مَیں نے اُسے کہا بچھڑنے کے لیے آ گئے ہو۔ اگر بچھڑنا ہی ہوتا تو مَیں زندگی کی دھول اوڑھے دنیا میں کیوں آتا۔ مَیں تو ملن رُت میں تتلیوں کے رنگوں کو بتانے آیا ہوں کہ درد بھرے گیت لکھنا چھوڑو۔ میری طرف دیکھو مَیں کوئل کی کوک بن کر آیا ہوں۔ مجھے درد اور محبت میں تلاش کرنا۔ اپنی مسکراہٹوں کے پھولوں میں تلاش کرنا۔ بلھے شاہ کی کافی میں دیکھنا۔ خواجہ فرید کے ”میڈا عشق“ کی الاپ کو سننا۔ مَیں تمہارے اردگرد کے راستوں کے کانٹے چنتا دکھائی دوں۔ تم آج کے دن کی روشنی کی پہلی کرن میں مجھے کھوجنا۔ مَیں ہر جگہ تمہیں ملوں گا کہ آج کا دن میرا ہے۔ میری آواز کی اُداسی کو تم عابدہ پروین کے اُس گیت میں دیکھنا جب وہ بے خودی کے عالم میں کہتی ہے:
جب سے تونے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
میری آنکھوں کی بے تابی دیکھ کر وہ بولا مجھے جواب دو۔ مجھے تلاش کر رہے تھے۔ اب بتاؤ مَیں تمہاری دنیا میں آ گیا ہوں۔ نور، روشنی، ناز، تتلی، بارش، خوشبو، لفظ، رنگ، گیت، کتاب، نیند، خواب، تعبیر، عبادت، سعادت، وقار، داستان، کہانی، دل کی دھڑکن، غصہ، پیار، جدائی، جگنو، چڑیا، اُداسی، گڑیا، خمار، غبار، کوک، ہوک، تلخی، خطا، جزا، سزا، وفا، شکوہ، شکایت، آنگن، پھول، کانٹا، خواہش، تشنگی، تمنا، طلب، جزا، سزا، وفا، شکوہ، شکایت، ثمر، چاہت، بے خودی، چاشنی، ہاتھوں کی ریکھا بن کر بتاؤ میری تلاش کا سفر کہاں سے شروع کرنا چاہو گے؟
مَیں نے کہا تمہاری تلاش کا سفر کہیں پر نہیں ہے۔ تم کو تصور میں جب چھوٹا سا دیکھتا ہوں تو تمہاری ماں کے پہلو میں تم کو ایک روشنی کا استعارہ بن کر دیکھتا ہوں۔ سب کی آنکھ کا تارا۔ وہ تو تم آج بھی ہو۔ اپنے گھر میں اور سب کے گھروں میں۔ مجھے یقین ہے تم نے جب زمین پر پہلا قدم رکھا ہو گا زمین نے بھی آگے بڑھ کر تمہیں تھاما ہو گا۔ مدتوں بعد زمین کو بھی احساس ہوا ہو گا کہ کوئی ماہِ کامل اُترا ہے۔
تمہاری زندگی کا سفر کیا ہے؟ مجھے نہیں معلوم ہے کیونکہ دیکھنے والی زندگی کچھ اور ہے اور سوچنے والی کوئی اور۔ اسی لیے واصف علی واصف نے کہا تھا:
”زندگی کسی میدانِ کارزار کا نام نہیں۔ یہ جلوہ گا ہ ہے۔ حسن کی جلوہ گاہ۔ یہ ایک بارونق بازار ہے جس میں سے خریدار گزرتا ہے۔ وہ خریداری کرتا ہے اور اس کا سرمایہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر تعجب ہے کہ اس کی خریداری بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ وہ خالی ہاتھ لوٹ جاتا ہے لیکن رونقِ بازار قائم رہتی ہے۔ اور خریدار ختم ہوتے ہیں۔ زندگی کسی اُلجھے ہوئے سوال کا نام نہیں یہ تو ایک پُرلطف منظر ہے۔ ایسا پُرلطف منظر کہ تبصرے اور تنقید کے بوجھ کو بھی برداشت نہیں کرتا…. یہ ایک دیکھنے والا منظر ہے۔ ایک سننے والا نغمہ ہے۔ ایک سوچنے والا منصوبہ نہیں۔ ایک مشکل معمہ نہیں۔ زندگی تو بس زندگی ہی ہے۔ کسی کا احسان ہے۔ کسی کی دین ہے۔ کسی اور کا عمل ہے۔“
واقعی زندگی تو بس زندگی ہے۔ یہ قائم بھی رہتی ہے اور مٹ بھی جاتی ہے یعنی جو زندگی کو زندہ رکھنے کے لیے جتن کرتا ہے تو وہ زندگی قائم رہ جاتی ہے۔ دوسری جانب درخشاں بھی ہوتی ہے اور نور بھی تقسیم کرتی ہے۔ یہ زندگی کبھی سکول کی یونیفارم میں اپنے پیارے ہونٹوں سے ”لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری“ پڑھتی ہے تو کبھی یہ زندگی اپنے یونیفارم پر روشنائی گرا کے روشنی پھیلاتی ہے۔ اس زندگی کے بے شمار رنگ ہیں جو بھائیوں کے ہنسی مذاق کے جملوں میں نور بن کر آتے ہیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتے ہیں۔ مجھے کہنے دیں یہ زندگی ست رنگی ہے جس کے رنگوں سے نور ٹپکتا ہے۔ یہ زندگی تو ازل سے لے کر ابد تک کے سفر میں چراغاں کرتی ہے۔ یہ زندگی کبھی سکول بیگ میں رکھی پانی کی بوتل میں سانس لیتی ہے تو یہ زندگی کبھی لنچ بکس میں رکھے سینڈوچ کے ذائقہ میں بولتی ہے۔ تو یہ زندگی کبھی شدید پیاس کے بعد ٹھنڈے مشروع کے ہر قطرے میں دکھائی دیتی ہے۔
زندگی میلے میں گھومتی وہ شوقین روح بھی ہے۔ ہر وقت ہنسنا چاہتی ہے اور ہنستی ہوئے اسے کوئی نہ دیکھے وہ یہ بھی چاہتی ہے۔ زندگی دُکھ ہے لیکن اسے سکھ کی تلاش بھی رہتی ہے۔ زندگی غلط فہمی ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ زندگی ایک سہانا خواب بھی ہے جو اچانک آنکھ کھلنے سے ختم ہو سکتا ہے۔ زندگی خوشحال بھی ہو سکتی ہے اور بدحال بھی۔ زندگی کے رنگوں کو رنگوں میں تلاش کرو گے تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ زندگی کے رنگوں کو فیض کے بقول ”مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ“ کے مصرع میں دیکھو۔ زندگی ن م راشد کی نظم ”زندگی سے ڈرتے ہو، زندگی تو تم بھی ہو“ کے لفظوں میں تلاش کرو۔ زندگی نمرہ، عمیرہ، بشریٰ، رضیہ اور اس جیسی لکھنے والی اہلِ قلم کی تحریروں میں دیکھو جو ہزاروں نہیں لاکھوں پڑھنے والوں کو زندگی کے خوشگوار لمحے فراہم کر رہی ہیں۔زندگی منیر نیازی کی اس نظم کا منشور بھی جس میں وہ کہتا ہے کہ
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
کسی سے بات کرنی ہو
کوئی وعدہ نبھانا ہو
زندگی مسکراہٹ ہے تو کسی کے لیے موت کا پیغام۔ کہیں پر زندگی سمندر تو کہیں پر دریا۔ یہ زندگی اتنی گہری ہے کہ کوئی بھی شخص اس کی حقیقت کو نہیں جان پایا۔ کبھی یہ زندگی دن اور رات کے کھیل میں مصروف ہوتی ہے تو کبھی یہ زندگی آسمان بن جاتی ہے اور آسمانوں پر جا کر بارشوں کا سلسلہ شروع کرتی ہے۔ زندگی کبھی نور ہوتی ہے تو یہ زندگی ایسا کھیل بن جاتی ہے جس میں کسی کی ہار نہیں ہوتی اور جیت بھی کسی کو نہیں ملتی۔ زندگی جب مسکراتی ہے تو اس کا حسن دیدنی، زندگی جب روتی ہے تو اس سے دکھی کوئی اور نہیں ہوتا بلکہ زندگی اپنے دکھوں کی اذیت خود ہی محسوس کرتی ہے۔
زندگی دُعا بھی ہے دغا بھی۔ زندگی کو اگر دُعا مل جائے زیست کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔ اگر زندگی دغا دے تو پھر کہیں پر اس سے وابستہ لوگوں کو پناہ نہیں ملتی۔ زندگی اچھے موسم کی آرزو بھی ہے جو انتظار کی گھڑیاں گن کے گزارتا ہے۔ زندگی تکیے کا سرخ غلاف بھی ہے جس کا خواب ہر لڑکی دیکھتی ہے۔ زندگی سرخ لیٹر بکس میں پڑا وہ محبت نامہ بھی ہے جو ڈاکیے کے آنے کا منتظر ہے۔ زندگی کسان کے کھیتوں کی ہریالی ہے جہاں پر فصل تیار ہونے کے انتظار میں گوری کے ہاتھ پیلے کرنے کی نیت باندھی جائے گی۔ زندگی فضا میں اڑتے ہوئے اس کبوتر کا نام بھی ہے جس کے سامنے اڑان ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی ہے۔ زندگی کوئل کی اس کوک کا نام ہے جو رات گئے سیاہ آسمان کے تلے کوکتی ہے اور اپنے بچھڑے ساتھی کو آواز دیتی ہے۔ زندگی خیال کا وہ پھول ہے جو محبت کی ہر شال پر کاڑھا جاتا ہے۔ زندگی قہقہہ ہے اس دکھ کے انتظار کا جو زندگی نے ابھی دیکھا نہیں ہے۔ زندگی زنداں دلی کا نام ہے جو بے گناہ قیدی زندگی کے جبر کے تحت کاٹتے ہیں۔ زندگی اس وعدے کا نام بھی ہے جو ہر محبوبہ اپنے محبوب سے کرتی ہے۔ زندگی اس سالگرہ کا نام ہے جو سال کے ایک دن کسی نہ کسی کی زندگی میں دستک دیتا ہے اور آ کر کہتا ہے آج کا دن مبارک ہو کہ تم آج کے دن مسکراتے ہوئے اس گھر میں اترے تھے۔ جہاں پر لوگ نئی کہانی اور نہ ختم ہونے والی روشنی کے منتظر تھے۔ تمہارا دنیا میں آنا ہر اس شخص کو مبارک ہو جو تمہیں دیکھ کر مسکراتے ہیں۔سانس لیتے ہیں۔ مزید جینے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں کہ جب اﷲ سائیں خود یہ چاہتا ہے کہ ہر طرف روشنی و محبت ہو۔ تو وہ کہتا وہ دیکھو مَیں نے تمہارے گھر میں چراغاں کر دیا ہے۔ ایک ایسا چراغاں جو اپنی آواز، اپنی گفتگو اور اپنے وجود سے ثابت کرے گا کہ زندگی سکھ اور دُعا کے موسموں کا وہ پھول ہے جو کبھی مرجھاتا نہیں ہے جو کبھی اپنی خوشبو سے کسی کو محروم نہیں کرتا۔ اسی لیے تو سیّد مبارک شاہ نے کہا تھا:
یہی قیدِ گنبدِ وقت ہے، مرے ہم قفس
جسے لوگ کہتے ہیں زندگی، مرے ہم قفس
یہ اُسی مسافتِ بے طلب کے ہیں دائرے
جنہیں ہم سمجھتے ہیں رہ گزر مرے ہم سفر
اسی رہ گزر پہ رواں دواں سبھی اجنبی بے خبر
کہ یہ دائرے کبھی منزلیں، کبھی راستے
جہاں سب کے پاؤ ں میں بج رہے ہیں
سلاسلِ غمِ زندگی
یہ سلاسلِ غمِ زندگی، یہی حاصلِ غمِ زندگی
یہی غم کی لَے، یہی نغمگی، یہی دسترس، یہی بے بسی
یہی زندگی، یہی زندگی، یہی زندگی، یہی زندگی
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )