دُنیا میں پہلا نام اللہ کا، دوسرا والدین کا، تیسرا اُستاد کا، 8اپریل2017کو زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں اولڈ سٹونٹس کی تقریب کا انعقاد۔۔۔ تجدید ملاقات سے زکرین فرینڈز ( وٹس ایپ گروپ )کوخاکہ نگاری کا وائرس لاحق ہوگیا۔ دوستوں کو موضوعات کی اِس طرح تقسیم کی کہ تمام اساتذہ اکرام کو تحریری خراجِ تحسین پیش کیا جاسکے۔ میں زُلیخا صباء اپنے دو حواریوں (ایک شوہر، ایک بیٹا) کی خدمت گُزاری میں مگن تھی کہ لکھنے لکھانے کی بے چینی کی کہاں گُنجائش۔۔۔؟ میرے محترم سر ساجد کا احترام اپنی جگہ ”مُرغِ مسلم“ مگر تکبیر پڑھنے کا یارانہ تھا۔۔۔ رفتہ رفتہ محترم سر ساجد صاحب کی شخصیت کا احترام اور اُن کے بارے میں احساسات لفظوں کے روپ میں ڈھلنا شروع ہوگئے۔ میں نے اپنے لکھے الفاظ لطیف بھٹی صاحب (شوہر) کو سُنائے اور لطیف بھٹی صاحب لطیف سی مُسکراہٹ مُسکاتے ہوئے بولے۔۔۔ زُلیخا صبا !تمہیں بھی لکھنے لکھانے سے ” وہ“ تو نہیں ہوگیا۔ (یہ سب کیا دھرا بھٹی برادری کا ہے)
سب سے پہلے تو میں اپنے محترم سرساجد صاحب کی شکر گزار ہوں کہ اپنے لاتعداد شاگردوں کی لامتناہی فہرست میں ہماری کج ادائیوں سمیت اپنائے ہوئے ہیں ورنہ تو سیشن کے اختتام پر سبھی ساتھی ”میراتھن“ ریس کی طرح زندگی کی بھاگم بھاگ میں محو ہوگئے تھے۔ زکریا یونیورسٹی سے وابستہ ماضی کا سفر خوابیدہ کیفیت لیے ہوئے ہے۔ احترام اساتذہ اور احساسِ دوستاں آج بھی تازہ ہوا کے جھونکے کی طر ح ہے ۔ اِس خوشگواری کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا وسیلہ Whatsappہے۔ جس نے ہماری زندگی میں ایسی کھڑکی کھول دی ہے جہاں سے تازہ ہوا چُٹکی بجاتے ہی ”وارد“ ہوتی ہے اور پلک جھپکتے ہی گھٹن کا نکاس۔۔۔
1989چشتیاں سے ملتان روانگی ہوئی۔ میرے ابا اپنی لاڈلی کو سینے سے لگائے اورزُلیخا صبا اپنی ڈگریوں کو سینے سے لگائے ملتان پہنچے۔۔۔ شعبہ اردو کی حیران کُن دُنیا۔۔ متحرک دُنیا۔۔ کوریڈور میں میرے نورانی شخصیت والے باریش حاجی نمازی عمر رسیدہ ابا کا سر ساجد صاحب سے ٹکراؤ۔۔۔ جیسے علامہ اقبال ؒ کی نظم خضر راہ میں صحرا نورد۔۔۔۔۔۔ محترم سر ساجد صاحب نے میرے ابا کی علمی دیوانگی کو بھانپ لیا۔ اور پھرتیلے سے ابا کو کسی ” وعدہ معاف گواہ“ کی طرح دبوچ کر ”وڈے تھانیدار“ کے حضور رو برو پیش کردیا۔ وڈے تھانیدار کی میرے ابا کی علمی دیوانگی اور ان کی باپردہ بیٹی کی سچی لگن کو دیکھ کر باچھیں کھل گئیں۔۔۔ سر ساجد صاحب کو ان کی کارر وائی پر تھپکی دی۔ دونوں کے چہرے کی بشاشت اپنی انتہاء پر۔۔۔ آج تک وہ منظر ناقابلِ فراموش ہے۔ اعلیٰ مرتبت اساتذہ کے ذریعے تربیت سازی کیلئے منظم لشکرِ اردو کے مورچے میں ایک مستعد سپاہی کی باوقار شمولیت ! میرے داخلے کی ۔۔۔ کاغذی کار روائی کے بعد ابا اپنی رہائی اور میں اپنی گرفتاری پر جھوم جھوم اُٹھے۔ میری یہ اسیری زندگی کے آخری سانس تک محیط رہے گی۔ شعبہ سے پہلی نظر میں پہلا پیار ہی میری زندگی کی پہلی محبت ہے۔ بہترین سی چائے پلانے کے بعد وڈے تھانیدار مطلب ڈاکٹر انوار احمد صاحب کے” خفیہ حکم نامے “ بذریعہ آنکھ پر عمل درآمد کرتے ہوئے سر ساجد صاحب نے میرے ابا کے ذہن سے کو ایجوکیشن اور شعبے کے حوالے سے تمام خدشات ملیا میٹ کردیے اور علاقہ کلیئر ہونے پر میرے ابا مجھے میرے روحانی ” آباؤ اجداد“ کے حوالے کرکے اتنے پرسکون لوٹے کے دو سال تک پھر کبھی خواب میں بھی فکر مند نہ ہوئے۔ قدامت پرستی کے سبب بھائیوں کی ” مُخالفت برائے تعلیم“ کو بھی میں نے بھلا دیا کیونکہ شعبہ اردو کا ماحول اس مصرعے کے عین مُطابق تھا۔
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
محترم سر ساجد صاحب کسی سرکاری کالج میں چار سال خدمات سرانجام دینے کے بعد 3جنوری 1989کو بہاؤالدین ز کریا یونیورسٹی کے شعبہ اُردو میں تعینات ہوئے ۔ایک مجاور کی طرح مستقل مزاجی سے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہیں۔سر ساجد روپ سروپ سے مکمل مجاور دِکھائی دیتے ہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آستانہ اُردو سے عقیدت زیادہ پُختہ ہے یا ادب کی اگن میں آنکھوں کے دیپ جلتے بُجھتے دِکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال منصب پر فائض رہنا بھی کسی تپسیا سے کم نہیں۔ میرے محترم استاد سر ساجد صاحب کی شخصیت کئی خوبیوں کی حامل ہے۔ طالب علموں کی شخصیت سازی ان کا نمایا ں وصف ہے۔ وُہ طبعاً گھل مل کررہنے والے انسان ہیں۔ مگر مزاجاً زود رنج ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہیں اپنی زودرنجی کا ادراک نہیں! لیکن یہ کیفیت اُن پر اپنی تمام تر جولانیوں سمیت طاری رہتی ہے۔ بحیثیت استاد وہ اپنے علم کوتعلیم کیساتھ ہم آہنگ کرتے وہ لیکچر سمجھا کر بے نیازی اختیار نہ کرتے بلکہ بُرے کے گھر تک رسائی کی روش کے راہی ہیں۔ نکات سمجھانا پیراگراف لکھوا کر کتاب تحفتاً دینا۔ کبھی ٹرپ میں ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلنا۔۔ ہڑپہ کا ٹرپ نہ جانے اُن کی سزا تھا یا کلاس کی۔۔ مگر محترم سر ساجد نے بھرپور کوشش سے تاریخی مقام کے ۔۔۔ ٹرپ کو زرخیز ٹرپ بنا دیا تھا۔ سر رؤف صاحب کی کلاس میں بھرپور اعصابی تناؤ کی پیشی کے بعد محترم سر ساجد صاحب کا آنا۔ اسکول میں ” بریک“ جیسی خوشخبری بن جاتا۔ماحول نرسری کلاس کی ترنگ میں ڈھل جاتا۔۔ کبھی کوئی طالب علم کرسی گھسیٹ کر پسندیدہ ساتھیوں کے حلقے میں جاگھستا۔۔ کہیں قہقہہ تو کہیں دے تالی کے کھڑاک کے بعد پنسل کی چھینا جھپٹی ہم خوب پرچی بازی کرتے۔۔ مجال ہے یہ پرچی کبھی اُن کی دسترس میں آئی ہو ۔۔ کیونکہ ہماری پرچیاں برائے لڑکیاں ہی ہوتی تھیں ورنہ سرساجد کب ہماری شرارت کو شرارت سمجھتے! ڈائس پر کھڑے محترم سر اپنا کام جاری رکھتے اور کلاس اپنا!
گُزشتہ صدی کے آخری عشرے کے طالب علم اسکول کالج میں رٹا سسٹم ، پھینٹی ازم اور ڈانٹ ڈپٹ کے عادی تھے۔ اِس دور میں والدین ، استاد اور بچے کے درمیان مان بھری ڈانٹ اورفرماں برداری کا بھرم قائم تھا۔ اب تو نہ وہ لکڑی کی کاٹھی۔۔۔ اور نہ ہی کاٹھی پہ گھوڑا۔۔۔ یہ مُحبت بھرا کھیل تماشا سچ مچ دُم دبا کر دوڑ گیا۔ اب تو خود اعتمادی اور Self Respectکا گھوڑا بلکہ بھگوڑا ۔۔ بے باکی کی لگام تھامے سر پٹ دوڑتا ہی چلا جارہا ہے! ہم زمانہ طالب علمی میں اپنے احساسات کو زبان پر نہ لاتے تھے بلکہ زہن اور دل چہ مگوئیاں ہی کرتا رہتا کہ منظر بدل جاتا۔ ۔۔۔ محترم سر ساجد صاحب اس منظر نامے میں انٹرول جیسی کیفیت لیے ٹھہراؤ میں طالب علموں کے اعتماد کے ” تعمیر ساز“ کے روپ میں جلوہ گر ہوتے ۔۔ دو بدو گفتگو میں سماعت کا فرض دِل سے نبھاتے! بات کہنے کی آزادی تمام تر حقوق کیساتھ فراہم کرتے۔۔۔ طالب علم اِس ”نایاب“ پذیرائی پر اپنا رنگ ڈھنگ بدلنے کیساتھ سوچ اور تخیل میں بھی اُڑان بھر لیتا اور اُن کے زیرِ تعلیم شاگرد وں کی مُستقبل کی کامیابیاں اُن کی عطا کردہ پزیرائی کی مرہونِ منت ہیں! یوں محترم سر ساجد بلاشبہ تعلیم کیساتھ تربیت سازی کا ہنر بھی اپنا لیتے تھے۔ طالب علموں کیساتھ دوستانہ سطح پر آنے کا ہم بے تکلفی کا ناجائز فائدہ حاصل کرتے ہمارا خصوصی قومی وطیرہ ہے۔ گروپ سٹڈی کی تشکیل دیتے، انفرادی Presentationکا موقع دیتے ۔ مگر ہم سنجیدگی اختیار نہ کرتے۔ فیض احمد فیض اور غالب پر کمال دسترس رکھنے کے باوجود ہم ان کی اُستادی کے فیض کو اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیتے۔ وُہ سچی لگن والے اُستاد ہیں۔ وُہ جدید طریقہ تدریس اپناتے ، کبھی کبھی تو ہمیں لگتا کہ محترم سر ہمیں ایم اے اردو کی ڈگری کے ساتھ غیر رسمی بی ایڈ بھی کروا کر ہی دم لیں گے۔ ہنستے ہنساتے ہم اِن کے پرچے کا امتحان دیتے اور پھر رزلٹ ہماری اجتماعی کاروائی پر قہقہہ لگائے بِناء رہ نہ پاتا۔۔۔ 2017اپریل (اسی سال )اولڈ سٹوڈنٹ کی تقریب میں شعبہ اردو کے ماحول سے الگ تھلگ نظر آئے۔ سچ مچ کے پروفیسر دِکھائی دیئے اورناراض حسینہ کی طرح اپنی فطری زودرنج طبیعت کے ہاتھوں نڈھال بھی۔۔۔ زندگی تو کیا فطرت بھی تضاد اور اختلافات کا رنگ سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔ اختلافات تو ناگزیر ہیں گھر ہو یا ادارہ یا کوئی جنگل حتیٰ کہ کسی پودے پر نگاہ ڈالیں تو پھول پتے اور کلیاں بھی۔۔۔ یکساں شاداب دِکھائی نہیں دیتے۔ ہمارے لئے ہمارے اساتذہ کی تکریم درحقیقت ہماری اپنی ذات کی توقیر ہے۔
فطرت کسی کے ظرف کو اتنا نہ آزما
ہر شخص اپنی ذات میں بس لاجواب ہے
محترم سر ساجد صاحب کی شادی خانہ آبادی کا واقعہ بھی ہمارے سیشن کے دوران سرزد ہوا۔ اُن کی زندگی کے اس تاریخی واقعہ پر عزیز و اقارب ساتھی اساتذہ اور تمام طالبعلم اُس ”غیرتِ ناہید“ کے شُکر گُزار ہوئے جنہوں نے سر ساجد کی زندگی کی ہر تان کو دیپک بنا دیا۔ اُس ”رنگینی ، نو بہار“ کے نتیجے میں سر ساجد صاحب کے تمام ناظرین کو پہلی بار اُن کے سر کے متنوع بالوں کو ایک ہی وحدت میں دیکھنا نصیب ہوا اور محترم سر ساجد صاحب اور وافر مقدار میں نئی مسکراہٹ کے ہمراہ خوش لباسی کے نئے دور میں داخل ہوگئے۔ بعد ازاں تو ہر شادی شدہ جوڑا ” ترجمانِ ماضی شانِ حال “ کی تصویربن جاتا ہے۔ محترم سر ساجد ایسے پیارے سے انسان ہیں جن کی شخصیت میں ایک ایسا ہمکتا سا بچہ دِکھائی دیتا ہے جو روٹھنے اور منانے کی گہما گہمی کو تاحیات جاری رکھنا چاہتا ہے۔ جلدی ناراض ہوجانے والے محترم سر بہت جلدی مان بھی جاتے ہیں۔ مگر حقیقی ناراضی کو بھلا کرناراضی کے منفی اثرات کیساتھ باکسنگ ونگ میں تب تک کھیل جاری رکھتے جب تک منتظر مثبت اثرات کی Date Expire نہ ہوجائے۔ اور یوں یہ معصوم سا بچہ اپنی معصومیت کے ہاتھوں اپنے حق پہ خود ہی ڈاکہ ڈال دیتا ہے۔ ہوسٹل کے قیام کے باعث ہم اکثر شعبہ سے ملنے والی چھٹیوں میں من مرضی کی چھٹیاں شامل کرلیتے۔خوش دِل انسان محترم سر ساجد واپسی پرباآوازِ بلند پوچھتے ” زُلیخا صبا ! ابا کا کیا حال ہے“ اور میں کہتی “ جی ٹھیک ہیں“ ۔ دوسال دونوں فریقین کی جانب سے ” مِن جانب اللہ“ کی سی کیفیت بھرا سلام دُعا کا تبادلہ ہوتا رہا۔ فیض احمد فیض کی شاعری کے تصورات کی جدت انہیں بے حد مرغوب تھی۔ فیض احمد فیض صاحب کی شاعری کا مقام فکر و سوچ کے دھارے کی بلندی پر تھا۔ وُہ خصوصاً علم و ادب کے ذریعے لیلی وطن کو درپیش سماجی، اقتصادی ناہمواریوں کو واضح کرنا چاہتے تھے۔ محترم سر ساجد صاحب کی تدریس بذریعہ نظم فیض احمد فیض کے حقیقی نظریات کو متعارف کروانے کامیاب ہوتی۔
یہ داِ غ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وُہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
چلے چلو کہ وُہ منزل ابھی نہیں آئی۔
میرا ماضی غالب کی شاعری کو سر ساجد کے لہجے کی یاد تک لے جاتا ہے۔ غالب کی شاعری کی دیوانگی، فرزانگی کیساتھ سادگی، تفکر ، اِنسانی نفسیات و جدت ، تخیل منفردو شوخی اور ظرافت کو ایک ایک شعر کی مثال کیساتھ سمجھاتے۔ گو اُن کے اشعار ان کے انتہائی پسندیدہ تھے۔ جن کی تکرار کے بِنااُن کا لیکچر ادھورا اور یہ تکرار ہماری یاد داشت کے تعلم کوپُختہ کردینے میں مددگار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
اور
تیرے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
میں زُلیخا صبا اپنے محترم اُستاد سر ساجد کی زندگی، سلامتی اور علمی درجات کی بلندی کیلئے دُعا گو ہوں۔
فیس بک کمینٹ