تاریخ بہت ظالم ہے اور اس کا دھارا کسی کی مرضی سے نہ ہی بہتا ہے اور نہ مڑتا ہے۔ تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو تاریخی کام کرتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے فیصلے کو عوام اور تاریخ پر چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ کے کارکنوں سے خطاب میں نواز شریف کا کہنا تھا کروڑوں لوگ وزیراعظم منتخب کرتے ہیں اور چند لوگ ختم اسے فارغ کر دیتے ہیں۔ انہیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا یہ عوام کے ووٹ کی توہین نہیں؟ ۔ نواز شریف کے گلے شکوے اپنی جگہ مگر نہ ہی وہ عدالت کے سوالوں کے جواب دے سکے اور نہ ہی عوام کے دیئے گئے مینڈیٹ کے مطابق کام کر سکے۔ آج ڈکٹیٹر کے مظالم پر رونے والے نواز شریف کی حکومت نے ہی پرویز مشرف کو بیرون ملک روانگی کا پروانہ دیا جو آج باہر بیٹھ کر جمہوری حکومتوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور پاکستان میں بیڈ گورننس اور تاریخی غلطیوں کا ملبہ بھی سیاستدانوں پر گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف نااہلی کے بعد سے مسلسل ایک بات کو دہرا رہے ہیں کہ انہیں کرپشن کے الزام پر نہیں بلکہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا۔ متوازن جائزہ لیا جائے تو سابق وزیراعظم کی دلیل میں کوئی وزن نہیں۔ نواز شریف کو حقیقی معنوں میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نہیں بلکہ بیرون ملک قائم ایک کمپنی کی چیئرمین شپ چھپانے پر نااہل کیا گیا اور جہاں تک بات کرپشن نہ کرنے کی ہے تو سپریم کورٹ نے انہیں پاناما کیس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا بلکہ معاملے کو ٹرائل کورٹ میں بھیجا ہے جہاں ان کیسز کی حقیقت کو پرکھا جائے گا۔
کسی بھی سڑک پر مارچ کرنا اور سیاسی زور دکھانا ہر سیاسی جماعت کا بنیادی اور جمہوری حق ہے جو کوئی نہیں چھین سکتا تاہم احتجاج کا پس منظر اس کے سیاق و سباق کے مطابق دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ میاں نواز شریف یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں گھر بھیجا گیا اور وہ گھر جا رہے ہیں۔ جی ٹی روڈ سے جانے کا مقصد صرف اور صرف عوام کا شکریہ ادا کرنا ہے جبکہ ان کا یہ دعویٰ کوئی بھی آزاد مبصر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ نواز شریف کے احتجاج کو اداروں پر دباﺅ ڈالنے کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں صورتحال اگر تصادم کی طرف چلی جائے تو حیران کن بات نہیں ہو گی مگر ملک کو اس لڑائی سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا اور جمہوریت بھی کمزور پڑتی چلی جائے گی۔
اپنی تقریر میں نواز شریف نے سیاسی حریفوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ عمران خان اور طاہر القادری ان کے خصوصی نشانے پر رہے۔ آج کل وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا بھی بار بار تذکرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے چھوٹے بھائی اور دست راست شہباز شریف یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ گیلانی کی نااہلی مسلم لیگ (ن) کی پٹیشن پر ہوئی اور وہ اس کا پورا کریڈٹ لیتے ہیں۔ اپنی نااہلی کے بعد اب یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ تک نہ جانے کی بات کرنا اور میمو گیٹ کے معاملے پر کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچنے کو اپنی غلطی قرار دینے کو مبصرین سیاسی بیان کا نام دینے پر مجبور ہیں۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے مگر حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کا یہ اعتراف کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
نواز شریف نے خطاب کے دوران کارکنوں سے کچھ وعدے لئے ۔ کہا ”میرے ساتھ وعدہ کرو کہ اپنے مینڈیٹ پر شب خون مارنے نہیں دو گے، وعدہ کرو کہ اپنے وزیر اعظم کی تذلیل نہیں ہونے دو گے، وعدہ کرو کہ اپنے ووٹوں کا تقدس قائم رکھو گے“۔ اس طرح کی باتیں اور کارکنوں کو جذباتی نعروں کے پیچھے لگانا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ نواز شریف تصادم کی سیاست کی طرف جا رہے ہیں۔ ایک طرف غلطیوں کا اعتراف اور دوسری طرف جذبات بھڑکانے والے نعرے ۔۔۔۔۔۔ اب نواز شریف کو سوچنا ہو گا کہ تاریخ انہیں کیوں یاد رکھے گی۔