جمہوریت کا مطلب اپنی سیاسی اور نظریاتی وابستگی زبردستی کسی پر ٹھونسنا نہیں،بلکہ اپنی اپنی وابستگی پر آزادانہ قائم اور اپنے دائرے کے اندر رہنا ہے کہ آپ کے دائرے سے باہر کسی اور وابستگی کا دائرہ ہو سکتا ہے البتہ اختلاف رائے ہو سکتا ہے، لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ایسے اختلافات کو ذاتی دشمنی بنا کر گالم گلوچ‘ اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو جائیں جو یقیناً معاشرے میں عدم برداشت اور مہلک رویہ پیدا کرتا ہے، تنقید دلائل سے ہوتی ہے تکبر اور بھونڈی زبان زبان استعمال کرنے سے ہر گز نہیں تمام الہامی اور زمینی مذاہب میں آج بھی برداشت اور نرم زبان میں بات کرنے کی تلقین کی گئی ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ کو اس کا ادراک نہیں کہ ان کے ایسے رویوں سے کیسے کیسے اور کتنے بھیانک بگاڑ پیدا ہوتے ہیں جو د ہا ئیوں تو کیا صدیوں تک قوموں کا پیچھا کرتے ہیں موجودہ سیاسی صورت حال پاکسانیوں کو دانستہ جس بے ثمر اندھی عقیدت اور نفرت کا شکار کیا گیا ہے اس سے یہ دو انتہاؤں میں تقسیم ہو چکا ہے، جو ملک کے مستقبل کیلئے خطرناک علامت بن سکتی ہے اس میں افسوس ناک پہلو جو بظاہر نظر آتا ہے کہ 60اور 70ء کی دہا ئی کی طرح غریب کی بجائے نسبتاً پڑھا لکھا طبقہ اس کا لقمہ بنا ہے سوشل میڈیا کو بے دریغ استعمال کرنے والوں نے سو نے پر سہاگہ لگایا اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا تو معلوم نہیں مگر عمران خان کا فیکٹر نکالنا قدرے مشکل ہو گا آنے والا وقت کیا تبدیلی لاتا ہے اس پر قبل از وقت رائے قائم کرنا مشکل ہو گا۔ البتہ اس تمام کھیل میں ایسا لگتا ہے کہ سپورٹس مین سپرٹ کا قطعاً کوئی مظاہرہ نہیں کیا گیا اور فالو ورز کو حقائق تسلیم نہ کرنے کا درس دیا گیا ہے، حالانکہ تحریک انصاف کی قیادت کو یہ ادراک ہو جانا چاہیے تھا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ تقریباً تمام اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتیں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر کھڑی ہو گئیں اور عین جمہوری طریقہ کو اپناتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک جمع بھی کرا دی گئی لیکن یہ بھی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ عدم اعتماد کو ایوان میں پیش نہ کرنے کے لئے نہ صرف آئین،بلکہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی جو کل حکومت کے اتحادی تھے ان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی پھر تاریخ بنی اور عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔
اس دوران قومی اسمبلی کے ایوان کو جس طرح چلایا گیا وہ دنیا نے دیکھا اور اب حالت یہ ہے کہ حالات کو تسلیم کرنے کی بجائے استعفے دینے کا اعلان کیا گیا ہے اور موقف یہ اپنایا گیا کہ چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ اس اسمبلی میں نہیں بیٹھ سکتے تو عرض ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے زیادہ عرصہ تک جس حکمرانی کے ”لوشے“ لئے گئے وہ انہی چوروں‘ ڈاکوؤں کی مرہون منت ہی تھے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کبھی بھی وزارت عظمیٰ کے مسند پر نہیں پہنچ سکتے تھے وزیراعظم بن کر بھی وہ وزیراعظم نہیں،بلکہ چیئرمین تحریک انصاف ہی رہے اور اعلیٰ ترین ہوائی جہاز میسر ہونے کے باوجود کنٹینر پر سوار رہنے کو ترجیح دی فی البدیہ گفتگو نے سونے پر سہاگہ کہ سفارتی کیبل (مراسلہ) کو خط کہہ رہے ہیں حالانکہ اس حوالے سے متعدد سینئر ترین سفارتکاروں نے سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ ایسے سفارتی معاملات کو عوام میں نہیں لایا جاتا، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جب یہ مراسلہ سابق وزیراعظم کے آگے رکھا تو انہیں یہ باور نہیں کروایا کہ یہ محض سفارتی معاملات ہیں انہیں کسی تقریر یا تحریری کا حصہ بنانا دنیا بھر میں سفارتی آداب کے منافی ہوگا ایسے مراسلے میں محض یہ بتایا گیا تھا کہ واشنگٹن، اسلام آباد کیساتھ کچھ معاملات شیئر کرنے میں دشواری محسوس کر رہا ہے کہ وزیراعظم تقریباً ہر بات کو پبلک کر دیتے ہیں جو ان کے لئے سفارتی مشکلات پیدا کرتی ہیں یعنی انہیں (تحریک انصاف کی حکومت) کو یہ بھی معلوم نہیں کہ امور مملکت تو دور کی بات ایسے سفارتی معلاملات کو کیسے ہینڈل کیا جاتا ہے۔
البتہ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی ایسے معاملے میں ایک بہتر کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے کہ وہ قبل ازیں پیپلز پارٹی کی حکومت میں کافی عرصہ تک وزیر خارجہ رہے ہیں انہیں ایسے معاملات کا اگر ادراک نہیں تھا تو وہ وزرات خارجہ کے تھنک ٹینک سے مشور کر لیتے یا پھر کسی انتہائی سینئر سفارت کار سے مشورہ کر کے عمران خان کو یہ مراسلہ فارورڈ کرتے کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ آنے والی صبح اسے پبلک کر دیں گے اس میں ایک اور اہم بات بڑی واضع ہے کہ سابق وزیرخارجہ اپوزیشن اتحاد کو ہر قسم کی باتیں کرنے تک تو ٹھیک رہے، لیکن تا دم تحریر انہوں نے ایسے مراسلہ کی اپنی زبان سے کوئی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی اسے براہ راست لکھا گیا خط تصور کیا ہے جس سے یہ اندازہ لگانابہت آسان ہے کہ یہ سفارتی نہیں، بلکہ اسلام آباد کی بھاگ دوڑ کے معمول کا سیاسی کھیل ہو سکتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی معاشی صورت حال انتہائی دگرگوں، ہنگامی اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے ایسے سفارتی مراسلہ کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی بجائے عام آدمی کے منہ میں دے دیا گیا ہے جسے دراصل روٹی کی ضرورت تھی اب اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر بہت عرصے کے بعد مملکت خداداد کے سیاسی ایوانوں میں ٹھنڈی ہوا آتی محسوس ہوئی ہے کہ ایک دوسرے کو غدار کہنے والے پاکستان کی اہمیت اور ترقی کے ایک نقطہ پر جمع ہو چکے ہیں اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اتحاد جاری رہے اور مل جل کر تعمیری حکومت کا خواب پورا کیا جائے کہ اب یہ ملک کی انتہائی ضرورت ہے۔ادھر تحریک انصاف نے جن اجتماعی استعفوں کا اعلان کیا ہے اس میں انہیں کافی مشکلات آ سکتی ہیں کہ جی ڈی اے نے پہلے دن ہی انکار کر دیا مگر تحریک انصاف کے اندر ”25منحرفین“ کے علاوہ بھی ہیں جو استعفیٰ نہیں دینا چاہتے جبکہ وہ چودھری پرویز الٰہی کو بھی وزیراعلیٰ پنجاب نہیں دیکھنا چاہتے ان کا کیا کریں گے؟
سوشل میڈیا سے پہلو دہی نا ممکن ہو چکی ہے‘ سونے پر سہاگہ پوری دنیا تک روایتی میڈیا نے نہ صرف سوشل میڈیا کی اہمیت کو بام عروج دلوایا بلکہ بوجہ خود بھی اس کا محتاج اور پروپیگنڈے کا شکار ہ چکا ہے کہ یہ اس وقت ذہن سازی کرنے کا مہلک ترین ہتھیار اور ظاہر ہے جس کا عالمی مارکیٹ میں ابھی تک کوئی سدباب یا علاج نہیں‘ یہ ایک ایسا پروپیگنڈہ ہے جو سچ اور جھوٹ کے درمیان تو ہے ہی لیکن اس کو اس جس ڈھٹائی اور کمال سے پھیلایا جاتا ہے کہ سچ کا گمان ہوتا ہے اور سچ جھوٹ نظر آتا ہے کئی دہائیوں سے سیاسی اور ڈکیٹٹر شپ نے ملک کے اندر بے یقینی اور عدم اعتمادی کو پروان چڑھایا‘ سچ اور جھوٹ بیچ رہے ہیں پروپیگنڈہ قد نکالتا رہا اور اب عالم یہ ہے کہ عام آدمی کو سچ بات جھوٹ نظر آتی ہے اور جھوٹ بالکل سچ لگتا ہے‘ سماجی رابطوں کے ذرائع پروپیگنڈہ بڑھانے اور پھیلانے کے کام کر رہے ہیں ایسی ایسی کہانیاں‘ جو حقائق پر مبنی نہیں معلومات بنا کر پھیلائی جا رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں معاشی بحران کے باوجود عام آدمی کو سمجھ نہیں آ رہی اور وہ ایک ایسے پروپیگنڈے کا شکار ہو رہا ہے جو آگے چل کر انتہائی خطرناک اور معاشرے کیلئے مہلک ثابت ہو گا کیونکہ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ لوگ رشتہ دار اور دوست آپس میں دشمنیاں پال رہے ہیں عدم برداشت کی بجائے متشدد سوچ جنم لے رہی ہے جو کسی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہے لیکن حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ابھی تک سیاسی جماعتوں کے اکابرین توجہ نہیں دے رہے یہ بوجہ ہے یا پھر انہیں آنے والے وقت کا احساس ہی نہیں ہے بھوک اور افلاس کی ماری عوام کو مختلف شہروں اور سڑکوں اور چوکوں پر جمع کر کے سابق وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین اسے ”التحریر چوک“ بنانے کی بات کر رہے ہیں انہیں یہ ادراک ہی نہیں کہ ”التحریر چوک“ کو مصری عوام آج تک بھگت رہی ہے اس حوالے سے کسی سنجیدہ سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کا کوئی واضع پالیسی بیان نہیں آیا۔ ادھر پنجاب میں عثمان بزدار تو تبدیل ہو چکے ہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے اندر جو کچھ ہوا وہ تاریخ مرتب کر گیا کہ ایسا قیام پاکستان سے پہلے بھی کبھی نہیں ہوا یہ ایک ایسی روایت بنا دی گئی ہے کہ آئندہ پارلیمانی حکومت میں جو طاقت ور ہو گا وہ کچھ بھی کر لے گا پنجاب اسمبلی کے اندر ”لوٹے“ اور غیر متعلقہ افراد کی آزادانہ مار کٹائی اور نعرے بازی ایک نیا ٹرینڈ بن گیا ہے جو آئندہ کی حکومتوں کیلئے چیلنج ہو گا اسی طرح پہلے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور اب نو آموز گونر عمر چیمہ کی طرف سے بالترتیب وزیراعظم میاں شہباز شریف اور میاں حمزہ شہباز شریف سے آئینی عہدہ کا حلف لینے سے انکار دراصل آئین کی توہین بلکہ آئین کی روح گردانی ہے گویا پارلیمانی طرز حکومت میں یہ روایت ہے کہ جو پارٹی وفاق میں حکومت بناتی ہے وہ صوبوں میں اپنی مرضی کا گورنر تعینات کرتی ہے جس کے بارے میں عموماً تاثر ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کی لائین دینے کی بجائے آئین کے تحت خدمت اور اپوزیشن کے ساتھ یکساں آئین کے اندر رہتے ہوئے سلوک کرتا ہے بد قسمتی سے کچھ دہائیوں سے صدر مملکت اور چاروں صوبوں کے ماضی اور حال کے گورنروں نے آئینی ذمہ داریوں سے زیادہ اپنی اپنی پارٹی کی لائین کو زیادہ فالو کیا جس سے یہ ہوا ان آئینی عہدوں پر سے نہ صرف عام آدمی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد بھی تقریباً اٹھ گیا موجودہ حالات میں بھی یہی کچھ ہوا ہے کہ آئینی عہدوں کو بیچ چوراہے میں تماشا بنا دیا گیا ہے جو آنے والے وقتوں میں پارلیمانی طرز حکومت میں ایک برا اثر قائم کرے گا۔
صدر مملکت اور گورنر کے یہ اقدامات دراصل آئین پاکستان کے ساتھ غیر سنجیدہ رویہ‘ آئین اور امور مملکت کو نہ سمجھنے کی بڑی وجہ ہے جو آئندہ کیلئے ایک بری مثال بن جائے گی۔ ملک بھر میں اس وفاقی حکومت کے توشہ خانہ سے حکومتی اور ریاستی عہدیداروں کی طرف سے انتہائی قیمتی اشیاء کو ارزاں قیمتوں پر لیکر مارکیٹ میں فروخت کی خبریں چل رہی ہیں یہ وہ قیمتی اشیاء ہوتی ہیں جو کسی ملک کے سرکاری عہدے پر گئے صدر مملکت‘ وزیراعظم یا وزراء کو وہاں کے ملک کے حکمران سرکاری تحفہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جو واضع اصول اور قانون کے مطابق بحق سرکاری توشہ خانہ میں جمع ہو جاتے ہیں بعد ازاں اس کی قیمت کا تعین کر کے نیلام عام کی جاتی ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ اسے مشتہر کیا جائے بد قسمتی سے وطن عزیز میں ایسا کبھی نہیں ہو سکا اور دوست ملکوں سے ملنے والے قیمتی طائف محض سینکڑوں روپے میں توشہ خانوں سے حاصل کر کے گھروں کو لے جایا گیا یہ سلسلہ نیا نہیں اور نہ ہی سابق وزیراعظم عمران خان نے کوئی انوکھا کام کیا ہے ماضی کے تمام حکمران یہی کرتے رہے ہیں آمر‘ جمہوری اور جمہوری آمروں سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں جس کے بارے میں اس وقت بھی ایسی ہی خبریں چھپتی رہیں لیکن ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ہی ایسا ہوا اگر اس کی تفصیل میں جانا ہے تو توشہ خانہ کے کرتا دھرتا سرکاری اہلکاروں سے گزشتہ 75سالوں کی تفصیل لے لیں اگر وہ فراہم نہ کریں (جو یقیناً نہیں کریں گے) تو پھر ماضی کے ان حکمرانوں کے تمام چھوٹے بڑے گھروں میں گھوم کر دیکھ لیں سب نے ایسی قیمتی اشیاء ڈرائنگ رومز اور جسموں کی زینت بنا رکھی ہیں یہ قوم سے کوئی ایسے اعلیٰ نسل یا روایت کے مالک ہیں کہ ان قیمتی تحفوں کو نیلام عام کر کے حاصل کردہ آمدنی کسی یتیم خانے کو دے دیں بلکہ ہاں یاد آیا یہ تو یتیم خانے کے فنڈز بھی کھاتے ہیں گزشتہ ادوار سے ایسے مقدمات ابھی تک پینڈنگ ہیں اور ابھی ابھی حکومت سے جانے والوں کے مقدمات کیلئے ریفرنس تیار ہو رہے ہیں۔
ادھر بجلی کی قیمت میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارج کے نام پر ایک مرتبہ پھر تقریباً 5روپے اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط ہے‘ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ واپڈا کی ملکیت زیادہ پاور جنریشن پلانٹ بند پڑے ہیں اور بجلی پرائیویٹ سیکٹر سے معاہدے کے تحت خریدی جا رہی ہے تو پھر یہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کس مرض کی دوا ہیں کیا پرائیویٹ کمپنیوں کو واپڈا ان کے معاہدے سے زیادہ پیسے ادا کر رہا ہے اس حوالے سے تحقیقات بہت ضروری ہیں۔
فیس بک کمینٹ