میرا تجسس اب بڑھ رہا تھا۔ مرشد اور مرید کی محبت اب دیکھنا چاہتا تھا۔ مَیں نے کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو یہ کتاب مجھے بلھے شاہ کی زبان میں بتانے لگی:میرا تجسس اب بڑھ رہا تھا۔ مرشد اور مرید کی محبت اب دیکھنا چاہتا تھا۔ مَیں نے کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو یہ کتاب مجھے بلھے شاہ کی زبان میں بتانے لگی:عشق بھلا یا سجدہ تیارہن کیوں پانا جھانجا جھیڑابُلھا کردا چپ بہتیراعشق کریندا مارو ماراسی عشق کو اقبال نے اپنی زبان میں کچھ یوں کہا ہے:تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوںمری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوںبھری بزم میں راز کی بات کہہ دیبڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوںشفقت پرویز بھٹی جب عشق و خرد کی بات کرتے ہیں تو سلطان باہو کا دیوان کھول کر کہتے ہیں:ایمان سلامت ہر کوئی منگداعشق سلامت کوئی ہُومنگن ایمان شرماون عشقوںمیرے دل نوں غیرت ہوئی ہُوجس منزل نوں عشق پہنچاوےایمان نوں خبر نہ کوئی ہُومیرا عشق سلامت رکھیں میاں باہومَیں ایمان نوں دیاں دھروئی ہُوایسے میں شفقت پرویز بھٹی جب انجم رومانی کا درج ذیل شعر پڑھتے ہیں تو عشق کی معنویت مزید کھل کر سامنے آتی ہے:وہ جس کی یاد میری زندگی کا حاصل ہےکبھی جو راہ میں مل جائے بات بھی نہ کروںعشق و خرد کے باب میں جب شفقت پرویز یہ لکھتے ہیں تو لطف آ جاتا ہے کہ ”عشق میں ملنا نہیں ہوتا، ملنے پر ترقی رک جاتی ہے“ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقبال کی شاعری میں کس کو تلاش کر رہے ہیں۔ یعنی:عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کر ہے فراقوصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب”اقبال قلندر“ کامطالعہ کرتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ چند ماہ قبل مَیں ملتان کے سیتل ماڑی قبرستان میں عزیز میاں قوال کے سالانہ عرس پر گیا تھا تو وہاں نوازش علی ندیم نے لنگر سامنے رکھا تو مجھے عزیز میاں کی قوالی ”تیری صورت“ یاد آ گئی۔ سہیل رسول اور اس کے ساتھیوں نے مٹی کی پیالیوں میں لنگر ڈال کر میرے سامنے رکھا تو میرے کانوں میں ڈھول کی آواز اور آنکھوں کے سامنے دھمال ڈالنے والے تھے۔ ایسے میں آلو گوشت روٹی کا لنگر مَیں کیا کرتا۔ میری روح کو غذا مل رہی تھی کہ وہ عزیز میاں قوال جس نے وصیت کی تھی کہ مجھے میرے مرشد حضرت توتاں والی سرکار کے قدموں میں دفن کرنا۔ پھر یہی ہوا عزیز میاں کا انتقال ایران میں ہوا۔ وصیت کے مطابق ملتان لایا گیا۔ عزیز میاں کے اہلِ خانہ راولپنڈی میں رہتے ہیں لیکن وہ ہر سال عرس کے موقع پر ملتان آتے ہیں۔ ان کے بیٹے قوالی کرتے ہیں اور ہم جیسوں کو ”تیری صورت“ سناتے ہیں۔ اقبال قلندر تو ہیں لیکن ہم میں سے بہت سوں کو یہ معلوم نہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست بے اولاد تھے۔ انہوں نے اولاد کے لیے بے شمار عبادات کیں تو انہیں خواب میں حکم دیا گیا وہ لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر جائیں اور اپنی مراد وہاں جا کر بیان کریں۔ ہمارے وہ دوست کچھ عرصہ تک پس و پیش کرتے رہے جب انہیں بار بار خواب میں اصرار کیا گیا کہ وہ علامہ اقبال کے مزار پر جائیں۔ جس پر ہمارے دوست نے ہتھیار ڈال دیے۔ وہ ملتان سے لاہور مزار اقبال پر حاضری کے لیے گئے دُعا مانگی اور پھر وہ کچھ عرصے بعد صاحبِ اولاد ہو گئے۔ یہاں یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد ہے کہ اپنے اردگرد موجود اولیاءاﷲ کی طرف نہیں دیکھتے کہ یہ زمین پر اﷲ کے سفیر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ محبت کاپیغام عام کرتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کو آفاقی کلام کہا جاتا ہے تو وہ اپنی شاعری میں آفاق میں ہونے والے فیصلوں کا ذکر کرتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا:عمر گزری دل کے بجھنے کا تماشا کر چکےکس نظر سے بام و در کا یہ چراغاں دیکھتے؟ آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہر شخص پریشان ہے لیکن پریشانی کا حل اﷲ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کے ذریعے رکھا ہے۔ جیسے چند دن قبل مجھے بیٹھے بٹھائے لاہور سے شفقت پرویز بھٹی نے اپنی کتاب ”اقبال قلندر“ کے ذریعے دستک دی اور اب میں ان کی بدولت ملتان کے ایک اور صوفی بابا سائیکلوں والی سرکار کے قدموں میں جاں گا۔ اقبال نے بھی انہی لمحوں کے لیے کہا تھا:تو اپنا نامہ اعمال اپنے ہاتھ سے لکھخالی رکھی ہے خامہ حق نے تیری جبیں شفقت پرویز بھٹی نے جب ”اقبال قلندر“ بھجوائی تو انہوں نے علیحدہ کاغذ پر لکھا ”بیرونی حملہ آوروں نے ملتان کے بارے میں بے شمار اشعار کہے جن میں ایک شعر کچھ یوں ہے:چہار چیز است تحفہ ء ملتانگرد و گرما، گدا و گورستانمیرے ملتان کی خاک میں میرے مرشد دفن ہیں اس لیے ہم ان کے گداگر ہیں۔“ شفقت صاحب نے اپنے مرشد کے حوالے سے یہ بات لکھ کر ہمیں بھی شہر کے مرشدوں کا گداگر بنا لیا ہے۔ واقعی میرا شہر بے مثال ہے جس پر مَیں ہمیشہ فخر کرتا ہوں۔
فیس بک کمینٹ