یہ اُن دنوں کا قصہ ہے جب ہندوستان میں پہلا ٹیلی ویژن چینل ،دُوردرشن کے نام سے قائم ہوا، وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تخلیقی اور ڈرامائی شخصیت کے سامنے ایک بونا سا تھا۔ نہایت معمولی اور بچگانہ نوعیت کا لیکن کبھی کبھار وہاں کوئی تاریخی شخصیت انٹرویو کے لئے آ بیٹھتی اور وہ غیرمعمولی ہو جاتا۔۔۔ اور اِن میں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے خوش شکل وِلن پران کا انٹرویو تھا۔ میزبان اُن سے اُن کی حیات اور اداکاری کے بارے میں جو بھی سوال کرتا اُن کا جواب اسی فقرے سے شروع ہوتا کہ لاہور کے حوالے کے بغیر میری حیات مکمل نہیں ہوسکتی اور بالآخر میزبان نے تنگ آکر کہا، پران صاحب آپ کی ہر بات کی تان لاہور پر آکر ٹوٹتی ہے۔۔۔ آپ ساری زندگی بمبئی میں رہے اُس کا تذکرہ نہیں کرتے، لاہور کو ہی پکارتے رہتے ہیں حالانکہ آپ تو وہاں صرف پیدا ہوئے تھے، جوان ہوئے تھے، ایک دو فلموں میں بھی کام کیا پھر بمبئی میں چلے آئے جہاں سے آپ کی شہرت کا آغاز ہوا تو پران نے اپنی سحرانگیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا، یہ درست کہ بمبئی نے مجھے بے مثال شہرت سے ہمکنار کیا لیکن یہ شہر تو نہیں تجارتی مفادات اور ثقافتی ملغوبوں کی ایک بستی ہے۔۔۔ شہر تو لاہور ہے، آپ تصور نہیں کرسکتے کہ میرے زمانوں کا لاہور کیا تھا، وہاں کیسے کیسے مصور، اداکار، شاعر ، ادیب اور پہلوان ہوا کرتے تھے، میں ایک مثال دیتا ہوں۔۔۔ اُن دنوں لڑکیاں دو چوٹیاں کیا کرتی تھیں اور اُن میں رِبن باندھتی تھیں، اگر کسی سویر ایک لاہوری لڑکی غلطی سے ایک ہی رنگ کی بجائے دو مختلف رنگوں کے رِبن چوٹیوں میں باندھ لیتی تھی ، ایک سرخ اور دوسرا زرد رنگ کا تو راس کماری سے لے کر کشمیر تک کی سب ہندوستانی لڑکیاں اپنے بالوں میں سرخ اور زرد رنگ کے رِبن سجا لیتی تھیں کہ لاہور والیوں نے یہ فیشن کیا ہے، پورا ہندوستان لاہور میں سے جنم لینے والے فیشن کی پیروی کرتا تھا تو لاہور ایسا تھا۔۔۔ میں کہیں تذکرہ کر چکا ہوں کہ تقریباً پندرہ بیس برس پیشتر میں کسی کوہ نورد آوارگی کے بعد گھر واپس آیا تو میمونہ کہنے لگی، تمہاری غیرموجودگی میں سکندر شاہین کے متعدد فون آئے تھے، تم اُس سے رابطہ کر لو۔۔۔ سکندر شاہین کو لوگ بھول چکے ہوں گے لیکن وہ لاہور کا ایک بانکا شخص تھا، ایک پکا صاحب جو قائداعظم کی طرح دو رنگوں کے شوز پہنتا تھا، سٹیج اور ٹیلی ویژن کا ایک منفرد اداکار تھا، اُس کے گلبرگ والے گھر میں ہماری ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ خیریت تھی، کہنے لگا، بمبئی سے ایک مشہور ہدایت کار چوپڑہ صاحب اور اُن کے نائب لاہور آئے تھے (شاید وہ یش چوپڑا تھے لیکن مجھے یاد نہیں) ۔۔۔ اُن کے پاس ٹیلی ویژن پر لکھنے والے ڈرامہ نگاروں کے کچھ نام تھے اور اُن میں آپ کا نام بھی تھا، انہوں نے پیشکش کی تھی کہ اگر تارڑ صاحب میرے لئے ایک فلم لکھنا پسند کریں تو میں انہیں بمبئی میں خوش آمدید کہوں گا اور سب اخراجات کا ذمہ دار ہوں گا۔۔۔ آپ اُن سے پوچھ کر مجھے فون کردیجئے گا میں فوری طور پر ٹکٹ بھجوا دوں گا۔۔۔ میں اگرچہ قدرے خوش تو ہوا پر میں نے کہا۔۔۔ سکندر شاہین، بمبئی فلم انڈسٹری دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے جہاں دنیا بھر کا ٹیلنٹ موجود ہو تو چوپڑہ صاحب مجھ ایسے گمنام ڈرامہ نگاروں کے تعاقب میں لاہور کیوں چلے آئے۔۔۔ اس پر سکندر کہنے لگا۔۔۔ میں نے اُن سے بالکل یہی سوال پوچھا تھا اور چوپڑہ نے کہا تھا کہ سکندر صاحب، بمبئی کی فلم انڈسٹری میں جتنی بھی تخلیقی ٹیلنٹ ہے، وہ ہدایت کاری ہو، اداکار ی کا جوہر ہو یا کہانی کی پرکھ ہو اُس میں یا تو بنگال ہے اور یا پھر زیادہ حصہ پنجاب کا ہے۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں جتنا بھی پنجاب کا تخلیقی زور تھا وہ کم پڑتا جا رہا ہے اس لئے میں اُس تخلیق کے بڑے سرچشمے لاہور آیا ہوں۔۔۔ لاہور کا ڈرامہ نگار جو کچھ بھی لکھے گا، وہ یقیناًکمال کا ہو گا۔۔۔ چوپڑہ صاحب نے یہ بھی کہا کہ پنجاب کی ہیروئن اور پشاور کا ہیرو ہر نئی فلم کی کامیابی کی ضمانت ہیں چاہے ہیروئن نے کبھی پنجاب نہ دیکھا ہو یا ہیرو ایک مخدوش سا محض نام کا ’’خان‘‘ ہو۔
میں دنیا میں جہاں کہیں بھی گیا، لاہور وہ جادو بھرا نام تھا جس کے سحر سے سب دروازے کھلتے چلے جاتے تھے۔۔۔ ریاض میں مقیم میرے ایک چاہنے والے صحافی جاوید اقبال ہیں اور یہ اُن کا بیان ہے کہ امریکا میں مقیم اُن کی ڈاکٹر بیٹی دماغ کی ایک خصوصی سرجری کی ٹریننگ لینے کے لئے نیویارک کے ایک ایسے ہسپتال میں ریذیڈنسی کی خواہش مند تھی جہاں صرف ایک ہی نشست مخصوص تھی، اُس کی ایک جاپانی کولیگ کو گمان تھا کہ صرف وہ اس نشست کی حقدار ٹھہرے گی کیونکہ اُس شعبے کی انچارج بھی ایک معمر جاپانی ڈاکٹر تھیں۔۔۔ جاوید اقبال کی بیٹی نے کچھ کوائف جمع کئے اور معلوم ہوا کہ وہاں ایک نہایت سینئر سِکھ ڈاکٹر ایک بلند عہدے پر فائز ہیں اور اُن کے والد، لاہور کے ہیں۔۔۔ اُس نے بمشکل ملاقات کے لئے وقت حاصل کیا اور سردار جی سے کہنے لگی، سر، میں بھی لاہور کی ہوں۔۔۔ لیکن فیصلہ اُس جاپانی ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہے جو یقیناًمیری جاپانی کولیگ کی طرفداری کرے گی تو سردار جی کہنے لگے، پُتر تو فکر ہی نہ کر۔۔۔ جاپانیوں کی ایسی تیسی۔۔۔ تو میری لاہورن بیٹی ہے تو تجھے داخلہ ملے ہی ملے۔۔۔ اور داخلہ مل گیا، یہ لاہور کے جادو ہیں۔
دِلّی میں سارک کانفرنس کے دوران معلوم ہوا کہ انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں جہاں میں مقیم تھا ہر اتوار کو بوڑھے بابوں کا ایک اجتماع ہوتا ہے جہاں یہ سب حضرات لاہور کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں، اس کے گلی کوچوں کو یاد کرتے ہیں اور اس اجتماع میں شریک ہونے کے لئے ایک لاہوری ہونا شرط ہے اور اس محفل کے روح رواں وغیرہ پران نِول ہیں، پران نِول، لاہور کے بارے میں لکھی جانے والی ایک تاریخی کتاب کے مصنف ہیں، نسبت روڈ پر کہیں رہتے تھے، صحافت اور سفارت کاری کے خارزاروں کو طے کرتے اب کسی حد تک بوڑھے ہو چکے ہیں، انہوں نے گورنمنٹ کالج کی شان میں بھی ایک قصیدہ لکھا اور جب گورنمنٹ کالج میں اُن کے اعزاز میں ایک محفل کا اہتمام ہوا جس میں اُنہوں نے خصوصی طور پر مجھے مدعو کیا تو وہ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے اور انہوں نے وہاں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’میں آج اپنے بیٹے کو نسبت روڈ لے کر گیا تھا کہ بیٹا تمہارا باپ یہاں پیدا ہوا تھا اور تم نے ہمیشہ یاد رکھنا ہے کہ یہی تمہارا وطن ہے، تم ایک لاہوری ہو۔۔۔ میرے بعد تم نے اس سرزمین کے ساتھ جُڑے رہنا ہے۔۔۔‘‘
تلمیذ حقانی میرا ایک محسن اور دوست اپنے اکلوتے بیٹے کو انکار نہ کرسکا اور اُسے مجبوراً کینیڈا منتقل ہونا پڑا اور وہاں دن بہ دن اُس کی صحت گرتی چلی گئی، وہ ٹورنٹو میں مقیم لاہوریوں کو تلاش کرتا اور اُن کے پاس جا کر فریاد کرتا کہ مجھے آپ سے کوئی کام نہیں، پلیز میرے ساتھ لاہور کی باتیں کریں یہاں تک کہ اُس کا فرمانبردار بیٹا بینک کی ایک بڑی ملازمت کو ترک کرکے اُسے لاہور لے آیا اور وہ اسی مٹی میں دفن ہوا۔
البتہ ایک نہ سمجھ میں آنے والا وقوعہ ہے کہ سوائے مجید لاہوری یا اکبر لاہوری کے کسی اور ادیب نے اپنے نام کے ساتھ لاہور کا لاحقہ منسلک نہ کیا جبکہ ۔۔۔ دہلوی، لکھنوی، ملیح آبادی، کیرانوی، ناناتوی، جالندھری، میرٹھی، پانی پتوی، امروہوی، امرتسری، الہ آبادی، یہاں تک کہ مچھلی شہری بھی کثرت میں پائے جاتے ہیں، اس کی کوئی نہ کوئی توجیہہ تو ہوگی۔
فیس بک کمینٹ