دس پندرہ برس پہلے کی بات ہے کہ مَیں ملتان کے دو صوفی بزرگ حضرت شاہ یوسف گردیز اور حضرت شاہ شمس سبزواری کے متعلق کتاب لکھ رہا تھا اسی وجہ سے اُن دنوں میرے سرہانے تواریخ ملتان کی بے شمار کتب موجود ہوتی تھیں۔ ان دونوں بزرگوں کے متعلق جب کھوج کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ مَیں نے ایک مشکل راہ کا انتخاب کر لیا ہے۔ کیونکہ دونوں بزرگوں کے متعلق مصدقہ دستیاب مواد بہت کم تھا۔ حضرت شاہ یوسف گردیز کے بارے میں نامور سرائیکی شاعر، دانشور اور افسانہ نگار حسن رضا گردیزی کی مکمل کتاب پہلے سے موجود تھی لیکن مَیں اس کے باوجود کچھ اور کی تلاش میں بھی تھا۔ ایسے میں لاہور سے شائع ہونے والی حسن نواز گردیزی کی کتاب ”غبارِ زندگی“ مجھے ملی۔ یہ کتاب پڑھنے سے پہلے خیال تھا کہ حسن نواز گردیزی نے خودنوشت میں اپنے جدِ امجد کے بارے میں وہی کچھ تحریر کیا ہو گا جو اس سے پہلے تواریخ ملتان کی کتب میں درج ہے۔ کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو اس کے انتساب پر نظر پڑتے ہی معلوم ہو گیا کہ یہ کتاب عام کتابوں سے مختلف ہے۔ حسن نواز گردیزی کی یہ کتاب 1997ء میں شائع ہوئی جب پاکستان کو بنے 50 سال ہوئے تھے۔ حسن نواز گردیزی نے انتساب کچھ یوں لکھا:
”پاکستان کی پچاسویں برسی کی نذر“
انہوں نے کتاب کا پہلا باب خانقاہ کے عنوان سے تحریر کیا۔ یہ باب پڑھتے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا کہ حسن نواز گردیزی روایت سے بغاوت کرنے والا شخص ہے۔ جس نے گردیزی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود اپنے بزرگ کی خانقاہ کے بارے میں کچھ یوں لکھا: ”ہماری گلی کے موڑ پر اور محلے کے بیچوں بیچ ایک وسیع خانقاہ تھی جو ہمیں بہت عظیم اور پراسرار لگتی تھی۔ مزار کے اردگرد خاندان کے گزرے ہوئے افراد کی قبریں بکھری ہوئی تھیں اور اس کے سامنے لکڑی کی بنی ہوئی ایک بہت پرانی مسجد تھی۔ کہتے ہیں یہ مسجد شیرشاہ سوری نے بنوائی تھی۔ محرم کی مجالس کے علاوہ امام بارگاہ میں عیدین کی نمازیں پڑھائی جاتی تھیں جن میں شہر کے تمام شیعہ نمازی شرکت کرتے تھے۔ خانقاہ کے مغربی دروازے کے بالمقابل خاندان کے مخدوم اور مزار کے سجادہ نشین کی بیٹھک تھی جسے دیوان خانہ کہتے تھے۔ ہمارے خاندان کی شادی کی تقاریب میں دلہا میاں رات کے بارہ ایک بجے کہیں سے گھیر گھار کر لایا جاتا۔ مخدوم صاحب کے ہاتھوں دلہا صاحب کے سر پر سہرا باندھ دیا جاتا۔ مولوی صاحب آگے بڑھ کر نکاح پڑھتے جس کے بعد پیچھے کھڑا ہوا نائی دُعائے خیر کا نعرہ لگاتا۔ پھر خاندان کے دوامی سہرا نویس اور مظفر گڑھ کے مرنجان مرنج شاعر کشفی ملتانی محفل کے درمیان آ کر کھڑے ہو جاتے، ترنم کے ساتھ سہرے کی ابتدا کرتے جس پر ان کو واہ واہ کی آوازوں سے داد دی جاتی۔ اُن دنوں ملتان سے شمس نامی ایک ہفتہ وار اخبار نکلتا تھا جسے والد صاحب بڑی باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے۔ اس کے سفید ریش ایڈیٹر صاحب اُس کی ماہانہ قیمت وصول کرنے کے لیے بذاتِ خود ڈیوڑھی میں آیا کرتے تھے۔ اکثر تو اُن کی آمد پر والد صاحب ہمارے یا کسی اور کے ہاتھوں واجب الادا رقم انہیں بھجوا دیتے لیکن بعض اوقات خود ڈیوڑھی میں جا کر اُن ایڈیٹر صاحب کو مطلع کرتے کہ اس ماہ ہمیں اخبار میں کوئی کام کی چیز پڑھنے کو نہیں ملی۔ اس لیے اخبار کی آدھی یا آدھی سے بھی کم قیمت ادا کی جائے گی۔ بڑی تکرار کے بعد وہ ایڈیٹر صاحب جو کچھ ملتا غنیمت جان کر لے جاتے۔ اس وقت ہماری ہمدردیاں ایڈیٹر صاحب کے ساتھ ہوتی تھیں۔ مگر آج کل خیال آتا ہے کہ اگر ہر اخبار پڑھنے والے کو ابا جی جیسا اختیار حاصل ہوتا تو ہماری اُردو صحافت اس قدر پستی کا شکار نہ ہوتی۔“
یہ حسن نواز گردیزی سے ہمارا پہلا غائبانہ تعارف تھا۔ جب ہم نے حضرت شاہ یوسف گردیز اور حضرت شاہ شمس سبزواری پر کتاب لکھ کر شائع کرائی اور حسبِ روایت و توفیق دوستوں کو تحفتاً بھی پیش کی۔ اس کتاب میں ہم نے حضرت شاہ یوسف گردیز کی خانقاہ کے متعلق اقتباس بھی شامل کیا تاکہ گردیزی خاندان کے ایک نامور فرد کے خیالات بھی کتاب کا حصہ بن جائیں۔ کتاب کی اشاعت کے پانچ سال بعد علی سجاد گردیزی کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد علی گردیزی ایک دن کسی بزرگ کے ساتھ میرے ہاں تشریف لائے۔ محمد علی گردیزی نے میرا بزرگ سے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ حسن نواز گردیزی میرے ماموں ہیں۔ یہ بھی کتابیں لکھتے ہیں اور آج کل ٹورنٹو میں ہوتے ہیں۔ مَیں نے انگریز نما ایک بزرگ سے ہاتھ ملایا۔ ہاتھ ملاتے ہی اُن سے سوال کیا، کیا آپ غبارِ زندگی والے حسن نواز گردیزی ہیں؟ ڈھلتی عمر کے بزرگ نے میرے سوال کے جواب میں انگریزی لہجہ میں کہا ہاں وہ کتاب مَیں نے ہی لکھی ہے۔ کیا آپ نے وہ کتاب پڑھی ہے؟ مَیں نے انہیں بتایا شاہ جی وہ کتاب نہ صرف مَیں نے پڑھی ہے بلکہ اس میں سے کچھ اقتباس بھی حضرت شاہ یوسف گردیز والی کتاب میں شامل کیے ہیں۔ یہ سنتے ہی انہوں نے کہا کیا ہم آپ کے ساتھ کچھ وقت گزار سکتے ہیں۔ مَیں نے بسم اﷲ کہہ کر انہیں کرسی پیش کی۔ اب انہوں نے مجھے کچھ نایاب کتب کی فراہمی کی فرمائش کر دی۔ مَیں نے ان سے کہا یہ کتابیں ایک عرصے سے آؤٹ آف پرنٹ ہیں لیکن پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ آپ کے لیے کسی کے ذمہ لگاؤں۔ حسن نواز گردیزی نے کہا یہ کتابیں لاہور میں کسی کے پاس نہیں ہیں۔ آپ کراچی سے معلوم کریں۔ پھر حسن نواز گردیزی ملکی حالات کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد واپس چلے گئے۔
مَیں نے کچھ عرصے بعد حسن نواز گردیزی کے بھانجے محمد علی گردیزی سے رابطہ کیا اور ان سے دریافت کہ کیا ماموں کہاں ہیں؟ کہنے لگے اگلے ہفتے واپسی ہے۔ مَیں نے ان سے حسن نواز گردیزی کا نمبر لیا۔ فون پر رابطہ کیا تو اپنا تعارف کرایا تو کہنے لگے اگرچہ مَیں اب اُردو کتب نہیں پڑھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلسل بیرونِ ملک رہنے کی وجہ سے اب زیادہ تر مطالعہ انگریزی کتب کا کرتا ہوں۔ کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوتا ہے شاید اُردو مجھے بھول ہی جائے گی۔ گھر کا ماحول، بچے اور سب سے بڑھ کر جس ملک میں رہتا ہوں وہاں سب کچھ ہی انگریزی میں ہے اس لیے مَیں اُردو سے دور ہونے کے باوجود اگر کبھی کوئی اُردو کی اچھی کتاب دکھائی دے تو اسے پڑھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ مَیں نے آپ کی حضرت شاہ یوسف گردیز اور حضرت شاہ شمس سبزواری والی کتاب دیکھی ہے اس میں بہت سی نئی معلومات ملی ہیں۔ میری کتاب کے متعلق ان کا یہ کہنا اعزاز کی بات تھی۔ چند دن بعد وہ واپس ٹورنٹو لوٹ گئے۔ پھر ان کا اپنی کتابوں کی کھوج میں گاہے گاہے فون آتا تو مَیں انہیں بتاتا کہ آپ کی تمام کتب تقریباً آؤٹ آف پرنٹ ہیں۔ تو کہتے کوشش کریں کتابیں مل جائیں۔ مجھے یہ کتابیں لازمی پڑھنی ہیں۔ وقت گزرتا رہا۔ زندگی کی مصروفیت میں حسن نواز گردیزی کی آرڈر کردہ کتب تلاش نہ کر سکا۔ اس دوران ان کے بہنوئی علی سجاد گردیزی اور ان کے بیٹے محمد علی گردیزی سے ملاقات ہوتی رہی لیکن وہ ملاقاتیں ایسے مواقع پر ہوئیں کہ مَیں کبھی حسن نواز گردیزی کی خیریت دریافت نہ کر سکا۔
پھر یکم مئی 2017ء کو معلوم ہوا کہ حسن نواز گردیزی کا انتقال ہو گیا ہے۔ یہ افسوس ناک خبر بھی ہمیں حسن مجتبیٰ کے خوبصورت کالم کے ذریعے ملی جو انہوں نے حسن نواز گردیزی کی موت پر لکھا۔ انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر قلم اٹھایا۔ کالم پڑھتے ہوئے کئی بار آنکھیں نم ہوئیں۔ مَیں نے اُسی لمحے اُن کے بھانجے محمد علی گردیزی سے رابطہ کیا، حسن نواز گردیزی کی موت کا افسوس کیا۔ مَیں نے پوچھا وہ کب ہم سے جدا ہوئے۔ محمد علی گردیزی کہنے لگے شاکر بھائی 8 جنوری 1911ء کو دنیا میں آنے والے میرے پیارے ماموں نے 19 اپریل 2017ءکو ٹورنٹو میں دنیا کو خیرباد کہا۔ ان کی موت پر ٹورنٹو کے دوستوں نے فیس پر بک پر ان کے بارے میں درج ذیل پوسٹ لگائی:
It is with extreme sorrow that the Committee of Progressive Pakistani Canadians announces the death of Dr. Hassan Nawaz Gardezi, one of the founding members of CPPC, a lifelans and a tireless activist against imperialism and wars for equality for all, justice, peace, secularism and socialism.
مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی حسن نواز گردیزی کی زندگی کو سمجھنا چاہتا ہے تو وہ مندرجہ بالا عبارت کا مطالعہ کرے تاکہ اسے معلوم ہو کہ ماضی میں کسی طرح کے لوگ پاکستان سے ہجرت کر گئے تھے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ