ڈاکٹرانعام الحق مسعود ملتان کے ایسے ماہر نفسیات ہیں کہ اگر بندہ ڈپریشن کا مریض نہ بھی ہو تو جی چاہتا ہے کہ ان کے پاس جا کر جھوٹ موٹ کا بیمار بن جائے۔ اپنی ذہنی و دلی کیفیت سے آگاہ کرے۔ ان کی من موہنی شخصیت کی خوشبو کو اپنے سانسوں کا حصہ بنائے۔ ان کا لکھا ہوا نسخہ جیب میں ڈالے اور گھر آ جائے کہ ڈاکٹر انعام الحق مسعود حقیقی معنوں میں خلقِ خدا کے لیے انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا شمار ایسے ڈاکٹروں میں نہیں ہوتا جو میڈیکل کمپنیوں سے لاکھوں بٹور کے اپنے مریضوں کو بھی نہیں بخشتے۔ ڈاکٹر انعام کو اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسا دل دے رکھا ہے کہ وہ ہر مستحق مریض کو نہ صرف دوا مفت دیتے ہیں۔ فیس واپس کرنے میں انہیں کوئی ملال نہیں اور پھر اپنے مریض کو ہدایت کرتے ہیں کہ جب دوا ختم ہو جائے تو بلا جھجھک آ جانا کہ مَیں تمہاری خدمت کے لیے بیٹھا ہوں۔
2014ءمیں ڈاکٹر انعام الحق مسعود ہمارے ہاں تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ کیا آپ نے میری کتاب پڑھی ہے۔ مَیں نے انہیں کہا میری صحت کی طرح میری انگریزی بھی کمزور ہے۔ اس کتاب کو توجہ سے دیکھا ضرور ہے لیکن پڑھنے کے لیے آپ جیسا کوئی ٹیوٹر چاہیے۔ کہنے لگے شاکر بھائی اگلے ہفتے کتاب کی تعارفی تقریب ہے اور میرے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر اسلام آباد سے خصوصی طور پر تشریف لا رہے ہیں۔ آپ نے نظامت کرنا ہے۔ مَیں نے انہیں کہا میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آپ کی کتاب کی تعارفی تقریب ہو اور نظامت میرے حصے میں آئے۔ مقررہ تاریخ کو جب مقامی ہوٹل پہنچا تو معلوم ہوا مسٹر اور مسز ڈاکٹر انعام الحق مسعود ہر مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لیے ہال کے باہر موجود ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے عاشقانِ انعام کا اتنا رش ہو گیا کہ ہم بے تابی سے صدرِ محفل کا انتظار کرنے لگے۔ چند لمحوں بعد ڈاکٹر انعام کے ہمراہ صدرِ محفل پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر ہال میں داخل ہوئے۔ مَیں روسٹرم پر پہنچا، تقریب کا آغاز کیا، ڈاکٹر انعام کے لیے تعارفی جملے بولے تو مَیں نے دیکھا وہ اپنے استاد کے پہلو میں سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر ملک حسین مبشر کو دیکھا تو یوں لگا جیسے وہ ڈاکٹر نہ ہوں سادھو ہوں، شہباز قلندر کے دھمالی ہوں، حضرت شاہ شمس سبزواری کے سبز پوش مرید ہوں۔ ان کو دیکھتے ہی محسوس ہوا کہ ہم جیسے پاگل لوگوں کا علاج کرتے کرتے وہ خود بھی ایک اور دنیا کے باسی ہو گئے۔ ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ الف اﷲ چنبے دی بوٹی کو اپنے مرشد کے من سے مستعار لیے پھر رہے ہیں۔ مَیں ڈاکٹر انعام کی کتاب اور شخصیت پر بات کرتے کرتے حسین مبشر تک پہنچ جاتا اور سوچ میں پڑ جاتا کہ ان کے والدین نے ان کا بھی کیا خوب رکھا ہے۔ اگر یہی نام رکھنے کا اختیار مجھے ہوتا تو مَیں مبشر حسین رکھتا جیسا کہ مَیں شاکر حسین ہوں۔ لیکن حسین مبشر نام رکھنے میں بھی لازمی کوئی رمز پوشیدہ ہے۔ اس رمز کے بارے میں تقریب کے اختتام پر دریافت کروں گا۔ تقریب چلتی رہی۔ صدرِ محفل سے پہلے صاحبِ کتاب ڈاکٹر انعام الحق مسعود آئے۔ حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ اپنی اہلیہ کے تعاون کا تذکرہ کیا اور پھر وہ ڈاکٹر ملک حسین مبشر کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ انعام صاحب اپنے استاد کے بارے میں بات کر رہے ہیں یا انکشافات کر رہے تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ تقریب کسی اور جانب چلی گئی۔ کبھی عابدہ پروین کی گائیکی کی بات ہوتی تو کبھی ڈاکٹر انعام ”بھانڈے قلعی کرالو“ کی صدا لگانے لگے۔ مَیں سوچنے لگا ڈاکٹر انعام الحق مسعود ہم پاگلوں کا علاج کرتے کرتے گفتگو بھی ایسی کر رہے ہیں کہ جو نہ سمجھ آنے والی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے ڈاکٹر حسین مبشر ان کے استاد نہ ہوں ہیرو ہیں۔ انعام بھائی جو ادب، تصوف، فلسفہ، منطق اور اس قسم کے تمام علوم پر عبور رکھتے ہیں وہ اس دن مجھے عالمِ باعمل لگے۔ ہال بار بار تالیوں سے گونجتا رہا اور پھر تقریب کے آخر میں ڈاکٹر پروفیسر ملک حسین مبشر کو دعوتِ سخن دی۔ وہ سٹیج پر تشریف لائے اور کہنے لگے مجھے ڈاکٹر انعام الحق مسعود نے ملتان آنے کی دعوت دی لیکن مَیں تو حضرت شاہ شمس کے دربار پر ”ماہی یار دی گھڑولی“ بھرنے آیا ہوں۔ انعام میرا شاگرد بھی ہے اور یار بھی۔ آج اولیائے ملتان آنے کا مقصد یہ ہے کہ اس شہر کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانا چاہتا ہوں۔ تالیاں بجتی رہیں اور ڈاکٹر پروفیسر ملک حسین مبشر خطاب کرتے رہے۔
اگلے دن صبح ڈاکٹر انعام صاحب کا فون آیا کہ استاد گرامی آپ کی حضرت شاہ شمس سبزواری پر لکھی ہوئی کتاب مانگ رہے ہیں۔ مَیں نے کہا وہ کتاب تو آؤ ٹ آف پرنٹ ہے۔ کہنے لگے اگر کہیں فوٹو کاپی دستیاب ہو تو آج ہی منگوا دیں۔ مَیں اپنے استاد محترم کو انکار نہیں کر سکتا۔ یہ سنتے ہی ان کے حکم کی تعمیل کے لیے نکل پڑا۔ شام تک فوٹو کاپی ان کے گھر موجود تھی۔ پروفیسر ملک حسین مبشر وہ کتاب لے کر واپس چلے گئے اور پھر گاہے گاہے ڈاکٹر انعام صاحب سے ان کا تذکرہ رہنے لگا۔ 2014ءسے لے کر 2017ءتک ڈاکٹر انعام سے جب بھی ملاقات ہوتی ہم دنیا جہان کے موضوعات کے ساتھ مبشر صاحب کو بھی یاد کرتے۔ ڈاکٹر انعام اگرچہ پیری مریدی کے قائل نہیں البتہ اپنی بیگم کی مریدی میں ہر وقت رہتے ہیں لیکن ان کی گفتگو سے مَیں نے اندازہ لگایا کہ وہ پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کو اپنا پیر مانتے ہیں۔ ہر وقت ان کی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہیں۔
جولائی کے آخر کی بات ہے کہ لاہور سے برادرم افضال احمد کا فون آیا کہ کیا آپ نے ”م بشر“ کتاب پڑھی ہے؟ مَیں نے انکار کیا تو اگلے دن انہوں نے وہ کتاب بھجوا دی۔ کتاب کو دیکھتے ہی مَیں نے ڈاکٹر انعام الحق مسعود کو فون کیا اور بتایا کہ آپ کے پیر و مرشد کی خودنوشت شائع ہو گئی ہے۔ کہنے لگے یہ کتاب تو میرے پاس دو ہفتے قبل سر مبشر نے بھجوا دی تھی۔ آج کل روزانہ اس کتاب کے کچھ صفحات پڑھتا ہوں اور پھر کتاب رکھ دیتا ہوں۔ جس طرح کوئی پیاسا ٹھنڈے مشروب سے اپنی پیاس بجھاتا ہے میری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
(جاری)
فیس بک کمینٹ