شاکر حسین شاکرکالمکھیللکھاری

پچاس روپے میں خریدا گیا بچپن؟ کہتا ہوں سچ / شاکر حسین شاکر

گزشتہ  دنوں کی بات ہے مَیں ملتان کینٹ سے ملتان شہر کی طرف گیا تو یاد آیا کہ حرم گیٹ اور پاک گیٹ کے درمیان بان بازار کی ایک دکان سے گھر کے لیے کچھ سامان خریدا۔  اس کے برابر والی دکان پر لاٹو دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ اور یہ بھی یاد آ گیا یہ دکان یقینی طور پر اتنی پرانی ہے کم از کم مَیں اسے گزشتہ چالیس برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔ دکان کے باہر کھڑا ہو کر یہ دیکھتا رہا کہ کاریگر لاٹو کس طریقے سے بناتا ہے۔ پھر میری نظر دکان میں پڑے ہوئے تین لاٹوؤ ں پر پڑی جو مختلف سائز کے تھے۔ ہر لاٹو کا رنگ مختلف اور اتنا دیدہ زیب تھا کہ جی چاہا کہ تینوں سائز کے لاٹو خرید لوں ۔ اب مَیں نے دکاندار سے ریٹ دریاف کیا معلوم ہوا سب سے چھوٹا لاٹو پچاس روپے، اس سے بڑا پچھتر اور سب سے بڑا سو روپے کا ہے۔ مَیں نے دکاندار پر غور کیا یاد آ گیا یہ تو وہی دکاندار ہے جب ہم چوک خونی برج ملتان سے حرم گیٹ اسلامیہ ہائی سکول جایا کرتے تھے۔ بھلا زمانہ تھا نہ کوئی موٹرسائیکل نہ گاڑی۔ گھر سے پیدل نکلتے تھے اور پانچ چھ کلومیٹر کا سفر راستے میں آنے والی دکانوں کو دیکھتے دیکھتے گزر جاتے۔ چوک حرم گیٹ پر صبح سویرے کتابوں کی دکانوں پر خرید و فروخت کرنے والوں کا رش کم اور اپنے اپنے انک پین میں مفت میں سیاہی بھرنے کا رش زیادہ دکھائی دیتا۔ کیا شاندار زمانہ تھا کہ کتابوں کے تاجر طالب علموں کو لکھنے کے لیے روشنائی مفت میں دیا کرتے تھے۔ آج کے طالب علموں کو تو شاید یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اس شہر میں کیسی کیسی خوبصورت روایات ختم ہو گئیں۔ بات ہو رہی تھی لاٹو والی دکان کے مالک کی جس کے چہرے پر حالات کی تصویر عیاں تھی۔ اور وہ اسی طرح اپنی دکان میں کام کر رہا تھا جس طرح ہم نے اس کو بچپن میں دیکھا تھا۔ رنگ وہی سرخ سفید البتہ سر کے بال سفید ہو چکے تھے۔ لیکن محنت اسی طرح کر رہا تھا جس طرح ہم نے اسے بچپن میں دیکھا تھا۔ گزشتہ دنوں کی بات ہے مَیں ملتان کینٹ سے ملتان شہر کی طرف گیا تو یاد آیا کہ حرم گیٹ اور پاک گیٹ کے درمیان بان بازار کی ایک دکان سے گھر کے لیے کچھ سامان خریدا۔  اس کے برابر والی دکان پر لاٹو دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ اور یہ بھی یاد آ گیا یہ دکان یقینی طور پر اتنی پرانی ہے کم از کم مَیں اسے گزشتہ چالیس برسوں سے دیکھ رہا ہوں۔ دکان کے باہر کھڑا ہو کر یہ دیکھتا رہا کہ کاریگر لاٹو کس طریقے سے بناتا ہے۔ پھر میری نظر دکان میں پڑے ہوئے تین لاٹوؤ ں پر پڑی جو مختلف سائز کے تھے۔ ہر لاٹو کا رنگ مختلف اور اتنا دیدہ زیب تھا کہ جی چاہا کہ تینوں سائز کے لاٹو خرید لوں ۔ اب مَیں نے دکاندار سے ریٹ دریاف کیا معلوم ہوا سب سے چھوٹا لاٹو پچاس روپے، اس سے بڑا پچھتر اور سب سے بڑا سو روپے کا ہے۔ مَیں نے دکاندار پر غور کیا یاد آ گیا یہ تو وہی دکاندار ہے جب ہم چوک خونی برج ملتان سے حرم گیٹ اسلامیہ ہائی سکول جایا کرتے تھے۔ بھلا زمانہ تھا نہ کوئی موٹرسائیکل نہ گاڑی۔ گھر سے پیدل نکلتے تھے اور پانچ چھ کلومیٹر کا سفر راستے میں آنے والی دکانوں کو دیکھتے دیکھتے گزر جاتے۔ چوک حرم گیٹ پر صبح سویرے کتابوں کی دکانوں پر خرید و فروخت کرنے والوں کا رش کم اور اپنے اپنے انک پین میں مفت میں سیاہی بھرنے کا رش زیادہ دکھائی دیتا۔ کیا شاندار زمانہ تھا کہ کتابوں کے تاجر طالب علموں کو لکھنے کے لیے روشنائی مفت میں دیا کرتے تھے۔ آج کے طالب علموں کو تو شاید یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اس شہر میں کیسی کیسی خوبصورت روایات ختم ہو گئیں۔ بات ہو رہی تھی لاٹو والی دکان کے مالک کی جس کے چہرے پر حالات کی تصویر عیاں تھی۔ اور وہ اسی طرح اپنی دکان میں کام کر رہا تھا جس طرح ہم نے اس کو بچپن میں دیکھا تھا۔ رنگ وہی سرخ سفید البتہ سر کے بال سفید ہو چکے تھے۔ لیکن محنت اسی طرح کر رہا تھا جس طرح ہم نے اسے بچپن میں دیکھا تھا۔ چوک خونی برج کے نواح میں ہمارا جو گھر تھا وہاں سے یہ ہمارا روز کا معمول تھا کہ ہم محلے کے چند دوستوں کے ساتھ سکول جایا کرتے تھے۔ ہمیں کیا معلوم چوک خونی برج کا نام خونی کیوں رکھا گیا؟ یہ تو ہمیں بہت بعد میں جا کر علم ہوا کہ یہاں پر سکندر اعظم نے آ کر لڑائی کی۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔کئی دن تک خون اتنا بہتا رہا کہ اسی دور میں اس برج کا نام خونی برج پڑ گیا۔ جب سکندر اعظم زخمی ہو گیا تو اس کے سینے سے جو تیر نکالا گیا۔ اس کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ سکندر اعظم پر غشی طاری ہو گئی اور یہ غشی تقریباً گیارہ دن تک رہی اور اسے جب کبھی بھی ہوش آتا تو اپنے استاد ارسطو کو یاد کرتا اور کہتا”میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور استاد زمین سے آسمان پر لے گیا“شدید زخمی حالت میں سکندر اعظم کے رفقاءاسے ماضی کی باتوں اور کہانیوں سے بہلانے کی کوشش کرتے تو کبھی وہ زخموں سے چور ہونے کے باوجود مسکرا دیتا۔ کبھی اپنی حالت دیکھ کر پریشان ہو جاتا۔ اسی حالت میں وہ دیو جانسن قلبی کا ذکر بھی کرتا اس کی علمی انا اس کی عسکری انا سے ہر وقت متصادم رہتی اور سکندر اعظم اس لمحے زیادہ پریشان ہو جاتا جب اس کو یہ احساس ہوتا کہ وہ اپنے فلسفے کو دنیا میں عام نہ کر سکا۔ مقامی معالجین کی محنت سے سکندر اعظم کو شفا تو مل گئی لیکن وہ جب یہاں سے رخصت ہوا تو جاتے جاتے اس نے اپنے محبوب جانباز ابریاس کی قبر پر حاضری دی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خونی برج کے قریب دفن تھا۔  مَیں لاٹو والی دکان کے باہر کھڑا ہو کر اپنے بچپن کو یاد کر رہا تھا۔ آخرکار دکاندار نے دریافت کیا: کیا چاہیے؟ مَیں نے پُر اشتیاق آنکھوں سے لاٹوؤ ں کی طرف نظر دوڑائی اور اس سے کہا کہ مجھے سب سے چھوٹا لاٹو چاہیے۔ پچاس روپے کا ہو گا۔ دکاندار نے کہا۔ مَیں نے جیب سے فوراً پچاس روپے نکالے۔دکاندار کو دیئے۔ سرخ فیروزی رنگوں سے مزین لاٹو میرے ہاتھ میں آ چکا تھا۔ وہ لاٹونہیں میرے بچپن کا ایک باب تھا جس کو مَیں نے آج پچاس روپے میں خریدا اور اپنی دکان کی طرف چل پڑا۔ دکان پر جا کر سب سے چھوٹے بیٹے ثقلین رضا کو اپنی جیب سے لاٹو نکال کر دکھایا تو اس نے سوال کیا: یہ کیا ہے؟ مَیں نے کہا ”لاٹو“۔ مسکرا کر بولا یہ لاٹو کیا ہے۔ مَیں نے اسے بتایا یہ ہماری عمر کے لوگوں کے لیے لاٹو ہے اور تمہاری عمر کے بچوں کے لیے ”Bay Blade“ ہے۔ حیران ہو کر کہنے لگا یہ Bay Blade سے زیادہ خوبصورت ہے۔ مَیں نے کہا بیٹا ہمارے بچپن کی ہر چیز آپ کے بچپن کی چیزوں سے زیادہ خوبصورت تھی۔ ہم نے اپنے گلی محلوں میں پٹھو گرم کھیلا، گلی ڈنڈا، کبڈی، کشتی، میلے ٹھیلے، ریچھ کا تماشہ اور دیگر کھیل دیکھنے کو ملتے تھے۔ یہ سب چیزیں تو اب آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ نئی نسل کے بچوں کو صحت مند سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہ ہے۔ اب ان کے ہاتھ میں موبائل، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر ہے جنہوں نے اُن کی ایک طرف صحت خراب کی دوسری طرف قوت مدافعت کم ہوتی جا رہی ہے۔ میری یہ فلسفیانہ گفتگو سن کر بیٹے نے لاٹو میرے ہاتھ سے لیا اور پوچھنے لگا یہ کیسے چلے گا۔ اتنے میں دکان پر موجود آصف نے لاٹو کے نچلے والے حصے پر باریک ڈوری لپیٹی اور لپیٹ کر اس کو ایک لمحے میں زمین پر پھینکا اور لاٹو گھومنا شروع ہو گیا۔ اس کی رفتار نے اس کے رنگوں کو اور خوبصورت کر دیا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا لاٹو کے گھومنے کی رفتار کم ہو رہی تھی اور ہم یہ منظر بڑے شوق سے دیکھ رہے تھے۔ اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے لاٹو کی رفتار کم ہوئی، مزید کم ہوئی اور ایک دم اس کا گھومنا تمام ہوا۔ اور وہ زمین پر لڑھک گیا۔  مَیں نے زمین پر پڑے لاٹو کو اٹھایا اپنے ہاتھ کے انگوٹھے  اور بڑی انگلی کے درمیان لاٹو کو پھنسا کر پوری قوت سے اسے گھمایا وہ گھوما تو سہی لیکن فوراً ہی چند لمحوں میں وہ زمین پر لڑھک گیا۔ مَیں نے ایک مرتبہ پھر یہی ہم دہرایا لیکن لاٹو دوسری مرتبہ بھی نہ گھوما۔ میرے بیٹے نے اس لاٹو کو اپنے ہاتھ میں لیا پوری قوت کے ساتھ اس نے جب لاٹو کو گھمایا تو لاٹو نے گھومنا شروع کر دیا۔ لاٹو جب زمین پر پڑا گھوم رہا تھا تومَیں اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کاش مَیں نے یہ لاٹو اس زمانے میں خریدا ہوتا جب میرے ہاتھوں میں طاقت پوری تھی۔ اس زمانے میں مَیں اس کو گھماتا لاٹو میری طاقت سے گھومتا تو مجھے کتنی خوشی ہوتی۔ بس زندگی کا بھی یہی فلسفہ ہے کہ جب ہمارے پاس طاقت، حسن اور جوانی ہوتی ہے تو ہر چیز کو ہم گھما کر اس کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ اور جب حسن، جوانی اور طاقت تمام ہو جاتی ہے تو ہماری حالت اس لاٹو کی طرح ہو جاتی ہے جس کو ہم پوری طاقت لگا کر بھی زمین پر گھمانا چاہیں تو نہیں گھومتی۔ مَیں پچاس روپے لاٹو خرید کر یہ سوچ رہا تھا مَیں بچپن کا ایک باب خرید کر لایا ہوں مجھے کیا معلوم تھا کہ بچپن کا وہ باب ایک لمحے میں زندگی کے اُس باب کی طرف مجھے لے جائے گا جس کو نہ مَیں خود دیکھنا چاہتا ہوں نہ کوئی اور لیکن زندگی کی حقیقت پہلے باب میں پنہاں نہیں بلکہ آخری باب میں ہوتی ہے جس کو پیچھے رہ جانے والے لوگ دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker