واک کے دوران خاور رحیم نے کمپنی باغ کے ٹریک پر سیر کرنے والے ان دوستوں کا تذکرہ کیا تو اس فہرست میں بے شمار ایسے احباب بھی یاد آ گئے جنہوں نے کمپنی باغ کے ٹریک کو مستقل طور پر خیرباد کہہ دیا۔ کمپنی باغ ملتان کینٹ سے جیسے ہی ہم باہر نکلے تو چوک عزیز ہوٹل جانے والی سڑک پر بے شمار کاریں پارک تھیں۔ مَیں نے اُس سڑک سے تیزی سے گزرتے ہوئے گھروں پر نظر ڈالی تاکہ یہ پتہ چل جائے یہ کاروں کا ہجوم کس لیے۔ کمپنی باغ کے سامنے ملتان کا سروسز کلب بھی ہے جہاں آئے روز تقریبات کی وجہ سے گاڑیوں کی پارکنگ دیکھنے کو ملتی ہے۔ واک کے بعد جب شدید تھکاوٹ کے بعد برادرم اسرار احمد چوہدری کی ہمراہی میں میں گاڑی میں آ کر بیٹھتا ہوں تو سیٹ پر ٹیک لگاتے ہی سکون کا جو لمحہ میسر آتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔کمپنی باغ ملتان کینٹ سے جیسے ہی ہم باہر نکلے تو چوک عزیز ہوٹل جانے والی سڑک پر بے شمار کاریں پارک تھیں۔ مَیں نے اُس سڑک سے تیزی سے گزرتے ہوئے گھروں پر نظر ڈالی تاکہ یہ پتہ چل جائے یہ کاروں کا ہجوم کس لیے۔ کمپنی باغ کے سامنے ملتان کا سروسز کلب بھی ہے جہاں آئے روز تقریبات کی وجہ سے گاڑیوں کی پارکنگ دیکھنے کو ملتی ہے۔ واک کے بعد جب شدید تھکاوٹ کے بعد برادرم اسرار احمد چوہدری کی ہمراہی میں میں گاڑی میں آ کر بیٹھتا ہوں تو سیٹ پر ٹیک لگاتے ہی سکون کا جو لمحہ میسر آتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ہماری گاڑی تیزی سے اُس سڑک پر سے گزر گئی جہاں پر گاڑیاں کی قطار در قطار کھڑی تھیں۔ مَیں واک کے بعد حسبِ معمول والدین کی قدم بوسی کے لیے ان کے گھر گیا۔ دنیا جہاں کی باتیں روز میری منتظر ہوتی ہیں۔ کبھی والدین سے شکوے شکایت تو کبھی ان کی طرف سے نصیحت نامے۔ گھر کی سب سے چھوٹی بھتیجی عبیرہ درمیان میں آ کر ماحول کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ایک دم سے موضوع بھی بدل جاتا ہے۔ میری امی جان کہتی ہیں کہ شاکر تمہارے اندر بے شمار خوبیاں ہیں۔ لیکن ایک لڑاکا روح بھی ہے جو ہر وقت لڑنے جھگڑنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ مَیں کہتا ہوں امی جان آپ کی کوئی بیٹی ہوتی تو وہ بھی آپ کو یونہی تنگ کرتی۔ سو مَیں آپ کا بیٹا تو ہوں لیکن لڑائی کے معاملے میں آپ کے پاس آ کر آپ کی بیٹی بن جاتا ہوں۔ ابو جان میری امی جان سے روز روز کی اس بحث کو خاموش تماشائی کے طور پر دیکھتے ہیں جس پر مَیں انہیں کہتا ہوں ذرا ہمت کریں اور میرا ساتھ دیں۔ میرے سوال کے جواب میں انہوں نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی: ”شاکر تم نے تو آگ لگا کے چلے جانا ہوتا ہے جبکہ مَیں نے تیری ماں کے ساتھ ہی رہنا ہے اس لیے تیری ہر بات پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔“ ایسے میں امی جان نے کہا تم کو گھٹی تو تیری دادی کی ہے وہ غصہ کی تیز تھیں لیکن ایسی بھی نہیں کہ ہر وقت گھر میں فساد فی سبیل اﷲ رہے۔ دادی اماں کا ذکر ہوا تو مَیں نے امی جان کو کہا میری دادی جان (جن کو مَیں بی بی جی کہا کرتا تھا) کا اخلاق تو ایسا تھا کہ وہ راہ چلتی کو اپنی بیٹی بنا لیا کرتی تھیں۔ مَیں نے آنٹی آسیہ کا ذکر کیا وہ گزشتہ دنوں ”کتاب نگر“ پر آئی تھیں۔ سب کو سلام کہہ رہی تھی وغیرہ وغیرہ۔ یاد رہے میری دادی نے آنٹی آسیہ کو اپنی بیٹی بنا رکھا تھا۔ میری دادی کی وہ بیٹی بننے کی کہانی کچھ یوں بتاتی تھی کہ آنٹی آسیہ کی والدہ کے ساھت میری دادی نے حج کیا تھا۔ حج کے دوران آنٹی آسیہ کی والدہ کے ساتھ دوستی ہو گئی۔ حج کے بعد جب ملتان واپس آئے تو حجاج نے ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا شروع کر دیا۔ ایسے میں میری دادی کی آنٹی آسیہ کے ساتھ ملاقات ہو گئی۔ میری دادی نے آنٹی آسیہ کو بیٹی بنا لیا حالانکہ میری دادی کو تنگ کرنے کے لیے ان کی حقیقی چار بیٹیاں پہلے سے موجود تھی جو ہر وقت اپنی ماں سے مذاق کرتی رہتی تھیں۔ میری دادی جان سے دوستی تھی۔ پوتے پوتیوں میں سے مجھ سے زیادہ پیار اس لیے تھا کہ انہوں نے مجھے گھٹی دی تھی۔ وہ اکثر میری اور اپنی عادات کا ذکر کر کے خوش ہوتیں۔ رمضان میں صرف مجھ سے پھینیاں منگواتیں۔ عید و شب برات پہر ان کی منہ بولی بیٹی آسیہ بھی اپنی ماں کو ملنے آتی تو وہ اپنی بہو نصرت بانو کو خصوصی تواضع کا حکم دیتیں۔ ویسے آنٹی آسیہ بھی خود سراپا محبت و خلوص تھیں۔ بولنے اور دیکھنے میں اتنی باوقار کہ جی چاہتا تھا کہ ہم اپنی منہ بولی پھوپھی کے پاس بیٹے رہیں۔ وقت گزرتا رہا ہم اپنی دادی جان کے گرد مانگنے والوں کا ہجوم دیکھتے رہے۔ دادی جان کے چھ بیٹوں میں ایک بیٹا ڈاکٹر بھی بن گیا۔ میری دادی نے تمام زندگی اپنی بیماریوں کا علاج اپنے بیٹے ڈاکٹر ذوالفقار حسین سے کرایا۔ ان کا اپنے بیٹے کے علاوہ کسی ڈاکٹر پر یقین ہی نہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے چچا نے نشتر کے پہلے سال ہی جب کوئی نسخہ لکھا ہو گا وہ یقینا ہماری دادی جان کا فرمائشی نسخہ ہو گا۔ چچا ڈاکٹر جب ملتان سے لاہور چلے گئے تو وہ اپنی بیماری کی تشخیص فون پر کراتیں۔ اپنے بیٹے کے علاوہ وہ اپنا ڈاکٹر ان خواتین مانگنے والوں کو قرار دیتیں جن کے انہوں نے مہینے لگا رکھے تھے۔ ہماری دادی ہمیشہ یہ کہتی تھیں مَیں ڈاکٹروں اور ادویات پر خرچہ کرنے کی بجائے ان مستحق لوگوں کی امداد پر یقین رکھتی ہوں جن کی دُعا¶ں کی بدولت مَیں ٹھیک رہتی ہوں۔ سیاسی طور پر وہ تمام زندگی بھٹو کی مداح رہیں۔ اُس کی وجہ صرف یہی تھی کہ انہوں نے بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار میں پہلا حج بذریعہ بحری جہاز کیا تھا۔ وہ یہ سمجھتی تھیں کہ ان کے حج پر جانے میں ذوالفقار علی بھٹو کی کوششیں بھی شاملِ حال تھیں۔ بھٹو کے بعد وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حامی بن گئیں۔ 1988ءمیں جب محترمہ بےنظیر بھٹو وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوئیں تو ہم سب نے ان سے مٹھائی کھائی۔ عید کے موقع پر ان کو اگر پانچ ہزار روپے عیدی کے طور پر جمع ہوتے تو وہ اس عیدی میں کچھ رقم اپنی طرف سے جمع کر کے اپنی اولاد کے بچوں میں تقسیم کر دیتیں۔ معلوم نہیں کیسی روح تھیں کہ دولت سے عشق نہیں کیا۔ ان کا عشق محمد و آلِ محمد سے تھا۔ محرم الحرام میں کھیر کی نیاز۔ اپنی آنکھوں کی روشنی کی سلامتی کے لیے حضرت غازی عباس کے علَم پر اپنی آنکھوں کی منت اور صفر کے مہینے میں مسلسل خیرات کرنا واجب جانتی تھیں۔ ربیع الاوّل میں قوالیاں سننا، میلاد کی محافل میں شرکت ان کی زندگی کا معمول تھا۔ سردیوں میں دھوپ میں بیٹھ کر موسم کے پھل کھانا۔ گرمیوں میں کبھی گرمی کی شکایت نہ کرنا ان کی شخصیت کا وصف تھا۔ میری بیٹی انہیں آنٹی بی بی کہا کرتی تو وہ مجھے کہتیں کہ ”شاکر تیری دھی مینوں آنٹی کہدی اے تو مینوں سمجھ نئیں آندی کہ مَیں بی بی دے نال آنٹی کس طرح بن گئی آں۔“ مَیں ہنستا تو کہتیں تمہاری طرح شرارتی ہے۔ 2007ءمیں جب مَیں نے ایک ٹی وی چینل جوائن کیا تو اس کی ٹریننگ کے لیے چھ ماہ کے لیے لاہور چلا گیا۔ وہ بڑے تواتر سے میری خیریت دریافت کرتیں۔ فرصت کے لمحات میں ایک بیٹی ریاض بیگم کی موت کو یاد کرتی رہتیں۔ ان کے تینوں بچوں سے بے تحاشہ پیار کرتیں۔ ہر غمی خوشی میں ان کو سب سے پہلے یاد کرتیں کہ ان کو ریاض بیگم کے بچوں میں اپنی مرحومہ بیٹی دکھائی دیتی تھی۔ تمام زندگی کسی کے آگے محتاج نہ ہونے کی دُعا مانگنے والی بی بی جی 2007ءدسمبر کی ایک طویل شب میں اپنی نیند کو ابدی نیند میں تبدیل کر گئیں۔ ان کے بیٹے حاجی عاشق حسین نے حسبِ معمول ناشتہ کے لیے اٹھا تو معلوم ہوا کہ وہ اگلے سفر کے لیے روانہ ہو چکی تھیں۔ ان کی موت عیدالاضحی سے ایک دن پہلے ہوئی۔ رات گئے سینکڑوں سوگواروں نے سپردِ خاک کیا۔ صبح عید تھی لیکن بی بی جی کے گھر میں ایک نوابی دور ختم ہو گیا (یاد رہے ان کا نام نواب بی بی تھا) عید کے دن بھی ان کی اُولاد نے تمام دن بی بی جی کے لیے پڑھائی کی۔ ان کے ماشاءاﷲ چھ بیٹے اور چار بیٹیاں (جن میں ایک منہ بولی بیٹی آنٹی آسیہ) ہر آنے والے سے تعزیت وصول کرتے رہے ۔ دو بیٹے دیارِ غیر میں اپنی ماں کو یاد کر کے روتے رہے۔ وقت گزرتا رہا۔ آہستہ آہستہ ان کی منہ بولی بیٹی نے اپنی مرحومہ ماں کے گھر آنا ترک کر دیا کہ نواب بی بی کی اولاد اتنی مصروف ہو گئی کہ ان کو اپنی منہ بولی بہن ہی یاد نہ رہی۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ وہ آنٹی آسیہ کتاب نگر آئیں تو مَیں دیکھ کر خوش ہو گیا۔ خیریت دریافت کی وہ ہمیشہ کی طرح پیار و خلوص کا پیکر دکھائی دیں۔ سب کی خیریت کا پوچھنے لیں تو مَیں نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ حسین سحر اور ان کی اہلیہ کے انتقال پر نہیں آئیں۔ مجھے کسی نے اطلاع نہیں کی۔ ان کی بات میں وزن تھا۔ مَیں شرمندہ ہو گیا اور وعدہ کیا اب مَیں آپ کے ساتھ رابطے میں رہوں گا۔ اس بات کے چند ہفتے بعد وہ اپنے داماد کے ساتھ پھر مجھ سے ملنے آئیں تو ملاقات نہ ہو سکی۔ بیٹے نے بتایا کہ آنٹی آسیہ آئیں تھیں آپ سے ملنے کے لیے۔ مَیں ہمیشہ مصروف اور مصروف بھی ایسا کہ خود ساختہ مصروفیت ان کے گھر نہ جا سکا حالانکہ ان کا گھر کمپنی باغ (جہاں مَیں روزانہ گزشتہ پندرہ برسوں سے شام چھ سے سات بجے واک کرتا ہوں) سے دو منٹ کی مسافت پر تھا۔ لیکن مصروفیت اور خود ساختہ مصروفیت مجھے کہاں سانس لینے دیتی ہے کہ 25 اکتوبر کی شام جب مَیں واک سے فارغ ہو کر ابو جان کے گھر جا رہا تھا تو آنٹی آسیہ کے گھر گاڑیوں کا ہجوم دیکھ کر بھی نہ رکا کہ مجھے اپنی خودساختہ مصروفیت عزیز تھی۔ اگلے دن کے اخبارات میں آنٹی آسیہ کے انتقال کی خبر پڑھی تو اپنے آپ کو لعنت ملامت کی۔ اگر میری دادی یعنی بی بی جی زندہ ہوتیں تو ان کے دل پر کیا بیتتی۔ یہ سوچ کر مَیں کسی حد تک مطمئن ہو گیا کہ شکر ہے کہ بی بی جی کی ڈانٹ سے بچ گیا ورنہ کسی شکایت پر ان کا غصہ دیکھ کر مَیں کئی ہفتے ان کا سامنا نہیں کرتا تھا۔ آج آنٹی آسیہ کے انتقال کو کئی دن ہو گئے۔ مَیں اپنے گھر بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ آنٹی آسیہ نے جا کر میری دادی سے میری کتنی شکایت لگائی ہو گی کہ تمہارا گھٹی والا پوتا شاکر وعدہ کر کے بھی اپنی پھوپھی کے گھر نہیں آیا۔ خود ساختہ مصروفیت والا بی بی جی کا پوتا۔
فیس بک کمینٹ