آج سے دو دہائی قبل سرائیکی شاعری میں ایک نئی آواز متعارف ہوئی جس نے اپنے مزاحمتی رنگ اور الگ تھلگ لہجے کی وجہ سے سند مقبولیت حاصل کی یہ وہ دور تھا جب بین الاقوامی سطح پر سرائیکی زبان اپنی پہچان بنا چکی تھی۔ شاکر شجاع آبادی، مشتاق سبقت ، اقبال سوکڑی، احمد خان طارق، ،ریاض، غلام محمد درد، الطاف بھروانہ سمیت متعدد شعراء سرائیکی وسیب کے دکھ اپنے کلام میں پیش کر کے داد وصول کر رہے تھے انہی دنوں شاکر مہروی سنانواں سے نکل کر بڑے شہروں میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 2004 میں ان کی پہلی کتاب ’’ میں یاد آساں‘‘ شائع ہوئی تو دربار سید بہادر علی شاہ کبیروالا میں ان کے لیے تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا گیا۔ شاکر مہروی نے ہزاروں کے اس مجمع میں اپنی نظم ’’ اعتراف ‘‘ پیش کی اور اپنے فن کا اعتراف کروا لیا۔ اعتراف ان کی ایک منفرد نظم تھی۔ اللہ تعالیٰ سے حضرت انسان کا شکوہ جس اندازمیں انہوں نے پیش کیا سامعین آبدیدہ ہو گئے۔
میرا شاکر مہروی سے پہلا تعارف 2001 میں ہوا اورکئی بار مجھے ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا وہ اچھے شاعرکے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان اور دوست بھی تھے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر میاں مقصود احمد اور عبدالوہاب نیازی نے تونسہ میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا تو لاہور اور کراچی سے آئے ہوئے مہمان داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
مظفرگڑھ کے نواحی قصبہ سنانواں سے ابھرنے والی آواز نے ادبی حلقوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ محمد رمضان المعروف شاکر مہروی کے کئی گیت ان کی اجازت کے بغیر گلوکاروں نے گائے اور خوب نام کمایا جن دنوں وہ تہی دستی کی زندگی بسر کر رہے تھے انہی دنوں ان کے کلام پر مشتمل گیتوں کی سی ڈیز بیچ کر لاکھوں کمائے جا رہے تھے۔ ان کے گیت سرکاری ریڈیو سے بھی نشر ہو تے رہے مگر کسی نے صاحِب کلام سے اجازت لی اورنہ ہی انہیں معاوضہ دیا۔
زلف، لب ورخسار، قدوقامت و ہجروصال کے موضوعات کو چھوڑ کر انہوں نے زمانے کی بدلتی ہوئی قدروں، غربت و افلاس اور انسانیت کی تذلیل کو موضوع بنایا۔ شاکر مہروی کو حمد، نعت، سلام، منقبت، نظم، بند، اور غزل پر عبور حاصل تھا۔ وہ احمد خان طارق کو اپنا استاد مانتے تھے اس لیے انہو ں نے اپنی پہلی کتاب ’’ میں یاد آساں‘‘ کا انتساب انہی کے نام کیا۔ ان کی مشہور نعت کے دو شعر ملاحظہ کیجئے
طلب دے مارے بے حال عاشق ہو ادے رستے بھلیندے پئے ہن
کڈاں اے پیغام آ کے مل سی مدینے والے سڈیندے پئے ہن
اساکوں شاہی توں ودھ کے شاکر غلامی سئیں دی ہے شان بخشی
وڈا فخر ہے غلام نعتاں لکھیندے پئے ہن سنڑیندے پئے ہن
شاکر مہروی اپنی نظم اعتراف میں خا لقِ حقیقی سے یوں مخاطب ہیں۔
ول آپ ڈسا اے ٹھنہدی ہے انسان توں ونج انسان پِنے
ہر صورت پِنڑاں پِنڑاں ہے بھانویں شہر یا تیں در آن پِنے
تیڈا نائب تھی تیڈے ہوندیں ہوئیں چا کاسے تھی گردان پِنے
کڈی نعتاں پڑھ پڑھ پندا ہے کڈی پڑھ پڑھ کے قرآن پِنے
تیکوں پِننٹیں بھاندن حکم چلا آوے بھوئیں کولوں آسمان پِنے
تیکوں ڈکھ نی تھیندا روٹی کوں تیڈا آدم بن حیوان پِنے
ان کی مکالماتی نظم زندگی میں زندگی اورانسان آپس میں ہم کلام ہیں اس نظم نے عالمی ادب میں بھی جگہ بنائی اور اسے جاپانی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ نظم زندگی کے دو شعر ملاحظ فرمائیں
ہک ساہ اکھڑے تاں سدھ پئی ءِ چوطرف اندھارے زندگی دے
یک لخت عقل تسلیم کیتے ساہ مانگویں سارے زندگی دے
اج ایں چاکر کل اوں تھیسی ہن کوڑے لارے زندگی دے
ہن بک بک رونو ناں پئے گئے سے کر یاد اشارے زندگی دے
ناہی سوچا تو ڑ دی سنگتی نئیں ساہ آپ ادھارے زندگی دے
اچھا خیر ءِ واریاں وٹ گئی ءِ ہن جے تئیں وارے زندگی دے
چلو من گئے ہیں مجبوریاں ہن بن کون گذارے زندگی دے
اج سوچ پئی تاں یاد آ گئے ہا سوچنا بارے زندگی دے
شاکر مہروی غربت، زمانے کی بے اعتنائی سے لڑتے لڑتے جمعہ 26فروری 2010 کو خالق حقیقی سے جا ملے ۔26فروری کو ان کی ساتویں برسی منائی جا رہی ہے ۔