جلال آباد مشرقی پنجاب بھارت کے ضلع فیروزپور کا ایک قصبہ ہے۔ ریاست ممدوٹ کے نواب کا مسکن ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد یہاں رہائش پذیر تھی۔ میاں الٰہی بخش ایک رئیس تھے اور نواب ممدوٹ کے پگڑی بدل بھائی بنے ہوئے تھے۔ یہ صرافوں کا خاندان تھا اور شہر کے عمائدین سے ان کی راہ و رسم تھی۔ صرافے کا کاروبار کرنے والے افراد اکثر خوشحال ہوتے ہیں۔ اسی خاندان کے ایک فرزند میاں برکت علی جو خود بھی پیشے کے اعتبار سے ایک زرگر تھے اور جلال آباد میں واقع بہت سی جائیدادوں کے مالک ان کے ہاں 10 اکتوبر 1942 کی صبح ایک بچے نے جنم لیا۔ اس بچے کا نام خادم حسین رکھا گیا۔
خادم حسین کی والدہ نے اس کی پیدائش سے قبل خواب دیکھا تھا کہ سبز رنگ کا ایک چھوٹا سا پرندہ ان کی جھولی میں آن گرا ہے اور ایک بزرگ انہیں ہدایت دے رہے ہیں کہ یہ انمول پرندہ ہے اسے قابو کر لو ورنہ یہ اُڑ جائے گا۔ غیر منقسم ہندوستان میں ہندو اور مسلمان اکٹھے رہتے تھے اور ایک دوسرے کے رسم و رواج اور عقائد سے واقف بھی تھے۔ خادم حسین کے والد نے ایک ہندو جوتشی سے رائج عقیدے کے مطابق نومولود کی جنم پتری بنوائی جس میں واضح نشاندہی کی گئی کہ یہ بچہ بڑا ہو کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرے گا۔ علم و ادب کی دنیا میں نام پیدا کرے گا اور زندگی بھر قلم کی آمدنی سے گزر بسر کرے گا۔
زرگروں کے ایک خوشحال خاندان میں آنکھ کھولنے والا یہ بچہ جو جدی پشتی رئیس تھا اور اس کا خاندان ایک وسیع جائیداد کا مالک تھا جلال آباد میں رہتے ہوئے شاید اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکتا مگر قدرت اس کے لیے موزوں راستہ متعین کر چکی تھی جس کے نتیجے میں اسے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا تھی بلکہ عمر بھر قلم کی کمائی بھی کھانا تھی۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آ گیا جبکہ جلال آباد تقسیم کے اعتبار سے بھارت کے حصہ میں آیا۔ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے کنبے پل بھر میں اجنبی بن گئے۔ زرگروں کا خاندان کچھ عرصہ تو ہوا کا رُخ دیکھتا رہا پھر اس نے بھی سب کچھ چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ لوگوں کی رکھی ہوئی امانتیں واپس کیں، اپنے گھروں کو سامان سمیت بند کر کے تالے لگائے، چابیاں ہندو ہمسائیوں کے حوالے کر دیں اور پاکستان کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ یہ ستمبر 1948ء کا پہلا ہفتہ تھا۔ فیروزپور سے قصور کا فاصلہ چیونٹی کی رفتار سے طے کرتا ہوا اور راستے کے خون آشام مناظر دیکھتا ہوا زرگروں کا یہ خاندان قصور کے نواح میں واقع سرحد کے اس پار قصبے کنگن پور کی ایک کچی حویلی میں آباد ہو گیا۔ خادم حسین کی عمر اس وقت صرف 5 برس تھی۔ قصور میں رہائش کے نامساعد حالات کے باعث زرگروں کا یہ خاندان چھ ماہ کے بعد ملتان منتقل ہو گیا۔برکت علی کا خاندان اندرون شہر محلہ اندھی کھوئی کے ایک چھوٹے سے تین منزلہ مکان میں رہائش پذیر ہو گیا تو خادم حسین کو ایم۔بی پرائمری سکول بیرون پاک گیٹ میں داخل کرا دیا گیا۔ برکت علی زرگر نے گزر اوقات کے لیے قریبی بازار کالے منڈی میں دکان کھول لی۔
پرائمری کے دوران ہی ہندو جوتشی کی بنائی ہوئی جنم پتری کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ خادم حسین نے سکول کی لائبریری سے بچوں کی کتابیں لے کر ان کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ خادم تخلص کرتے ہوئے اپنا نام خادم حسین خادمؔ رکھ لیا۔ پانچویں جماعت تک آتے آتے خود کہانیاں اور نظمیں لکھنا شروع کر دیں۔ کراچی سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ’’دوست‘‘ میں ان کی پہلی کہانی شائع ہوئی۔ پھر ایک نظم لائلپور سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ’’اختر‘‘ میں چھپی تو یہ سلسلہ جاری ہو گیا۔ خادم حسین خادمؔ اپنے اس شوق کے باعث ہم عصروں اور اساتذہ میں مقبول ہو گیا۔
اس دور میں درسی کتابوں سے صرفِ نظر کر کے کہانیاں اور شعر و شاعری پڑھنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اور نوعمر خادم حسین خادمؔ کہانیاں لکھنے اور شعر و شاعری کے شوق میں مبتلا ہو رہا تھا جو اُن کے والد گرامی برکت علی جو خالصتاً کاروباری شخص تھے کے لیے یقیناًباعثِ تشویش تھا۔ لہٰذا وہ خادم حسین کو ہمراہ لے کر اپنے ایک دوست حکیم چراغ دین سے مشورہ کرنے چلے گئے کہ یہ بچہ ہر وقت شعر و شاعری میں مشغول رہتا ہے جس سے اس کی تعلیم متاثر ہو جائے گی لہٰذا اسے سمجھائیں۔ حکیم چراغ دین نے خادم حسین کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے والد برکت علی کے خدشات کو دور کیا اور خادم حسین پہلے سے زیادہ پڑھنے لکھنے میں مگن ہو گیا اور یوں ادبی سفر کی آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
خادم حسین نے 1953ء میں اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا جہاں موزوں ادبی ماحول میسر ہوا اور میٹرک تک امتیازی مدارج طے کرنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور ادبی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ 1956ء میں بزمِ طلوعِ ادب کے زیرِ اہتمام پہلی بار ٹاؤن ہال گھنٹہ گھر میں منعقد ہونے والے مشاعرے میں شرکت کی اور یوں نامور شعراء سے ان کا رابطہ قائم ہوا جو عمر بھر کے تعلق پر منتج ہوا۔ اسی دور میں خادم حسین خادمؔ نے سحر رومانی کے نام سے لکھنے کا آغاز کیا اور غزل بھی کہنا شروع کر دی۔
خادم حسین نے جو اب سحر رومانی کے نام سے ادبی دنیا میں روشناس ہو رہے تھے 1958ء میں ایمرسن کالج ملتان میں داخلہ لیا۔ کالج میں انہیں اپنی ادبی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ وہ کالج میگزین ’’نخلستان‘‘ کے ایڈیٹر رہے اور کالج کی جانب سے بطور شاعر بیرونِ شہر متعدد بین الکلیاتی مشاعروں میں شرکت کرتے رہے۔ تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کے باعث وہ نہ صرف معروف ہوئے بلکہ اعلیٰ شخصیات اور دانشوروں سے رابطے اور محفل آرائی کا موقعہ بھی ملا جس نے ان کی شخصیت میں تنوع اور نکھار پیدا کیا۔ سحر رومانی کالج میں تعلیم کے دوران مسلسل ملتان کی ادبی تنظیموں اور محفلوں کے روحِ رواں رہے خواہ وہ پہلا کل پاکستان مشاعرہ ہو، قلعہ کہنہ پر منعقد ہونے والا علی گڑھ اولڈ بوائز ایسویسی ایشن کا سالانہ عظیم الشان مشاعرہ، رائٹرز گلڈ کا اجلاس، پبلک لائبریری لانگے خان کی بزمِ فکر و فن، کل پاکستان سرائیکی مشاعرہ، جشنِ بزمِ ثقافت یا اُردو اکیڈمی کا آغاز۔ ملتان کے معروف شاعر اقبال ارشد تو ان کے لڑکپن کے دوست تھے۔ کالج میں زیرِ تعلیم رہنے کے دوران معروف شعراء سے ان کی ملاقات رہی جن میں فیض احمد فیض، عبدالحمید عدم، احمد ندیم قاسمی اور حبیب جالب قابلِ ذکر ہیں۔ مسعود اشعر، ساغر صدیقی، عاصی کرنالی اور منو بھائی سے رسم و راہ رہی۔ منشی عبدالرحمن خان، مختار مسعود، قدرت اﷲ شہاب، اشفاق احمد، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور جمیل الدین عالی سے نہ صرف ملاقات بلکہ ان میں کچھ شخصیات سے ذاتی تعلقات بھی استوار ہوئے۔
یکم جنوری 1962ء کو جب خادم حسین المعروف سحر رومانی بی۔اے کے آخری سال میں سالانہ امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے شادی کے بندھن میں باندھ دیئے گئے۔ ان کی اہلیہ ثمینہ بتول ان کی بڑی بھابھی کی بہن تھیں۔ ان کی ہمشیرہ کی شادی کے باعث ان کی شادی بھی جلد کر دی گئی تاکہ اخراجات میں تخفیف ہو۔ شادی کے چند ماہ بعد رزلٹ آیا اور وہ بی۔اے میں کامیاب قرار پائے۔ خادم حسین نے یونیورسٹی اورئنٹل کالج لاہور میں ایم۔اے اُردو میں داخلہ لے لیا۔ سحر رومانی کی ادبی سرگرمیوں میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ شادی کے کچھ روز بعد جب وہ اپنی بیگم کو لینے لائلپور گئے تو ان کے ایک دوست نے ان کے اعزاز میں دھوبی گھاٹ کے باغ میں ایک مشاعرے کا اہتمام کر ڈالا۔ لاہور میں تعلیم کے دوران جب ’’ادبی دنیا‘‘ کے ایڈیٹر مولانا صلاح الدین احمد انتقال کر گئے اور ان کی یاد میں حلقہ ارباب ذوق نے اجلاس کیا تو سحر رومانی وہاں بھی پیش پیش تھے۔ اس اجلاس میں صوفی تبسم، ناصر کاظمی، میرزا ادیب اور لاہور کے دیگر ادیبوں اور شاعروں سے تعارف اور مراسم کی ابتدا ہوئی۔
تعلیم سے فراغت کے بعد خادم حسین رزلٹ سے قبل ہی کسی ملازمت کے حصول کے لیے کوشاں ہوئے۔ محکمہ بہبود آبادی کا نیا محکمہ وجود میں آیا تو وہ بطور ’’فیملی پلاننگ افسر‘‘ اس میں تعینات ہو گئے۔ یہ عارضی ملازمت تھی جبکہ ان کامطمع نظر محکمہ تعلیم کی ملازمت ہی تھی۔ ان کے ہمراہ ان کے دوست جناب اقبال ارشد بھی تھے جو میلسی میں تعینات ہوئے جبکہ خادم حسین کہروڑپکا میں تعینات تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت حلقے کے دورے میں گزرتا۔ ایک سرکاری جیپ مع ڈرائیور دستیاب تھی لہٰذا دفتری مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ 1967ء میں پبلک سروس کمیشن نے لیکچرر شپ کی ا سامیوں کے لیے اشتہار دیا تو اس کے لیے درخواست دے دی اور بالآخر منتخب قرار پائے۔ 1970ء کے اواخر میں ان کا تقرر بطور لیکچرار گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور ہو گیا اور یوں وہ بہاولپور کی ادبی سرگرمیوں کے روحِ رواں بن گئے۔ گھر چونکہ ملتان میں تھا اور تقرری بہاولپور میں ہوئی لہٰذا ملتان کی ادبی سرگرمیوں سے بھی ناطہ نہ ٹوٹا۔ 1971ء میں کوشش کے بعد ان کا تبادلہ گورنمنٹ انٹر کالج ملتان میں ہو گیا جسے بعد میں گورنمنٹ کالج سول لائنز کا نام دیا گیا۔
ملتان میں تعیناتی کے بعد ادبی سرگرمیوں میں مزید تندی آگئی۔ خادم حسین سے سحر رومانی بنے تھے اب خادم حسین سحرؔ کہلائے جانے لگے اور بالآخر حسین سحرؔ کے نام سے شہرت پائی اور تادمِ آخر ’’پروفیسر حسین سحرؔ ‘‘ کہلائے۔
1962ء میں پروفیسر حسین سحر کی ترقی گریڈ 19 میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ہو گئی اور کچھ عرصہ کے بعد ان کا تقرر بطور پرنسپل گورنمنٹ ولایت حسین اسلامیہ کالج ملتان ہو گیا۔ 20 مئی 1997ء کو لگ بھگ 27 برس محکمہ تعلیم میں خدمات سرانجام دینے کے بعد قبل از وقت ریٹائرمنٹ حاصل کر لی۔ پروفیسر حسین سحر نے ریٹائرمنٹ کے بعد 15 ستمبر 2016ء اپنی وفات تک 19 برس مسلسل ادبی سرگرمیوں کے لیے وقف کیے رکھے۔
پروفیسر حسین سحر ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ وہ لگ بھگ 60 کتابوں کے مصنف تھے جو بچوں کے ادب، غزل، نظم، نعت، منقبت، سلام، منظوم ترجمہ، نثر اور تنقیدی جائزہ پر مبنی تھیں۔ انہوں نے 3 مضامین میں ایم۔اے کیا۔ گورنمنٹ ولایت حسین ڈگری کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان پر دو مرتبہ یونیورسٹی کی سطح پر ایم۔فل کے مقالے تحریر کیے گئے۔ ان کی شخصیت پر PHD کی سطح پر تحقیق جاری ہے۔ ان کا سب سے بڑا علمی اور ادبی کارنامہ قرآن کریم کا منظوم اُردو ترجمہ ’’فرقانِ عظیم‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے جس کی تکمیل میں انہوں نے زندگی کے دس برس صرف کیے۔ اس ترجمہ کو بزبان شاعر CD کی شکل میں ریکارڈ بھی کرایا گیا۔ یہ ریکارڈنگ لگ بھگ 48 گھنٹوں پر محیط ہے۔ ادب میں اعلیٰ خدمات کے حوالے سے انہیں دو مرتبہ صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
جیسا کہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ہر کامیاب اور بڑے شخص کی کامیابی کے پیچھے کسی خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے تو پروفیسر حسین سحرؔ کی تمام کامیابیاں ان کی اہلیہ کے تعاون کی مرہونِ منت ہیں۔
پروفیسر حسین سحرؔ کے انتقال سے پورے ایک برس قبل ان کی شریکِ حیات داغِ مفارقت دے گئیں۔پروفیسر حسین سحر نے اپنی اہلیہ کی یاد میں شاعری کی ایک خوبصورت کتاب ’’جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘‘ تحریر کی جس کا ایک ایک لفظ ان کی اپنی اہلیہ کے لیے محبت کی گواہی دیتا ہے۔مرحومہ کا انتقال 14 ستمبر 2015ء کو ہوا تھا اور ٹھیک ایک برس کے بعد پروفیسر حسین سحر 15 ستمبر 2016ء کو ان سے جا ملے۔
پروفیسر حسین سحر کی زندگی کا یہ مختصر سا خاکہ ان کی خودنوشت ’’شام و سحر‘‘ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے جو اس مضمون کے دوسرے حصے کے طور پر پیشِ کروں گا ۔