مئی کے آغاز میں ملتان کے نوجوان سیاست دان اور مقرر شعلہ بیان انتظار حسین قریشی مرحوم کے چھوٹے بھائی غلام مصطفی کا فون آیا۔ کہنے لگا بھائی جان آپ کے دوست انتظار حسین قریشی کی آٹھویں برسی آ گئی ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ اس پر لازمی کچھ لکھیں۔ مَیں نے انتظار حسین قریشی کے بھائی سے وعدہ کر لیا۔ اس برسی پر مَیں اپنے کالم میں ضرور حاضری لگاؤں گا۔ مئی گزر گیا، جون شروع ہو گیا لیکن غلام مصطفی کا اصرار بڑھتا گیا۔ اس دوران رمضان المبارک بھی اپنے جوبن پر آ گیا۔ تو مجھے یاد آیا رمضان میں میرے ایک اور دوست اور لکھاری عارف الاسلام صدیقی کا بھی انتقال ہوا تھا۔ ان دوستوں میں تیسرا نام ڈاکٹر کریم ملک کا آتا ہے۔ جنہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز نہایت معمولی نوکری سے کیا لیکن جب وہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسی سے ریٹائر ہوئے تو شعبہ صحافت کے سربراہ تھے۔
سو آج کا کالم ملتان کی ان تین بھولی بسری یادوں کے نام ہے۔ جنہوں نے ملتان کی ادبی، ثقافتی، صحافتی، علمی، سماجی اور سیاسی زندگی میں خوب شہرت پائی۔ انتظار حسین قریشی میرے کالج کے ساتھی تھے۔ لیکن نظریاتی طور پر مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کے نیازمندوں میں سے تھے۔ وہ سیاست میں سابق صوبائی وزیر میاں سعید احمد قریشی اور ڈاکٹر بدر قریشی کے ذریعے آئے۔ پہلے کالج یونین میں انجمن طلباء اسلام کے پلیٹ فارم سے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ سول لائنز کالج ملتان کے مجلہ کے مدیر بنے اور پھر انتظار حسین قریشی کو سیاست کرنے کا جنون ہو گیا۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی لگن انتظار حسین قریشی کے مَن میں بس گئی۔ 1985ء کے انتخابات میں اس نے سعید قریشی کی حمایت کی لیکن چند برسوں بعد اختلافات ہو گئے۔ حالانکہ میاں سعید احمد قریشی ہی انتظار حسین کو لیبر سیٹ کے ذریعے میونسپل کارپوریشن میں داخل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہاؤس میں جا کر انتظار حسین قریشی خوب گرجا۔ ہر اجلاس میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کرتا کہ اگلے دن کے اخبارات اس کی تصاویر اور بیانات سے بھرے ہوتے۔ بس یہی لمحہ اسے اچھا لگتا تھا کہ روز کے اخبار میں اس کا بیان آئے۔ تصویر شائع ہو۔ میرا ہم جماعت ہونے کی وجہ سے وہ اکثر ضد کر کے مجھے اپنے مذاکروں میں حکم دے کر طلب کرتا۔ مَیں اس سے محبت کی بنا پر اجلاس میں چلا تو جاتا لیکن جاتے ہی فوٹوگرافر کو ہدایت کرتا کہ میری تصویر جاری نہ کرنا کیونکہ اس کے ہر اجلاس میں وہی ’’فوٹو مافیا‘‘ ہوتا جنہوں نے آج بھی فیس بک و واٹس ایپ کے ذریعے اپنی تصاویر کو درجنوں کے حساب سے پوسٹ کرنے کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے۔ بہرحال انتظار حسین قریشی میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ روز ایک تقریب کا اہتمام کرتا اس کی خبر خود ہی جاری کرتا، تصویر بنوا کر ملتان کے تمام اخبارات کے دفاتر جا کر خود دے کر آتا۔ یوں اس کے معمولات گزر رہے تھے کہ ایک دن اسے پابہ زنجیر کر دیا گیا۔ شادی پر مَیں اس لیے شریک نہ ہو سکا کہ انہی دنوں میرے ناک کا آپریشن ہوا جو کامیاب نہ ہو سکا۔ انتظار حسین قریشی کو جب میری بیماری کا علم ہوا تو وہ فوراً عیادت کے لیے گھر آیا۔ میری اس سے ہفتے میں دو تین ملاقاتیں لازمی ہوتی تھیں کہ کبھی کسی تقریب میں، یا نوائے وقت کے دفتر میں جہاں وہ اپنے مضامین دینے آتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی داڑھی لمبی ہوتی گئی اور شلوار ٹخنوں سے اوپر۔ مَیں اسے چھیڑا کرتا۔ انتظار حسین تو کوئی اپنے محلے کی مسجد سنبھال لے۔ جواب میں کہتا میرے علاقے کی تمام مساجد پر تو پہلے سے قبضہ چل رہا ہے۔ اگر آپ مجھے کسی مسجد کا پیش امام بنوا دیں شکر گزار ہوں گا۔ مَیں اسے کہتا انتظار اگر تو کہے تو مَیں تم کو کسی شیعہ مسجد میں ایڈجسٹ کروا دیتا ہوں۔ کہنے لگا لازمی کسی شیعہ مسجد میں ایڈجسٹ کروا دیں کہ میرے سسرال والے آدھے شیعہ ہیں۔ دس محرم الحرام کو وہ ہمیشہ روزے سے ہوتا لیکن وہ چوک بازار میں سبیل لگا کر کھڑا ہوتا۔ اس سبیل پر کبھی ٹھنڈا پانی ہوتا تو کبھی شربت۔ شہر والوں میں ہر وقت اپنا نام مشہور کرنے کے لیے وہ ہر وقت سرگرمِ عمل رہتا کہ ایک دن معلوم ہوا کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کے جنازے پر وہ دھاڑیں مارتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ ایک ہی جملہ کہتا تھا مَیں تیرے بغیر نہیں رہوں گا کہ پھر چند دن بعد وہ خود بھی اُسی منزل کا راہی ہو گیا۔ جہاں پر اس کی والدہ آسودۂ خاک تھیں۔ مجھے جبار مفتی نے اس کے انتقال کی خبر دی۔ جنازہ اتنا بڑا تھا کہ اس کا اگلا سرا جی پی او گراؤنڈ تھا تو آخری سِرا پل شوالہ کو کراس کر رہا تھا۔ جنازے میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ انتظار حسین کو اسی لمحے کا انتظار تھا کہ پورا شہر اس کا گرویدہ ہو جائے۔ اس کا جنازہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ہزاروں لوگ اسے رخصت کرنے کے لیے کھڑے تھے۔ لیکن کسی کو کیا معلوم کہ انتظار حسین قریشی نے یہ شہرت پانے کے لیے کتنی راتوں کی نیند غارت کی۔ دن کا سکون برباد کیا۔ تب جا کر کہیں یہ بے وفا شہرت ملتی۔ انتظار حسین قریشی کو عارضی شہرت مل چکی تھی لیکن دائمی موت اسے مل چکی تھی۔ اس کے بچے اتنے معصوم تھے کہ انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ وہ یتیم ہو چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور آج آٹھ برس بعد اس کی گزری برسی پر کتنی ہی باتیں یاد آ گئیں۔
یاد سے یاد آیا کہ رمضان المبارک کی 21 تاریخ تھی کہ میرے بھائیوں جیسے دوست شیخ سلیم ناز کا فون آیا، اس نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے عارف الاسلام صدیقی کا انتقال ہو گیا ہے۔ مَیں نے انکار میں جواب دیا تو کہنے لگا عصر کے بعد گلگشت کالونی میں جنازہ ہے۔ عارف الاسلام صدیقی بنیادی طور پر بینکار تھا۔ لیکن علم و ادب سے شغف ہونے کی وجہ سے شہر کی ہر ادبی تقریب میں نظامت کرتا اور خوب کرتا۔ عارف صدیقی کو دوست جمع کرنے کا بہانہ چاہیے ہوتا تھا۔ کبھی وہ اپنی شادی کی سالگرہ کرتا تو کبھی اپنے بچوں کی سالگرہ پر دوستوں کی دعوت کرتا۔ اس کے گھر میں بھی ہر وقت ملنے والوں کا رش رہتا کہ وہ خاطر مدارت کر کے خوش ہوتا اس نے اپنے لکھنے کا آغاز نوائے وقت میں تحریکِ پاکستان کی مختلف شخصیات کے حالاتِ زندگی پر قلم اٹھا کر کیا۔ اس کی لائبریری میں تحریکِ پاکستان کے کارکنوں کے متعلق ایسا مواد موجود تھا جو ملتان میں کسی اور کے پاس نہیں تھا۔ وہ مضامین بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے۔ (جاری ہے)
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ