پاکستان میں مزارات کو اب تسلسل کے ساتھ نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ماضی میں مزارات پر حملوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے
۔۔ بلوچستان کے ضلع خضدار میں 13 نومبر 2016 کو دربار شاہ نورانی میں ہونے والے ایک دھماکے میں 54 افراد لقمہ اجل بنے۔
۔۔ ڈیرہ غازی خان میں حضرت سخی سرور کے مزار پر چار اپریل 2011 کو ہونے والے دو خود کش حملوں میں 43 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ حملے کے وقت عرس میں شرکت کے لیے ہزاروں زائرین دربار پر موجود تھے۔
۔۔ کراچی میں صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں آٹھ اکتوبر 2010 کو دو خودکش حملوں کے نتیجے میں دس افراد ہلاک اور 55 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
۔۔ لاہور میں داتا دربار پر دو جولائی 2010 کو ہونے والے خود کش حملوں میں کم سے کم 35 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
۔۔ نوشہرہ میں واقع بہادر بابا کے مزار کو نامعلوم افراد نے چھ مارچ 2009 کو بموں سے نقصان پہنچایا۔ تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
۔۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے مضافات میں چمکنی کے علاقے میں پانچ مارچ 2009 کو نامعلوم افراد نے مشہور صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار کو تباہ کر دیا تھا۔
۔۔ خیبر ایجنسی میں لنڈی کوتل سب ڈویژن میں 11 مئی 2009 کو مقبول پشتو شاعر امیر حمزہ خان شنواری کے مزار کی بیرونی دیوار کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔
۔۔ پشاور سے ملحق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں مارچ 2008 کو سرگرم لشکر اسلام نے صوبائی دارالحکومت کے قریب شیخان کے علاقے میں چار سو سال پرانا ابو سید بابا کا مزار تباہ کرنے کی کوشش ناکام بنانے کے دوران ایک جھڑپ میں دس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
۔۔ 18 دسمبر 2007 کو عبد الشکور ملنگ بابا کے مزار کو دھماکے سے نقصان پہنچایا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
۔۔ اسلام آباد میں مارچ 2005 میں معروف بری امام کے مزار پر پانچ روزہ سالانہ عرس کے اختتامی دن ایک خودکش حملے میں 20 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
۔۔ ضلع جھل مگسی میں فتح پور کے مقام پر ایک مزار پر ہونے والے ایک حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
فیس بک کمینٹ