گیارہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر ملکی معاشی اور سفارتی مسائل پر وسیع البنیاد بات چیت کی ضرورت پر زور دیا ہے قبل ازیں مسلم لیگ (ن)کے صدر جب قائد حز ب اختلاف تھے تو انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو معیشت کی بگڑتی حالت پر مل بیٹھ کر غور اور اس کا مثبت حل تلاش کرنے کی دعوت دی تھی جو اس وقت کی حکومت نے الفاظ میں رد کردی تھی اب جبکہ ن لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی سمیت درجن بھر سیاسی جماعتیں حمایت میں ساتھ کھڑی ہیں تو اس وقت بھی معیشت کی حالت انتہائی خراب ہے مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہے پیٹر ول اور بجلی سمیت گیس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کے باوجود ابھی تک خیر کی خبر توقع نہیں اس پر اپنا کاروبار منافع میں چلانے والا وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ان تین شعبوں کی قیمتوں میں مزید اضافے کیلئے گویا ہیں کہ اگر حکومت پٹرول،بجلی اور گیس کی قیمتوں اضافہ نہیں کرتی تو آئی ایم ایف قرضے کی قسط جاری نہیں کرے گا جبکہ دنیا بھر میں فنانشنل معاملات کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ درجہ تین میں تو رکھی ہے لیکن اسے مثبت سے منفی کردیاگیا ایسے میں ملکی ضروریات کیلئے درآمدی اشیاء خصوصا پیٹرولیم مصنوعات کیلئے ایل سی کرنے میں دشواری کا سامنا ہے اب حکومت ان اہم معاملات پر قابو پانے کیلئے کیااقدامات کرتی ہے وہ واضح نہیں ہے ۔
شاید یہی وجہ ہوگی کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے تحریک انصاف کو وسیع البنیاد مذاکرات کی دعوت دی اور کہا کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ذاتی انا کو مارنا ہوگا کیونکہ سابق حکومت نے تمام منصوبے سیاست کی نذر کردیئے تاہم تحریک انصاف کی قیادت نے ایک مرتبہ پھر پہلے والی اپوزیشن اور اب حکومت کی یہ تجویز مسترد کردی ہے اور وسیع البنیاد مذاکرات کو شوشہ قرار دے کر معاشی تباہی کا اعتراف قرار دیا ہے ۔
سابق وزیر فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ حکمران لوٹا ہوا پیسہ واپس کریں ورنہ نجات ممکن نہیں ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جو حکومت کو مسلط کی گئی قرار دیتے ہوئے بات چیت یا مذاکرات سے انکار کیا ہے تاہم انہوں نے اپنے آپ یعنی تحریک انصاف کو مذاکرات کاقائل قراردے دیا لیکن موجودہ حکمرانوں سے نہیں،البتہ ایک مرتبہ پھر جہانگیر ترین اور علیم خان اور ان کے حواریوں پر سخت تنقید کی اور انہیں نوٹوں کی سیاست کرنے والے قرار دیا اور کہا کہ نوٹوں کی سیاست کرنے والے آج ن لیگ کی ٹکٹ پر ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ووٹوں کی سیاست کرنے والے آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں نوٹوں کی سیاست کرنے والوں کے متعلق بہت سے راز میرے سینے میں ہیں وقت آنے پر سب کچھ سامنے لاؤں گااب یہ راز وہ کب سامنے لاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ایسے راز آج تک مگرسامنے نہیں آسکے البتہ 2018ء کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے مخدوم شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں صوبائی نشست کی کامیابی حاصل کرنے والے سلمان نعیم اس وقت باقاعدہ مسلم لیگ (ن)میں شامل ہوچکے ہیں۔
قبل ازیں جب وہ آزاد رکن پنجا ب اسمبلی منتخب ہوئے تھے تو جہانگیر ترین نے انہیں بنی گالا عمران خان سے ملاقات کروا کر تحریک انصاف میں شامل کروایا تھا اس کے بعد اسی گروپ کے ساتھ وابستہ رہے موجودہ عدم اعتماد میں جہانگیر ترین گروپ نے پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیا یوں یہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے اس طرح قریب آئے کہ انہوں نے ان کے بڑے سیاسی مخالف مخدوم شاہ محمود قریشی کو شکست سے دو چار کیا تھا جس کا غم آج بھی ہارنے والا اٹھائے پھررہا ہے اب جبکہ الیکشن کمیشن نے ان تمام حلقوں میں ضمنی انتخابات کا اعلان کیا ہے جنہیں عدالت نے ڈی سیٹ کردیا تو ملتان کے اس اکلوتے حلقے میں سلمان نعیم کو نہ صرف ٹکٹ دیا بلکہ وزیر اعلیٰ میاں حمزہ شہباز نے ملتان کے سیاسی معاملات کی نگرانی بھی ان کے ذمہ ڈال دی ہے اب تبدیل ہونے والی انتظامیہ اور پولیس سمیت ”حاضر“ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن)کے برسر اقتدار آنے کے باوجود مقامی رہنماؤں کے ڈیرے ابھی تک سیاسی طور پر آبادنہیں ہوسکے البتہ سلمان نعیم کے سیاسی دفتر رش ہے جو اس بات کا واضع اشارہ ہے کہ صوبائی ن لیگی قیادت کسے اہمیت دے رہی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن)کی مقامی قیادت عدم تحفظ کا شکار ہے سیاسی معاملات ایک نو آموزسیاسی کارکن کے حوالے کرنے سے الحاج شیخ رشید مرحوم کے سیاسی وارث اور سابق ایم این اے شیخ طاہر رشید،مسلم لیگ (ن)کے سیاسی ساتھی سابق ایم پی اے رانا نور الحسن کے سیاسی جانشین رانا محمود الحسن اور رانا شاہد الحسن سابق گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کے بیٹے ٹکٹ ہولڈر ملک آصف رفیق رجوانہ سمیت سینکڑوں ہزاروں سیاسی کیا سوچ رہے ہوں گے کیونکہ قبل ازیں 2018ء کے عام انتخابات میں اس ضلع سے ایک دو کے تمام سیٹیں پی ٹی آئی نے جیتی تھیں اور اب اگر قیادت ایسے فیصلے کرے گی تو اس کا اثر مظفر گڑھ،لیہ اور ڈیرہ غازی خان سمیت تمام ان ضمنی انتخابات میں آئے گا جہاں جہاں پرانے لیگیوں کو نظر انداز کرکے منحرف سابق ارکان اسمبلی کو ٹکٹیں دی گئی ہیں ن لیگ اگر فوری طور پر کوئی مثبت اور پاپولر سیاسی فیصلہ نہیں کرتی تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کی تحریک چلانے والے ان کے خلاف سیاسی صف بندی کرلیں گے۔ایسے میں پیپلز پارٹی پہلے ہی ان کے ساتھ ہر قسم کا معاہدہ کرنے کیلئے بات چیت کیلئے کوشاں ہے لیگی قیادت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو جنوبی پنجاب صوبہ بناؤ تحریک کے روح رواں اور اسی نعرے پر کلین سویپ کرکے اسمبلی پہنچے تھے اب ان چار سالوں میں ان پلوں کے نیچے سے بہت پانی نکل چکا ہے سیاسی حکمت والی احتیاط ضروری ہے ورنہ پنجاب کی پگ کا دعویٰ دعویٰ ہی رہے گا۔
فیس بک کمینٹ