطور کالم نگار انہوں ”فرزانگی“ کے قلمی نام سے کالم لکھے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
چہرہ کس کس کا یاد رکھتے ہم
عکس دھندلا گئے تھے پانی میں
….٭….
ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے
پاؤں میں کتنے اور سفر ہیں
….٭….
کہانی محبت کی کچھ بھی نہیں
بناتی ہے اس کو وفا خوبصوت
….٭….
ایک محبت اور بھی کرنا
مرنا ہے تو شوق سے مرنا
….٭….
کب سے ضد پہ اڑا ہوا ہے
ایسے بھی کوئی بڑا ہوا ہے
فرزانہ ناز کو زخمی ہونے کے بعد جب الشفا انٹرنیشنل ہسپتال میں منتقل کیا گیا تو اس کو جاتے ہی ڈاکٹروں نے وینٹ پر ڈال دیا۔ اسلام آباد سے چند خواتین لکھنے والیاں جب اس کی عیادت کو گئیں تو نیم مُردہ فرزانہ ناز کے ساتھ جب سیلفی بنا کر فیس بک پر لگائی گئی تو ان سے یہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ یہ کون سا دستورِ وفا ہے کہ ایک شخص زندگی و موت کی کشمکش میں پڑا ہے اور اس کی دوست اپنی سیلفی بنا کر لائیک اور کومنٹ کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ دوسری طرف عرفان صدیقی نے فوری طور پر سرکاری سطح پر فرزانہ ناز کے علاج معالجے کی ذمہ داری نہ صرف اٹھائی بلکہ اس کے لیے ہسپتال انتظامیہ کو خصوصی طورپر ہدایت بھی دی۔ فرزانہ ناز گرتے ہی اتنی شدید زخمی ہو گئی تھیں اگر وہ کسی اور ملک میں بھی ہوتیں تو شاید زندگی کی طرف واپس نہ آ سکتیں۔ بہرحال فرزانہ ناز کی موت نے درجنوں لکھنے والوں کے چہرے بھی میرے سامنے آشکارا کر دیئے ہیں۔ کاش یہ سب کچھ مَیں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا کہ سب سے پہلے فرزانہ ناز کا سیڑھیوں سے گرنا۔ بے ہوش ہونا۔ حادثے کے بعد دولے شاہ کے چوہوں کا کاسہ لے کر باہر آ جانا۔ کالم لکھتے لکھتے فیس بک پر ایک نظر ڈالی تو کسی سماجی رہنما نے یہ بھی مطالبہ کر دیا ہے مرحومہ کے بچوں کے نام ایک کروڑ روپے کا فوری امدادی چیک جاری کیا جائے۔ کیا مرحومہ اپنے گھر کی واحد کفیل تھی؟ ان کا شریکِ حیات خدانخواستہ اس قابل نہیں ہے جو فرزانہ ناز کے دو بچوں کی روٹی پوری نہ کر سکے۔ فرزانہ ناز نے شاید انہی لمحوں کے لیے کہا تھا:
سب کے اپنے کھیل تماشے ہیں
کسی کی ریلی کسی کا دھرنا
شکر یہ ہے کہ فیس بک کی بیماری پروین شاکر کے حادثے کے دنوں میں نہیں تھی ورنہ یار لوگ تو اس کے لیے کروڑوں روپے کی امداد کا مطالبہ کر دیتے۔ اب مٹھی بھر لوگوں نے روزانہ یہ معمول بنا لیا ہے کہ وہ صبح سویرے فرزانہ ناز کے حوالے سے ایک پوسٹ تحریر کرتے ہیں اور اس کے بعد فرزانہ ناز کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اصولی طور پر اسلام آباد کے میئر کو فوری طور پر پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر اسلام آباد کے ہال اور سٹیج کے نقائص کا جائزہ لینا چاہیے اس کو فوری طور پر دور کر کے اعلان کرنا چاہیے کہ فرزانہ ناز کی موت کے بعد سنٹر میں یہ یہ تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید، عطاءالحق قاسمی اور عرفان صدیقی کی کوششوں سے فرزانہ ناز کے لواحقین کو لاکھوں کی امداد دے دی گئی ہے۔ اور میری ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے گزارش ہے کہ وہ مرحومہ کی کتاب کا سارا ایڈیشن خرید کر کے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے تمام آؤٹ لیٹ کو بھجوائیں تاکہ اُن کی کتاب ہر کتاب دوست تک پہنچ سکے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ