ہم دنیا کی دلچسپ قوم ہیں، جو کام ہمارے کرنے کےہیں وہ نہیں کرتے جو نہیں کرنے کے ان میں اپنی ٹانگ ضرور اڑاتے ہیں ۔ اپنے شعبہ کی بجائے دوسرے شعبہ میں ماہر بنے نظر آ تے ہیں ، ہمارے ملک میں کوئی شخص یا کوئی ادارہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کو تیار ہی نہیں۔ کسی شادی میں کھانا پک رہا ہو تو ہم خوامخواہ ہی مامے بن کرکہتے ہیں مانوںنہ مانوںیہ کھانا کم ہوجائے گا ، جبکہ یہ کام تو اس کھانا بنانے والے کا ہے اب ملک میں بھی عجیب رواج نکلا ہے یہاں الیکشن کمیشن وارنٹ گرفتاری جاری کردیتا ہے جبکہ سپہ سالار معیشت پر لیکچر دے رہے ہیں بدھ کے روزآئی ایس پی ار کے زیر اہتمام معیشت پر سمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں ہمارے سپہ سالار نے کہا ” سکیورٹی بہتر کرلی ، اب معیشت بہتر کی جائے ، شرح نمو بہتر مگرقرضے آ سمان سے باتیں کررہے ، ہمیں اپنا ٹیکس نیٹ وسیع کرنا ہوگا “ ویسے تعجب کی بات ہے کہ سپہ سالار معیشت پر پریشان ہو جبکہ یہ اس کی ذ مہ داری نہیں اس کے لیے حکومت اس کی وزارت خزانہ اور منتخب نمائندے موجود ہیں ۔ ان کی ذمہ داری سرحدوں کی حفاظت اور ملک میں امن و امان کویقینی بنانا ہے ۔ کل پریس کلب میں سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے فوج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر معیشت اور کمرشل معاملات اداروں نے چلانے ہیں ، اداروں نے کالونیاں اور پراپرٹی کا کام کرنا ہے تو دفاع کون کرے گا ؟ سہیل وڑائچ صاحب کے ”محبوب “ کی بات کریں تو وہ بھی اپنے ذ مہ کام کی بجائے فون ریکارڈ کرنے اور سیاسی جماعتوں میں گروپنگ کرنے میں سرگرم ہے اگر سیاسی رہنماؤں کی بات کریں تو وہ بھی قانون سازی کی بجائے فتوے دینے میں مگن ہیں ۔ ملک میں عجیب ہی ماحول بنا ہوا ہے ہماری سرحدوں پر کشیدگی بڑھتی جارہی ہے ، لیکن ہم اپنی اپنی ذ مہ داری ادا کرنے کی بجائے دوسروں کی ذ مہ داریاں نبھانے میں مصروف نظر آ تے ہیں ۔اس لیے ہم تو یہی کہیںگے جس کا کام اسی کو ساجھے ۔
فیس بک کمینٹ