میں نے ملتان میں ان کے دفتر میں ایک ملاقات میں کہا تھا احسن صاحب آپ کا برسرِ اقتدار سیاست دانوں سے رویہ بڑا عجیب ہوتا ہے۔ ان کی بات کو اَن سنی کر دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس آپ کے پاس کوئی گندے کپڑے پہن کر آ جائے اسے گلے لگاتے ہیں۔ کوئی روتا ہوا آئے اس کے آنسو پونچھتے ہیں۔ دکھ بیان کرے تو پہلے اپنی آنکھوں کو نم کرتے ہیں اور پھر متعلقہ افسر کو میرٹ پر تفتیش کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ دفتر میں روز کھلی کچہری لگا کر لوگوں کے مسائل کم کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ ملتان پولیس کو ایسا افسر ملا ہے جس کی نظر میں حکومتی عہدے دار اہم نہیں بلکہ دکھ درد کے مارے لوگ اہم ہیں۔ وہ اپنے ہر سائل کی بات کو نہ صرف غور سے سنتا ہے بلکہ مسئلہ حل ہونے تک اس کا تعاقب کرتا ہے۔ مَیں ایک خاموش تماشائی بن کر محمد احسن یونس کا لگایا ہوا یہ روزانہ کا تماشا دیکھتا رہا اور انتظار کرتا رہا جس شخص نے شہداءکے بچوں اور ان کے خاندانوں کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ جس نے پولیس لائن اور اپنے گھر کے باہر شہداءکی تصاویر کو آویزاں کیا۔ قلعہ کہنہ ملتان کے 15 کے قریب عوام کی خدمت کے لیے مرکز قائم کیا۔ ایک ہی چھت کے تلے لوگوں کے لیے بے شمار سہولیات فراہم کیں۔ وہ جنونی افسر ہے عوام کی خدمت کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہا۔ جب تک محمد احسن یونس ملتان پولیس کے افسر کے طور پر کام کرتے رہے ہر تھانے میں ان کی موجودگی کا خوف رہا۔ تھانوں کا نقشہ تبدیل کیا۔ فرنیچر، کمپیوٹرز، واش رومز اور دیگر سہولیات سے آراستہ کیا۔ ہر کام کی بذاتِ خود نگرانی کی۔ چونکہ فیملی لاہور میں تھی اس لیے 24 گھنٹے کام کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ خود سوتے تھے نہ کسی کو سونے دیتے تھے۔ رمضان کے دنوں میں ڈی سی ملتان نادر چٹھہ کے ہمراہ سحری کے بعد سبزی منڈی میں پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ کی نگرانی کی۔ پھر سارا دن مختلف بازاروں میں جا کر دوبارہ ریٹ کو چیک کرنا شاید ان کا پسندیدہ کام تھا۔ ان کے دفتر کا دروازہ وی آئی پی کے لیے کم اور حاجت مندوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ ملتان پولیس اہلکاروں کے لیے ان کا ہونا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ بگڑے تگڑے اہلکار اور افسران روزانہ سجدے میں گرتے ان کے تبادلے کی دُعائیں کرتے تھے اور پھر تبادلے کا قصہ بعد میں بیان کرتا ہوں۔
میری سی پی او ملتان محمد احسن یونس سے کوئی ملاقات نہ تھی۔ ایک دن اپنے کمپیوٹر پر بیٹھا وقت گزاری کر رہا تھا کہ بی بی سی کے صفحہ پر سی پی او ملتان کے بارے میں ایک سٹوری دکھائی دی۔ دیکھنے کے لیے فوراً کلک کیا تو معلوم ہوا کہ سی پی ملتان محمد احسن یونس ایک دن گھر سے نکل کر دفتر جانے کی بجائے ملتان رینج کے شہید ہونے والے اہلکاروں کے گھر جاتے ہیں۔ ان کے بچوں کے تحائف ان کے حوالے کر کے کہتے تھے کہ مَیں کل دوبارہ آؤں گا۔ شہداءکے بچوں کو پولیس افسران کی گاڑیوں میں سکول لے جایا جائے گا۔ بچوں کو گارڈ آف آنر کے ساتھ سکول میں خوش آمدید کہا جائے گا اور اگلے دن یہ سب کچھ ہوا۔ گارڈ آف آنر کے وقت شہداءکے بچے اگلی صف میں کھڑے تھے۔ تمام افسران پچھلی قطار میں کھڑے ان یتیموں کے لیے تالیاں بجا رہے تھے۔ یہ سب کچھ محمد احسن یونس نے کیا۔ مَیں نے ایکسپریس میں کالم لکھا۔ ان کا شکریے کا فون آیا۔ انہوں نے چائے کی دعوت دی مَیں نے کہا چائے کا شوق نہیں۔ کہنے لگے پہلا بندہ دیکھا ہے جو ایک پولیس افسر کی چائے ٹھکرا رہا ہے۔ مَیں نے کہا ایسی بات نہیں کسی دن حاضر ہو جاؤں گا۔ وقت گزرتا رہا اور کئی ماہ بیت گئے۔ ہماری ملاقات نہ ہوئی۔ ایک دن میئر اور چیئرمین ضلع کونسل ملتان کے حلف برداری کی تقریب میں نظامت کر رہا تھا کہ انتظامیہ نے چٹ دی کہ تقریب میں سی پی اور ملتان اور دیگر افسران کو بھی خوش آمدید کہہ دیں۔ مَیں نے تمام افسران کو ”جی آیاں نوں“ کہا اور پھر محمد احسن یونس کو تلاش کرنے لگا۔ ایسے میں مجھے محسوس ہوا کہ میرے پہلو میں ایک نوجوان جو یونیفارم پہنے ہوئے بیٹھا ہے وہی احسن ہے۔ مَیں نے نیم پلیٹ پڑھی اور ہاتھ بڑھا کر کہا شاکر حسین شاکر۔ احسن نے شاکر کا ہاتھ پکڑ کر اسے حَسین کر دیا۔ پہلی ملاقات چند لمحوں پر محیط تھی اور پھر ان سے ہفتوں ملاقات نہ ہوئی۔ لیکن مَیں شہر کی سرگرمیوں میں ان کو باقاعدگی سے دیکھتا رہا۔ کبھی وہ اپنے افسر ڈاکٹر سلطان اعظم تیموری کے ہمراہ دکھائی دیتے تو کبھی ان کا ذکرِ خیر برادرم محمد افضل شیخ کے دفتر میں ہوتا۔جولائی کے آخر میں تھانہ مظفرآباد کے علاقے میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ علاقے کے لوگوں نے جواب میں جو فیصلہ کیا اس کو یہاں نقل کرنے کی ضرورت نہ ہے۔ اس افسوسناک واقعہ کی کوریج ٹی وی چینلز اور اخبارات نے جی بھر کے کی۔ ابھی یہ خبر میڈیا میں نہیں آئی تھی کہ 25 جولائی کا پورا دن اور پوری رات سی پی او ملتان نے متعلقہ تھانے میں گزارا اور 25 جولائی کی شب ملزمان کے خلاف پرچہ اپنی نگرانی میں دے دیا۔ 26 کی صبح ایک چینل نے پولیس ایف آئی آر کے بعد خبر چلائی تو دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ خادمِ اعلیٰ تک جب یہ خبر پہنچی تو وہ 27 جولائی کو ملتان آئے اور متاثرہ خاندان کی دادرسی کی۔ جاتے ہوئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے گئے کہ انتظامیہ کی طرف سے کس کا قصور تھا اور سی پی او ملتان کو ”او ایس ڈی“ کے عہدے پر فائز کر گئے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے دن رات کی محنت کے بعد یہ رپورٹ دی کہ پولیس نے اپنی ذمہ داری میں کوئی غفلت نہیں برتی اس لیے محمد احسن یونس بے قصور ہیں۔ خادمِ اعلیٰ خود چلے گئے لیکن ملتان پولیس کو ایک عرصے بعد شاندار ویژن رکھنے والے سے محروم کر گئے۔ حالانکہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھی سٹی پولیس آفیسر ملتان محمد احسن یونس کی تفتیش کے بعد 20 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے ملتان میں ابھی تک کوئی سی پی او تعینات نہیں کیا گیا۔ لیکن جس انداز سے محمد احسن یونس کو ہٹایا گیا اس سے کام کرنے والے افسروں میں ایک مایوسی کی سی کیفیت ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جو لوگ کام کرتے ہیں ان کو بغیر کسی قصور کے او۔ایس۔ڈی بنا دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے محمد احسن یونس کے پیش رو سی۔ٹی۔او ملتان محمد اظہر اکرام کو بھی اسی طرح او۔ایس۔ڈی بنا کر لاہور بھیجا گیا تھا۔ اگر حکومت نے اسی طرح سے اپنے افسران کی ”عزت افزائی“ کرنا ہے تو پھر لاہور سے کسی کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے، اگر قائم مقام افسر سے ہی کام چلانا ہے تو ہر ضلع میں یہی طریقہ اپنایا جائے۔
جاتے جاتے محمد احسن یونس کے لیے میر کا وہ مصرعہ ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے کہا تھا:
…. عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
یاد رہے ان کی شخصیت کا تاثر ملاقاتوں کی تعداد سے نہیں بلکہ ان کے کارناموں سے عبارت ہے جو انہوں نے میرے شہر کے لیے اپنی تقرری کے دوران کیے۔
فیس بک کمینٹ